حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے مٹی کے کھلونے بنانے اور بعد ازاں توڑنے کا حکم دینا کی تحقیق۔
السلام علیکم ورحمت اللہ
سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر 13
” جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے قوم کے لیے بد دعا فرمائی ، جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے طوفان بھیج کر سارے نافرمانوں کو ہلاک کر دیا تو کچھ عرصہ بعد اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ مٹی کے چند کھلونے بناؤ ، حضرت نوح علیہ السلام نے تعمیل ارشاد میں مٹی کے چند کھلونے بنا لیے ، پھر اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اس کو توڑ دو تو حضرت نوح علیہ السلام نے علم خداوندی کو بجا لاتے ہوئے ان کو توڑ ڈالا ، لیکن ان کھلونوں کو توڑتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام رنجیدہ ہوئے کہ میں نے کتنی مشقت سے ان کھلونوں کو بنایا تھا اور اب ان کو توڑنے کا حکم دیا جارہا ہے ۔ ان کی اس دلی کیفیت پر اللہ تعالی نے ان کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ اے نوح ! ان معمولی بے جان کھلونوں کو توڑنے سے آپ کے دل کو آئی ٹھیس پہنچی ہے تو آپ کی پر بددعا کی وجہ سے نے جن لوگوں کو ہلاک کر ڈالا کیا مجھے اپنے ان بندوں سے محبت نہیں تھی کہ آپ نے ان کی ہلاکت کی بد دعا کی کی ؟ “
یہ قصہ مواعظ اور بیانات میں عام طور پر بیان کیا جاتا ہے ، لیکن یہ واقعہ بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی شان کے خلاف ہے ، کیونکہ حضرات انبیا کرام علیہم السلام نے اپنی امت کے لیے بھی جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی بددعا نہیں کی بلکہ عظیم ہستیاں ہر لحظہ انسانیت کی ہدایت حریص اور ان پر مشفق اور مہربان ہوا کرتی تھیں ۔
حضرت نوح علیہ السلام کا اپنی امت کے لیے بد دعا کرنا بھی کسی قسم کی جذباتیت کی بنا پر نہیں تھا اور نہ ہی اپنے امت کے سینکڑوں سالوں کے اعراض و تکذیب اور مسلسل انکار سے تنگ آ کر اگر انہوں نے بد دعا کی تھی ، بلکہ ان کی بددعا کے پیچھے بھی ان لوگوں کے لیے شفقت اور مہربانی کا جذبہ کار فرما تھا جو ایمان قبول کر چکے تھے ، کہ یا الہ ! یہ کفار اگر زندہ رہیں گے تو یہ ان لوگوں کو گمراہ کر دیں گے جو ایمان قبول کر چکے ہیں ۔
چنانچہ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کی بد دعا کی یہ غرض مذکور ہے ۔ اللہ تعالی حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ کی حکایت کے طور پر ارشاد فرماتے ہیں :۔
وَقالَ نوحٌ رَبِّ لا تَذَر عَلَى الأَرضِ مِنَ الكافِرينَ دَيّارًا . إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا .[٢٧/٢٦]
ترجمہ:اور نوح نے کہا اے میرے رب ! زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔
صاحب معارف القرآن اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔
وقال نوح رب لاتذر…: یہاں سے نوح ؑ کی دعا کا بقیہ حصہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوح ؑ کو کیسے سے معلوم ہوا کہ اگر یہ لوگ زندہ رہے تو ان کی پشت سے کافر ہی پیدا ہوں گے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ بات ؓ نے خود نوح ؑ کو بتا ید تھی کہ آپ کی قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے علاوہ اب کوئی شخص ایمان قبول نہیں کرے گا۔
(دیکھیے ہود : ٣٦ اس آیت کریمہ کو بھی ملاحظہ فرمائیں:)
وأوحِيَ إِلى نوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤمِنَ مِن قَومِكَ إِلّا مَن قَد آمَنَ فَلا تَبتَئِس بِما كانوا يَفعَلونَ۔
ترجمہ:اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ تیری قوم میں سے کوئی ہرگز ایمان نہیں لائے گا مگر جو ایمان لا چکا، پس تو اس پر غمگین نہ ہو جو وہ کرتے رہے ہیں۔)
یہ بات معلوم ہونے کے بعد نوح ؑ نے دعا کی کہ یا اللہ ! زمین پر ان کافروں میں سے ایک ”’ یار“ بھی باقی نہ چھوڑو۔ ”’ یارا“ ’ فیعال“ کے وزن پر ہے، یہ ”’ دار یدور دوراً“ (گھومنا) سے ہو تو معنی ہوگا، ایک پھرنے والا بھی نہ چھوڑ اور اگر ”’ دار“ (گھر) سے مشتق ہو تو معنی ہے، گھر میں بسنے والا ایک فرد بھی باقی نہ چھوڑ۔
بلکہ مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ علیہ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی بددعا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالی کی طرف سے حکم دیا گیا تھا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
قلت: وإن كان لم يؤمر بالدعاء نصا فقد قيل له: أنه لن يؤمن من قومك إلا من قد آمن. فأعلم عواقبهم فدعا عليهم بالهلاك؛ كما دعا نبينا ﷺ على شيبة وعتبة ونظرائهم فقال: " اللهم عليك بهم " لما أعلم عواقبهم؛ وعلى هذا يكون فيه معنى الأمر بالدعاء. والله أعلم.([71:26] - نوح - القرطبي)
ترجمہ : ” اگر چہ نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کے لیے بددعا کا علم صراحتا تو نہیں دیا گیا تھا ، البتہ ان سے یہ کہا گیا کہ آپ کی قوم میں سے اب کوئی بھی ہرگز ایمان نہیں لائے گا سوائے ان کے جو ایمان لا چکے ہیں ۔ تو اس آیت سے ان کو اپنی قوم کا انجام معلوم ہو چکا تھا تب انہوں نے ان کے لیے ہلاکت کی بددعا کی ۔ جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ نے عقبہ و شیبہ کا انجام معلوم ہو جانے پر ان کے لیے بددعا فرمائی تھی،
تو اس طرح ( اگر چہ حضرت نوح علیہ السلام کو صراحتا تو دعا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا لیکن ) معنوی طور پر ان کو دعا کرنا کا حکم دیا گیا تھا ۔ “
لہذا اسی روایات بیان کری کی طرح سے بھی درست نہیں ، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کی بددعا پر کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔ (چند معروف لیکن غیر مستند احادیث)
جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری