ایم وے نامی کمپنی کے ساتھ تجارت تعارف طریقہء کار، جائزہ اور شرعی حکم
کچھ عرصہ بلکہ تقریبا دو سال ہوئے کہ ایم وے نامی کمپنی کا نام سننے میں آیا، اور پچھلے ایک سال سے زائد عرصہ گزر رہا ہے کہ مختلف مقامات سے اس کمپنی میں شرکت کرنے اور اس کے متعلق شرعی حکم جاننے کے لیے، بے شمار حضرات سوالات پوچھتے رہے، اور اب جب کہ ہزاروں افراد اس میں شریک ہو چکے ہیں اور ہزاروں شریک ہونے کے لیے متردد اور ہزاروں مسلسل استفسارات کرتے رہتے ہیں ، اس لیے قدرے تفصیل سے اس کے متعلق لکھا جانا ضروری ہے۔
بے شمار مسلمان سطحی طور پر اس کے جائز ہونے کا گمان قائم کر کے اور بے شمار اس کے کارکنان کی چرب زبانی اور مستقبل کے سبز باغ دکھانے کے نتیجے میں، اس کو جائز کہہ کر اس میں شریک ہو چکے ہیں، اور اس طرح یہ کمپنی صرف جموں وکشمیر سے کروڑوں روپے اب تک لے چکی ہے
اس کمپنی کا طریقہ کا رقدرے الگ نوعیت کا ہے ،اور ایک حد تک پر پیچ بھی ہے، اس لیے اس کا لٹریچر ( جو بہت مفصل انداز کا شائع شدہ ہے) کا مطالعہ کرنا اس کارکنوں سے تفصیل کے ساتھ سنا اور پھر شرعی ضوابط کے مطابق اس پر غور کر نا ضروری ہے ۔ ذیل میں اس کا تعارف طریقہء کار اور پھر اس کمپنی کے متعلق عموی جائزہ اور آخر میں بصورت فتوی شرعی حکم لکھا جا تا ہے:
تعارف: یہ کمپنی ایم وے (Amway)نام کی ہے ،امریکن کمپنی ہے اور عرصہء طویل سے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی مصنوعات اپنے مخصوص انداز میں فروخت کر رہی ہے،اب یہ ایم وے کار پوزیشن سے ہندوستان میں آئی ہے اور یہاں کی اکثر ریاستوں اور صوبوں میں سرگرم ہے۔
طریقہ کار: اس کمپنی کا طریقہء کار یہ ہے کہ جو شخص اس میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ ایک مخصوص رقم مثلا ۴۴۰۰ یا ٦٣٠٠ روپے کمپنی کو دیتا ہے ، اس کے بدلے میں اسے ۲٦۰۰ روپے کی کمپنی کی مصنوعات ملتی ہیں ، یہ مصنوعات بہت معیاری قسم کی ہیں ،خریدار یہ مصنوعات چاہے خود استعمال کرے یا کسی اور کو فروخت کرے ،ساتھ ہی اس کو مزید خریدار مہیا کرنے کے لیے کچھ فارم ملتے ہیں،اور کمپنی کا تعارفیل ٹریچر۔ یہ سب ایک کٹ(Kit) میں دیا جا تا ہے۔ بقیہ رقم کمپنی رجسٹریشن فیس کے نام سے لے لیتی ہے۔اب یہ خریدار مزید خریدار مہیا کرتا رہے گا ، اور ان مزید خریداروں کو بھی اس طرح کا طریقہء کار انجام دینا ہوتا ہے، یہ شحض مزید حتنے خریدار مہیا کرے گا ان خریداروں کی دی ہوئی رقم سے اس پہلے والے شخص کو کمیشن ملتا رہے گا یہ شخص نئے خریدار مہیا کرنے کا ایجنٹ ہوتا ہے،اگرچہ کمپنی اس کا نام ایجنٹ نہیں بلکہ ڈسٹری بیوٹر رکھتی ہے۔مثلا الف نام کے شخص نے ایم وے میں شرکت کی اور مخصوص رقم دی ،اس کو مصنوعات مل گئیں ،اور اب یہ مزید خریدار مہیا کرنے کے لئے سرگرم ہو گیا ۔فرض کریں میں اس نے چھ مزید خریدار کمپنی کے ساتھ جوڑ دئے، اور ان چھ میں سے ہر شخص نے مزید چھ چھ افراد کو ایم وے کمپنی کے ساتھ جوڑ دے تو اب یہ ٣٦ افراد پر مشتمل گروپ بن گیا ،ان چھتیس افراد کا کمیشن اس پہلے والے شخص الف کو بھی ملے گا، اور اس الف کے ذریعہ مسلک ہونے والے چھ افراد کو بھی۔ جس شخص کا قائم کردہ سلسلہ جتنا بڑھتا جائے گا اسے اتنا ہی زیادہ کمیشن ملتا ہی جائے گا۔
کمیشن کی شرح کا ایک نظام بنا ہوا ہے جو تین فیصد سے لے کر اکیس فیصد تک، اسی طرح بعض کمیشن لینے والے ہر ماہ دس ہزار، بعض چالیس ہزار اور کچھ اس سے زائد حتی کہ لاکھ روپے ماہانہ تک کما سکتے ہیں۔کمپنی کی مصنوعات معیاری ہیں لیکن بہت زیادہ قیمتی ہیں ،اور اتنی قیمتی کہ اس درجہ کی قیمت کی یہ مصنوعات یہاں کے بازاروں میں نہیں ہیں کمپنی شریک ہو نے والے فرو کو ڈسٹری بیوٹر قرار دیتی ہے،اور اس سے لائسنس کا فیس بھی وصول کرتی ہے۔ آ ج کل یہ کمپنی کم از کم ۴۴۰۰ روپے لیتی ہے ،اس میں۔ ٢٦٠٠ روپئے کا سامان ٤٤٠٠ روپئے کا لٹریچر١٨٠٠ روپئے رجسٹریشن فیس ہے۔ یہ ہے کمپنی کا تعارف اور طریقہء کار۔
اس تجارت کے متعلق شرعی فیصلہ کرنے سے پہلے اگر اختصار کے ساتھ اس کا جائزہ لیا جائے،تو سراسر استحصال کا نظام ہے،اس میں شریک ہونے والا شخص اس کی مصنوعات کا ضرورت مند ہونے کی بناء پر نہیں،بلکہ صرف اس کمیشن کی لالچ میں شریک ہوتا ہے جس کا اس کو خواب دکھایا جاتا ہے۔ اس کی مصنوعات جو بھی اب تک یہاں کے لوگوں کو دی گئیں ان میں سے تمام چیزیں یہاں کے عام انسانوں کے لئے غیر مفید ہیں۔گاڑیوں کو صاف کرنے کے لئے کارواش (CARWASH) ظاہر ہے صرف کسی گاڑی والے لے لئے استعمال کی چیز ہوسکتی ہے، لیکن جس کے پاس گاڑی نہ ہو وہ اسے یا تو پھینکنے پر مجبور ہے یا کسی اور کو فروخت کرے گا لیکن کوئی دوسرا شخص اتنا مہنگا کارواش کیوں لے گا ؟ جب کہ وہ اب تک اس کے بغیر اس سے نہایت کم خرچ پر صاف کراتا رہا۔ اسی طرح جو عام انسان ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنے کا نہ عادی ہے نہ اس کی آمدنی اس کا تحمل کر سکتی ہے ،اسے تقر یا سو۱۰۰ روپے کا یہ پیسٹ جو ایم وے اسے تھما دیتی ہے کس کام کا ہے؟
یہ کمپنی اپنی مصنوعات کی قیمت بھی وصول کرتی ہے اور پھر مزید ہر شخص سے اٹھارہ سو روپے بھی، اب یہ رقم دینے والا مزید خریدار مہیا کرے تو اس سے بھی کمپنی اپنی مصنوعات کی قیمت بھی وصول کر لیتی ہے اور مزید اٹھارہ سو روپے بھی۔ اس رقم میں سے بہت معمولی رقم پہلے والے شخص کو بطور کمیشن تھما دے گی، اور اس طرح کمپنی بہر حال نفع ہی نفع میں ہے۔
اس کمپنی کی مصنوعات میں کسی شخص کو انتخاب اور رد و قبول کا بھی حق نہیں ہے۔ بس ہر شخص کو رقم دینی ہے، پھر کمپنی اپنے فائدہ اور منصوبہ کے مطابق کٹ روانہ کر دیتی ہے اس کٹ ( اشیاء کا ڈبہ ) میں کیسی کیسی چیزیں ہیں یہ جانے بغیر خریدنے والے کو تمام چیز میں لینی لازم ہیں، واپس کر نا چاہے تو کمپنی تیس (۳۰) فی صد رقم وضع کر لیتی ہے۔
خریدار کو جو کمیشن ملتا ہے وہ یا تو اٹھارہ سو روپیے جو کمپنی لے لیتی ہے پر ملنے والا اضافہ ہے اگر یہی تسلیم کیا جائے تو یہ سراسر سود ہے، اور اگر اس اٹھارہ سو روپے پر یہ اضافہ نہ مانا جائے بلکہ یہ کہا جائے یہ رقم خریدار مہیا کرنے پر موقوف ہے تو ظاہر ہے اس صورت میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر خریدار مل گئے تو ماہانہ کمیشن ملتا رہے گا ، نہ ملے تو اٹھارہ سو کمپنی نے ہڑپ کر لیے۔
کمپنی یہ کہتی ہے کہ ہمارا نہ کوئی بروکر ہے نہ ھول سیلر ، نہ رٹائیلر ، نہ پبلسٹی کا خرچہ
ان تمام خرچوں کو بچا کر ہم خریداروں میں ہی تقسیم کر دیتے ہیں ، حالاں کہ فی ہفتہ سیمینار وہ بھی فائیو اسٹار ہوٹلوں میں نہایت اونچے اخبارات میں اشتہارات، مثلا ”OUTLUK‘‘اور’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں ، اور ان اشتہارات میں آنے والا صرفہ ظاہر ہے خریدران سے حاصل شدہ رقوم سے ہی حاصل کیا جا تا ہے۔
کمپنی لائسنس فیس جس کو رجسٹریشن فیس بھی کہتے ہیں،اس کا کہیں کوئی حساب نہیں،اور وہ بہر حال کمپنی کی ایسی حاصل شدہ رقم ہوتی ہے کی ہر خریدار کو دینی لازم ہے، اور اس کے نتیجے میں ہر شخص سر خریدار ہو کر بھی یہ فیس دینے پر مجبور ہے، ورنہ خریدار بھی نہیں بن سکتا،اور اس کا کوئی فائدہ نہیں،اگر اس کو آئندہ کوئی فائدہ اٹھانا ہے تو مزید خریدار مہیا کرتا رہے،یعنی دوسروں کو اس میں جوڑ کر خود کے استحصال کا شکار ہونے پر ان کا استحصال کرے۔
در حقیقت میں سارا نظام تجارت”پھننسو اور پھنساؤ‘‘ پرمشتمل ہے ۔ اسی صورت حاں میں علماء اور ارباب افتاء کے سامنے یہ سوال آیا کہ اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ کریں۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند‘‘اور’’ندوۃ العلماء لکھنؤ ‘‘ان دو جگہوں سے اس کے ناجائز ہونے کا فتوی جاری ہوا جب کہ مظاہر العلوم‘‘ کی طرف سے جواز کا فتوی دیا گیا ( بعد میں رجوع فرمالیا اور عدمِ جواز کا فتوی جاری کیا ، جیسا کہ اس سے قبل ہی حضرت مفتی طاہر صاحب دامت برکاتہم کا فتوی موجود ہے )۔
وادی کشمیر میں چونکہ یہ فتاوی اشاعت پذیر نہ ہوئے اس لئے بکثرت لوگ اس کے متعلق سوالات کرتے رہتے ہیں ، اس لئے دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ سے درج ذیل فتوی جاری ہوا اور یہاں کے اخبارات میں شائع ہوا اس کی نقل درج ذیل ہے:
حامد أمصلیا ومسلما : ایم وے نامی کمپنی میں ایک مخصوص رقم ( ۴۴۰۰ ) روپے (٦٣٠٠ ) روپے جب کوئی شخص دیتا ہے تو کمپنی کچھ رقم کے عوض رقم دینے والے کو کچھ مصنوعات دیتی ہے اور بقیہ رقم کمپنی خود رکھ کر اس شخص کو مزید خریدار مہیا کرنے کا ایجنٹ بناتی ہے ، گویا رقم دینے والا بیک وقت خریدار بھی ہوتا ہے اور اس کمپنی کے لئے مزید خریدار مہیا کرنے والا دلال بھی ، اور یہ دونوں معاملے ایک ہی معاہدہ میں طے ہوتے ہیں اور یہی کمپنی کا طریقہ کار ہے ۔ اس کو شرعی اصطلاح میں یوں کہا جا تا ہے کہ عقد واحد میں دو امور ( دو عقد ) متحقق ہوئے: شراء اور اجارہ مصنوعات لینے کے نتیجہ میں یہ شخص خریدار یعنی مشتری بنتا ہے اور مزید خریدار مہیا کرنے کی بناء پر اجیر یعنی ایجنٹ یعنی دلال بنتا ہے اس طرح عقد واحد میں دو عقد پائے گئے ۔ جب کہ حدیث میں ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ترمذی شریف ۲/ ۱۴۷ میں حدیث اس طرح آئی ہے عن ابی ھریرہ (رضی اللہ عنہ) ان النبی ﷺ نھی عن بیعتین فی بیعۃ اسی طرح مسند احمد میں ایک حدیث اس طرح آئی ہے عن ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) قال نھی النبی ﷺ عن صفقتین فی صفقۃ امام ترمذی نے اس حدیث کو حدیث صحیح کہا ہے ملاحظہ ہوا بواب البیوع ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک بیع میں دو بیع میں لینی ایک معاملہ میں دو معاملہ جمع کرنے سے منع فرمایا۔ زیر بحث مسئلہ میں یہی صورت حال ہے کہ ایک ہی معاملہ میں دو معاملے قرار پاتے ہیں ، ایک معاملہ بیع اور ایک معاملہ اجارہ ۔ یعنی ایک ہی عقد کے نتیجہ میں ایک شخص خریدار بھی بنتا ہے اور اجیر بھی اور اسی کو حدیث میں منع کیا گیا ہے لہذا یہ طریقہ تجارت ناجائز ہے۔
یہ اس لیے بھی ناجائز ہے کہ اشیاء کی خرید موقوف مشروط ہے رجسٹریشن فیس دینے پر ، یعنی دلال بننے پر ، اور دلال بنا موقوف ہے اشیاء کی خرید پر تو یہی مشروط بھی ہوئی اور بیع مشروط کے متعلق حدیث میں فرمایا نھی النبی ﷺ عن بیع وشرط (زیلعی بحوالہ طبرانی ) اور حضرات فقہاء نے ایسی بیچ کو فاسد قرار دیا ہے جو ایسی شرائط سے مشروط ہو جو مقتصی عقد نہ ہو۔ چنانچہ البحر الرائق میں ہے ومنھا خلوہ عن شرط مفسد۔۔ ومنہ شرط لا یقتضیع العود وفیہ منفعۃ لا حدھما ( البحر الرائق ۲۸١/٥) نیز ملا حظہ ہو ہدایہ باب بیع الفاسد۔
ایم وے میں بیع مشروط ہوتی ہے اور اس میں صرف کمپنی کا فائدہ ہے کہ اسے رجسٹریشن فیس مل جاتی ہے جب کہ مشتری کو اس پر کوئی فائدہ نہیں۔
اس کے ناجائز ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جو شخص اس کمپنی میں شریک ہوتا ہے وہ اس کی مصنوعات کی ضرورت مند ہونے کی بناء پر یا ان سے منتفع ہونے کی تمنا پر نہیں، بلکہ اس کمیشن کے لالچ میں جو مزید خریدار مہیا کرنے کی صورت میں اس کو ملنے والے ہیں ، اب اگر مزید خریدار مہیا ہو گئے تو یہ شخص ہر ماہ ہزاروں روپے (جس کی مقدار ہر ماہ۴۰٫۰۰۰۰ اور کمپنی کی اصطلاح میں دائمنڈ بننے کی صورت میں لاکھ تک ہوتی ہے لیتا رہے گا اگر نہ مل سکے تو اس کی دی ہوئی وہ رقم جور جسٹریشن فیس کے نام پر اس نے دی تھی وہ ہڑپ کر لیتی ہے ، اس کو شریعت میں جوا، سٹہ کہا گیا ہے کہ کوئی شخص کم رقم دے کر دے رقم کا امیدوار ہے اب یا تو بڑی رقم مل جائے گی اور یا پھر کم دی ہوئی رقم بھی ہڑپ ہوگی اس موہوم نفع کی بناء پر اس کو قمار کہا گیا ہے اور یہی لاٹری یا سٹہ کہلاتا ہے ، چنانچہ جوا بازی کو حرام قرار دیا گیا ،لہذا ایم وے کا تجارتی طریقہ کار جب جوے کی طرح ہے تو اس لئے بھی میں شرعا ناجائز ہے ان وجوہات کی بناء پر کمپنی کے ساتھ تجارت جائز نہیں ایک یہ کہ اس میں صفقتين فی صفقۃ ہے جو حدیث کی رو سے ناجائز ہے ، دوسرے یہ بیع مشروط بشرط فاسد ہے اور یہ بھی ناجائز ہے اور تیسرے اس میں قمار ہے اس لیے بھی یہ ناجائز ہے۔
جن افراد نے اس میں شرکت کی ہے وہ اپنی دی ہوئی رقم کا وہ حصہ لے سکتے ہیں ، جو مصنوعات کی قیمت کے علاوہ ( رجسٹریشن فیس ) ہے ، اور جو مصنوعات کمپنی سے لی گئیں ان مصنوعات پر چونکہ قبضہ پایا اور بھائی فاسد میں قبض مفید ملک ہوتا ہے،جیسے کہ فقہ اسلامی کا مشہور اصول ہے،لہذا وہ اشیاء استعمال کرنا جائز ہوگا،اور ان کو فروخت کرنا چاہے تو یہ بھی جائز ہوگا، یہ اشیاء کمپنی کو واپس کرنا چونکہ مشکل ہے اس لیے خرید کر وہ اشیاء پر بر بنائے وجود قبضہ استعمال درست ہے، ملاحظہ ہو ہدایہ ” باب احکام بیع الفاسد“ لیکن اس کمپنی کے ساتھ تجارت کرنا دوسروں کو اس میں شرکت ہونے کی ترغیب دینا جائز نہیں۔ واللہ تعالی اعلم
العبد نذیر عفی عنہ
مفتی دارالعلوم رحیمیہ بانڑی پورہ
نوٹ: مفتی موصوف کے پاس ایم وے نامی کمپنی کے متعلق سوال پوچھا گیا تھا اس لیے فتاویٰ میں صرف ایم وے کا نام ہے،جبکہ مفتی موصوف نے اپنے بیان میں تمام نیٹ ورک مارکیٹنگ اور اس کے طرز پر کام کرنے والی کمپنیوں کے متعلق عدمِ جواز کا فتوی نشر کیا۔