ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں انسانوں کی جگہ مشینیں لے رہی ہیں اور وہیں آئی ٹی سیکشن جس تیزی سے ترقی کے اور گامزن ہو رہا ہے۔ اور یہ بات طے ہے جتنا آئی ٹی سیکشن ترقی کرے گا اتنی ہی تیزی سے مِین فورس کی ضرورت کم ہوتی جائے گی اور یہی اَن ایمپلائمنٹ (بے روزگاری) کی اہم وجہ بن جاتی ہے۔ بے روزگاری کیسی بھی فرد بل کہ کسی بھی ملک کی اقتصادی حالات (اِکنامِکل کنڈیشن) کو بری طرح سے خراب کرتی ہے۔ اسے بہتر بنانے کے لئے سب سے بہترین بلکہ واحد طریقہ کاروبار ہے۔ پر بدقسمتی سے عامیانہ یہ ذہن بن چکا ہے کہ بزنس کرنا ہر کسی کا کام نہیں ہے اور ہر ایک جاب (نوکری) کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ جو کہ ایک ناقص خیال ہے۔ اگر انسان کو کامیاب ہونا ہے تو بزنس سے بہترین اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اسلام مکمل نظام زندگی ہے۔ اس لئے اسلام نے کاروبار کرنے کو ایک فرض قرار دیا گیا ہے۔ جیسے فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ طلب كسب الحلال فريضة بعد الفريضة ( البیہقی) حلال کمانا دیگر فرائض کے بعد ایک فرض ہے ۔اس لیے رہبانیت کو حرام کر کے دنیا کو آباد و معمور کرنے کی ترغیب دی گئی۔ اسلامی مزاج یہ ہے کہ انسان کو اپنے آنے والی نسلوں کو قلاش و فقیر چھوڑنے کے بجائے آباد و معمور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شرعی پاس و لحاظ کے ساتھ دنیا کمانے کو بھی عبادت قرار دیتا ہے۔بلکہ یہ تحریر ہوگی ہے کہ کاروبار قیامِ زندگی کا ذریعہ ہے (النساء)
قرآن مجید نے معیشت پر بھی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور ایمان والوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کور کہ تمہیں دوسروں کے مال کو کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقعہ مل جائے (البقرہ) ۔ مذکورہ باتوں سے اسلام میں کاروبار کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔کیونکہ معاش کی عدمِ موجودگی میں زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ اگر انسان کی معاشی زندگی ناکام ہو اور اقتصادی اعتبار سے اتنی کمزور ہو کہ اس کی دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو رہی ہو تو یہ بات عیاں ہے کہ اس کی دینی زندگی بھی مشکلات کا شکار ہوگئی۔ معاشی خوشحالی اللہ تعالی کی نعمت ہے ایک مسلم کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ حلال کمائی کے لئے سعِی کرے۔
نوجوان ماسٹر صاحب کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔ ماسٹر یہ لکھنے کے بعد اس کی طرف مڑے اور بولے” ترقی کے تین زینے ہوتے ہیں پہلا زینہ محنت ہے، آپ جو بھی ہیں اگر آپ کام کے بدلے کام کریں گے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ مطلب اگر آپ کوئی سا بھی کام شروع کر دیں، آپ کی دکان ( کاروبار) صبح سب سے پہلے کھلنی چاہیے اور رات کو آخر میں بند ہونی چاہیے آپ کامیاب ہو جائیں گے“۔ ماسٹر صاحب نے کہا ”ہمارے اردگرد موجود ٩٠ فیصد لوگ سست ہیں،یہ محنت نہیں کرتے“۔آپ جو ہی محنت کرتے ہیں آپ ٩٠ فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آ جاتے ہیں۔ آپ ترقی کے لئے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں۔ اگلا مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے۔ایمانداری چارا عادتوں کا پیکیج ہے۔ وعدے کی پابندی،جھوٹ سے نفرت،زبان پر قائم رہنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔
پھر ماسٹر صاحب نے بتایا۔” لیکن یاد رکھو ہنر، پروفیشنل ازم اور اسکل(Professionalism and Skills) کی شرح صرف ٢٠ فیصد ہے اور یہ بیس فیصد بھی آخر میں آتا ہے۔آپ کے پاس اگر ہنر کی کمی ہے تو آپ بھی محنت اور ایمانداری سے ٨٠ فیصد کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا آپ بےایمان اور سست ہوں اور آپ صرف ہنر کے زور پر کامیاب ہو جائیں۔ آپ کے دماغ میں بس اتنا ہو کہ میں محنت کروں گا تو کامیاب ہوں۔“
نوجوان ماسٹر صاحب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ماسٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ” میں نے دنیا کی بے شمار ہنر مندوں اور فنکاروں کو بھی بھوکے مرتے دیکھا،کیونکہ وہ بےایمان بھی تھے اور سست بھی اور میں نے دنیا کے بے شمار بےہنر افراد کو ذاتی جہاز اڑاتے دیکھا،کیوکہ وہ محنتی تھے۔تم ان تین لکیروں پر چلنا شروع کر دو۔ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے۔“
ماسٹر صاحب کی باتیں نوجوان کی دماغ میں گھر کر چکی تھی۔ نوجوان نے مکمل ارادہ کرلیا تھا کہ اب وہ تین لکیروں پر عمل کرے گا۔ کامیابی اسی میں تھی کچھ ہی دن گزرے کہ نوجوان کامیاب لوگوں میں سے ایک تھا جن کی لوگ مثال دیا کرتے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔