پھر جب معاشرے میں بات پھیلتی ہے، تو دونوں ہی خاندانوں کی جانب سے صفائی اور وضاحت کی خاطر ہر صحیح اور غلط بات بیان کی جاتی ہے، اس کے بعد از سر نو رشتے کی تلاش کا عمل شروع ہوتا ہے، جو پہلے کی بہ نسبت زیادہ مشکل ثابت ہوتا ہے۔
اس صورتحال کے پیش آنے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں
لڑکا یا لڑکی کی عمر، بیماری اور عیب کو چھپالینا ، جسے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے، بعد میں کسی ذریعے سے جوں ہی فریق ثانی کو مذکورہ باتوں کا علم ہوتا ہے، وہ خود کو فریب زدہ محسوس کرتے ہیں اور ان کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے، چنانچہ وہ رشتہ ختم کر لینا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لئے ایسی باتوں کی اچھے انداز میں پہلے ہی وضاحت کردینا چاہیے۔
کسی تیسرے فرد کا عاقدین یا ان کے اہل خانہ کو ایک دوسرے کے متعلق بد گمان کرنا، اور ایک فریق کے متعلق دوسرے فریق کے سامنے ایسی منفی باتیں کرنا کہ وہ خوفزدہ، پریشان یا مایوس ہوجائے اور رشتہ ختم کر دینے پر مجبور ہوجائے۔ بعض لوگوں کا یہ مشغلہ ہوتا ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں، کسی نہ کسی کی برائی ضرور بیان کرتے ہیں، کہاوت مشہور ہے: رشتہ بنانے والا ایک ہوتا ہے اور بگاڑنے والے بے شمار۔ اہلکار حضرات کا کہنا ہے کہ رشتوں کے طےہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ایسے کمینہ خصلت افراد کا یہ گھٹیا عمل ہے۔اللہ کی لعنت ہو ایسے جھوٹے اور کمینہ لوگوں پر یہ لوگ ہمارے دشمن بھی ہوسکتے ہیں اور رشتے دار اور پڑوسی بھی!اس لئے لڑکا اور لڑکی کے سرپرستوں کو چاہیے کہ رشتہ طے کرنے سے قبل اچھی طرح ایک دوسرے کے متعلق اطمینان کرلیں اور جب پوری طرح دل مطمئن ہوجائے اور ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوجائے، اس کے بعد ہی رشتے کی گفتگو کو حتمی شکل دیں۔اب اس کے بعد اپنے اعتماد کو برقرار رکھیں اور کسی بھی شخص کی بات سن کر اپنے اعتماد کو کمزور نہ ہونے دیں۔ اگر کسی کی بات میں حقیقت اور سچائی محسوس ہو تو حکمت کے ساتھ اس کی تحقیق کرلیں، تاکہ معلوم ہوسکےکہ بات کہنے والا ہمارا خیرخواہ ہے یا بد خواہ ؟
افسوس کہ لوگوں کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ اگر چار افراد کسی کی تعریف کریں تو ان کا دل مطمئن نہیں ہوتا، لیکن اگر ایک شخص بھی کسی کا عیب بیان کردے تو فورا اس پر یقین کر لیتے ہیں ۔یہ دراصل انسان کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے ۔یاد رکھیں! ہر انسان کے دوست کے ساتھ کچھ دشمن بھی ہوتے ہیں، کسی شخص کو معاشرے کے سو فیصد افراد اچھا کہیں، یہ اعزاز تو خدا کے نیک اور برگزیدہ بندوں کو بھی نہیں مل سکا۔ بقول شاعر
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
ایسے واقعات سے بچنے کا بہترین راستہ یہی ہے کہ رشتہ طے کرنے سے قبل مناسب طریقہ پر تحقیق کرلی جائے اور جب اطمینان ہوجائے تو رشتہ طے ہو جانے کے بعد نکاح میں اتنی تاخیر ہی نہ کی جائے کہ کسی کو بد خواہی اور شرارت کا موقع مل سکے، یوں بھی نکاح میں عجلت کا حکم دیا گیا ہے، جس میں بہت ساری حکمت و مصلحت پوشیدہ ہے۔
سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔