ڈریم 11 کی تاریخ۔
History of Dream 11
ڈریم الیون (11) ایک ہندوستانی خیالی ( فنتاسی) کھیلوں کا چبوترا (پلیٹ فارم) ہے۔ جس کا آغاز ورون پرموڈ داگا، بھاوت راجیش شیتھ اور ہرش آنند کمار جین، جو ان کے کاغذی شراکت دار ( Partner's) بھی ہیں۔ آؤٹ لک (OutLok) کے مطابق، ہرش جین کا کہنا ہے کہ ہمارے ذہن میں یہ خیال 2008 کے آئی پی ایل (IPL) سے آیا۔
اس کے دو بڑے مرکزی دفتر (Headquarters) ممبئی اور مہاراشٹر انڈیا میں ہے۔ ۲۰۱۲ میں یہ کمپنی عوامی متعارف ہوں گی۔ اوٹ لُک میں اشتہار آیا تھا کہ ۲۰۱۴ میں کمپنی کی طرف سے اطلاع دی گئی، ہمارے ایک ملین صارفین (Users) ہے جو کہ ۲۰۱۸ میں 45 میلن تک پہنچ گئے۔
۲۰۱۶ میں انڈین ہائی کورٹ میں کمپنی کے خلاف مقدمہ درج ہوا، کوٹ نے: آندھرا پردیش، اڑیسہ تلنگانہ وغیرہ میں پابندی عائد کی پھر سپریم کورٹ آف انڈیا نے Gambling Law کے موجودگی میں بھی اس کو جوابازی میں شریک نہیں کیا بلکہ یوں لکھا کہ کی یہ ہنر پر موقوف ہے۔ کیا یہ واقعی جوا نھیں ہے؟ اس تفصیل آگے آرہی ہے۔ مگر Google نے Google Play Store پر ڈریم 11 کی ایپ موجودگی کی اجازت نہیں دی۔
ڈریم 11 کمپنی کی انکم کتنی ہے۔
Income of Dream 11
اس کی انکم کی بات کرے تو عام انسان یہ تصور نہیں کر سکتا ہے کہ صرف ایک ایپ سے کمپنی 750 انکم کرتی ہے۔ کیسے؟ اس ایپ میں مقابلے contests ہوتے ہے تمثیلاً ایک مقابلے کی داخل فیس (Entry Fee) 49 روپے ہے اور اس مقابلے میں 1360544 صارفین داخل ہوسکتے ہے۔ اس مقابلے کی انعامات 5 لاکھ ہوتے ہے۔ اگر 49×1360544 کیا جائے تو ٹوٹل66666656 کرول ہوگا۔ اگر مان بھی جائے گی 5 لاکھ تقسیم کیا بھی گیا پھر بھی 66666656 بچ جاتے ہیں جب کہ ایسا ہوتا نہیں ہے کبھی کبھار اس سے زیادہ بھی بچت ہوتی ہوگی۔
یہ تو صرف ایک مقابلے کی بات ہوتی ہیں اس طرح نہ جانے کتنی مقابلے ہوتے ہیں اور کتنی رقم کمپنی والوں کے پاس چلی جاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ڈریم الیون نے FY19 میں 736Cr ریونیو جنریٹ کیا تھا جبکہ سال ۲۰۱۹ میں اس کے اتنے صارفین نہیں تھے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ابھی اس کے آٹھ سو ملین صارفین ہیں ابھی یہ کتنی انکم کرتی ہوگی۔ اس طرح ایک اور مقابلے جو 35 کا ہے جس میں 2285714 صارفین داخل ہوسکتے ہے۔
ڈریم الیون اسلام میں حرام کیوں ہے۔
Why Dream 11 is prohibited in Islam
آدمی ہمیشہ اپنا فائدہ دیکھتا ہے جب کہ انسان کی فطرت انسانیت کا فائدہ دیکھتی ہے۔ چونکہ دینِ اسلام دینِ فطرت ہیں۔ اس لئے اس کا ہر عمل، حکم فطرت پر مبنی ہوتا ہے اور فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ انسانیت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اگر آپ نے غور و فکر کے ساتھ اوپر کی تحریر کا مطالعہ کیا ہوگا۔ آپ ایک بات ضرور سمجھ گئے ہونگے کہ حرام کام سے ہی مزید حرام کاموں کا خیال آتا ہے۔ جیسے ہرش جین کو آئی پی ایل(IPL) کی وجہ سے اس ڈریم الیون کا خیال آیا تھا۔ ڈریم الیون میں مندرجہ ذیل خرابیاں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کو حرام قرار دیا گیا تھا۔
1۔ یہ جوے ایک تبدیلی شکل ہے:
عام طور پر اس میں کرکٹ مقابلے ہوتے ہیں کرکٹ کو چونکہ ایک جوا ہی کی شکل کہا جاتا ہے۔ دونوں طرف کا پیسا لگایا جاتا ہے ہار جیت کا احتمال ہوتا ہے۔ اس میں تو اس سے زیادہ بھی احتمال ہوتا ہے کرکٹ میں تو صرف دو ٹیموں میں احتمال ہوتا ہے جبکہ یہاں پر دو ٹیمیں میں چنے گئے افرادوں کی کارکردگی پر احتمال ہوتا ہے۔ اس لے قمار کی شرط پائی جاتی ہے جس سے یہ حرم ہو جاتی ہے۔
2۔ استحصال سے پیسہ کمایا جاتا ہے:
کمپنی جو انعامات رکھتی ہیں وہ مقابلے کی داخل فیس سے جمع کرتی ہے جو کہ دوسروں کی رقم ہوتی ہے، ایک شخص کو یہ رقم صرف بغیر محنت، صرف احتمال کی بناء پر ملتی ہے وہی استحصال ہے جو کہ کلام الٰہی قرآنِ مجید نے منع فرمایا ہے۔ ولا تاکلوا امواکم بینکم بالباطل: استحصال سے آپس میں مال مت کھاؤ۔
3۔ اسلامی تجارت کے قوانین کے خلاف:
اسلام میں پیسے کا حکم ہے کہ یہ مارکیٹ میں گردش کرتا رہے نہ کہ کسی ایک شخص کے پاس پیسہ جمع ہو جائیں۔ اوپر کی تفصیلات سے ہمیں یہ بات پتا چلتی پیسہ (ناجائز طریقہ سے) تقسیم بہت کم ہوتا ہے اور کمپنی کے پاس زیادہ جمع ہو جاتا ہے وہ بھی ناجائز طریقہ سے۔
اور فزوں خامیاں اس میں پائی جاتی ہے جس کی بنا پر دارالافتاؤں نے بھی اس پر ناجائز کا فتوی شائع کیا ہے۔
جیسے دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ نقل کیا جاتا ہے:
یہ گیم ڈریم کھیلنا اور اس میں جیتے ہوئے پیسوں کا استعمال کرنا جائز نہیں، یہ ایک قسم کا جُوا ہے اور جوا کو اللہ نے قرآن پاک میں حرام فرمایا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
(Fatwa::428-334/B=5/1441)
اسی طرح دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن پاکستان سے فتویٰ شائع ہوا ملاحظہ فرمائیں:
ڈریم 11 کھیلنے کا حکم
سوال
کیا ڈریم 11 کھیلنا جائز ہے؟
جواب
کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا:
1۔۔ وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔
2۔۔ اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت ہو مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔
3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔
4۔۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔
5۔۔وہ کھیل تصاویر اور ویڈیوز سے پاک ہو۔
حاصل یہ ہے کہ اگر کسی گیم میں مذکورہ خرابیاں پائی جائیں، یعنی اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً: جان دار کی تصاویر، موسیقی اور جوا وغیرہ ہوں، یا مشغول ہوکر شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اسے محض لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو خود اس طرح کا گیم کا کھیلنا بھی جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر یہ خرابیاں نہ ہوں تو بھی موبائل پر گیم کھیلنے میں نہ جسمانی ورزش ہے، نہ دینی یا بامقصد دنیوی فائدہ ہے، بلکہ وقت اور بعض اوقات پیسے کا ضیاع ہے؛ اس لیے بہر صورت اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گیم کے بارے میں حاصل کردہ معلومات کے مطابق، یہ موبائل وغیرہ میں کھیلا جاتا ہے، اس میں تصاویر، کارٹون پائے جاتے ہیں، نیز اس کے کھیلنے سے کوئی دینی یا دنیوی منفعت بھی مقصود نہیں، لہذا اس کا کھیلنا جائز نہیں ہے، بلکہ وقت کا ضیاع ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201439
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
مندرجہ بالا نقصانات، خامیوں اور شرطِ قمار کی وجہ سے ہمیں اسے اجتناب کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو رہنا چاہیے کہ حلال رزق کو کمانے کی توفیق عطا فرمائیں اور انسانیت خصوصاً اہلِ اسلام کو فہمائش کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ ہماری دنیا و آخرت محفوظ رہیں۔ آمین
کتبہ: ماجد کشمیری