بہو کی ساس و سسر کی خدمت کرنا
معاشرے کے بعض اصول درایتی اور اخلاقی ہوتے ہیں۔ ان میں ایک باب یہ ہے کہ بیٹے کی منکوحہ کی خدمت لینا یعنی بہو کی ساس و سسر کی خدمت کرنا۔
جس طرح خاتون کا شوہر کی خدمت کرنا قضاءً نہیں ہے بلکہ دیانتًا واجب ہے اسی طرح ساس و سسر کی خدمت کرنا درایتًا ہے شرعاً نہیں۔
اب دیانتًا کیا ہوتا؟ درایتًا کیا ہوتا؟ اور شرعاً کیا ہوتا؟
یہ خلالِ مولانا بھی نہیں بل کہ مفتی اور قاضی کے درمیان کی ابحاث یعنی مشکل ہے۔
اور بوجہ عدمِ لیاقت میں تبیان از زبانِ عام سے قاصر ہوں۔ اور نہ مخاطبین اس کو حقیقتاً و کاملاً سمجھ سکتے ہیں (اور یہ عیب نہیں)
درایت کو عمیم لہجہ میں کہو تو یہ حکمت ہے یعنی وہ حکمت جس کی وجہ گھرانہ کا ماحول برقرار رہتا ہے۔
بہو کی وہ خدمت اپنے سسر کی کرنا جائز نہیں جس سے ان کی ازدواجی زندگی متاثر ہوں جیسے جسمانی خدمت: پاؤں دبانا الخ
باقی جو عرف میں کی جاتی جیسے بستر لگنا،کھانا پروسنا تو یہ درایتی و اخلاقی حکم ہے کرنا چاہے۔ بل کہ بعض اکابرین نے لازم لکھا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔