دارالعلوم رحیمیہ کشمیر کا پہلا سفر

0

 ایک ایسا دن جب میری امیدیں رنگ لیتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ پانچ سالوں کی محنت رنگ لانے کو تھی، میرے عزائم میں سے ایک عزم پورا ہونے کو تھا۔ پہلی دفع جب اہل خانہ راضی ہوئیں۔۔وہ دن: جب میں دارالعلوم رحیمیہ کشمیر میں داخلہ کے لیے گیا، اس روز میں اپنے کمرے میں تشریف فرما تھا اور تدابیر اور تراکیب کو عملی جامہ پہنانے کی سعی کررہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی: کون

: میں ہوں، امی، آئیں۔ بابا کہہ رہے ہیں آپ کو آنا ہے تو اٹھو، کہاں، مدرس: میں پھولے نہ سمایا، ایسا لگا کہ یہ ظریفانہ کہہ رہیں ہیں، پر سنجیدگی کے آثار نظر آ رہے تھیں، آخر، میں اٹھا اور نیچے گیا تو بابا جان بات کہہ رہیں ہیں بڑے بھائی سے: چلیں کوئی ڈرائیور دیکھ لیں، ہم اپنی گاڑی میں جائیں گے تاکہ تاخیر اور تھکاوٹ محسوس نہ ہو، لمبا سفر ہے۔ انکی نظر میں کوئی نہیں آیا پر راقم الحروف نے اپنے عزیز دوست مزمل کو فون گھمایا، اور انھیں عاجزانہ درخواست کی کیا آپ مصروف تو نہیں ہے آپ ہمارے ساتھ چل سکتے ہے سفرِ عظیم (ہمارے لیے تو سفر عظیم ہے)  پر، شقاوت سے انہیں مصروفیات تھی،انہیں، الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دیں رہیں تھیں،۔۔۔۔ اور امی نے کہا کہ کیا بولیں۔۔۔ کچھ نہیں وہ مصروف ہے۔۔۔۔ بابا نکل گئیں اور مزمل بھائی کا فون آیا کہ چلیں ہم عملِ حال کو مؤخر کر رہے ہے ہم آپ کے ساتھ ہی چلیں گے۔ پر والد صاحب ابھی واپس نہیں آئیں تھیں اور میں نے ان سے کہا، روکیں! بابا یہاں نہیں وہ باہر نکلیں ہیں، ہم انتظار کرتے ہے، ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ابو آئیں اور بولیں اٹھو! ہم نکلتے ہیں اب ہم ٹرین سے جاتے ہیں۔۔۔۔بڑے بھائی نے ٹرین اسٹیشن تک چھوڑا اور ہم نے ٹکٹ نکالی۔۔۔۔انت ناگ سے سوپورہ تک۔۔۔۔۔اسٹیشن پہ والد صاحب کے خالہ زادہ۔۔۔۔ ملیں۔ ان سے بابا نے گفتگو کی وہ مدارس سے واقف تھے اور۔۔۔۔ آخر میں والد سے بولیں: اب دیکھنا اور محسوس کرنا کہ کس قدر وسیع اور کیسا تعلیمی نظام ہے۔۔۔ 

 ٹرین میں بھیڑ کی وجہ سے ایک جگہ نشست نہ ملی تو میں تھوڑا دور بیٹھ گیا۔ میں خود تشویش میں مبتلا تھا اور والد محترم کا چہرہ بھی مایوس نظر آ رہا تھا جیسے کہ عمیق سوچ میں ڈوب گیا ہیں۔ ۔۔۔ پھر بھیڑ سری نگر میں کم ہوئی اور ابو میرے پاس آئیں۔۔۔میرے پاس ایک چاچا تھے ان سے بات کرنی شروع کی۔۔۔۔میں جس تشویش میں گیر تھا اس میں اضافہ ہوا اور دروازے پر بیٹھ گیا ہوا لینے کے لئے۔۔۔۔۔ اور مجھے محسوس ہوا میں والدین کا گناہگار اور مجرم ، گلٹی فیل ہوا ۔۔۔۔۔۔آخر۔۔۔ سوپورہ پہنچ گئے وہاں سے بانڈی پورہ کی گاڑی لی۔۔۔۔۔ اور اپنی منزل پر پہنچ گئیں یعنی دارالعلوم رحیمیہ، وقت نماز کا تھا ہم نے غسل خانے کی جانب رک کیا، وضو کرنے سے پہلے ایک سریلی آواز اپنی طرف مبذول کرنے لگی: مولانا صاحب طلبا کو بیدار کر رہے تھیں: اٹھو، اٹھو آپ ابھی بھی سو رہے ہو، ذرا اس کو دیکھو، ذرا اِس کو دیکھو ۔ کتنی سریلی اور جذبہ ایمان کو بڑھانے والی صدا تھیں۔۔۔۔ نماز ادا کرنے کے غرض سے عمیم طلبا اور ہم مسجد شریف کی طرف قدوم بڑھاتے ہوئے ۔۔۔۔ اور پھر سنتیں ادا کرنے کے بعد دبر کی طرف دیکھا تو علامات مسلمانی سے لبریز چہرے دیکھنے کو ملیں۔۔۔۔ اور دیر بعد وقتِ نماز آ پہنچا ادارے کے مہتممِ (دارالعلوم رحیمیہ کشمیر) کے بھائی جان جو موصوف کے چہرے کے ساتھ بہت مماثلت رکھتیں ہیں، انہوں نے نماز ادا کروائی اور انفرادی دعائیں مانگنے کے ازیں ہم العبد وسیم اکرم دامت برکاتہم العالیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔  معمولاً میں کتب خانہ کی طرف منعطف ہوتا ہوں مجھے رحیمیہ کا کتب خانہ نظر آیا۔۔۔میں اس جانب مبذول ہوا تو ۔۔۔۔ اچانک ان کا فون آیا اور معلوم کر رہیں تھیں کہ کہاں آپ تشریف فرما ہے۔۔۔ میں واپس آیا۔۔۔ان سے ملاقات کے شرف سے مشرف ہوئے اور ہم مہمان خانے کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔۔۔کچھ گونا گوں باتوں کے ازیں۔۔۔۔ کھانا لایا گیا اور ہم نے تناول کے لیے (تب سے مجھے بھوک سی لگ رہی ہیں)، جس کا میں تبرکاً فریفتہ ہوا ۔۔۔۔۔ پھر داخلہ کے کاروائی کا عنفوان ہوا.... محکمہ داخلہ کے منتظم سے تنوع باتوں کے ساتھ انہوں انگریزی میں محاورہ ارشاد فرمایا جس کا مطلب:” خدا مدد ان کی کرتا ہیں جو خود کی مدد کرتے ہیں“ ۔۔۔خیر داخلہ فارم دینا کے  بعد مفتی دامت برکاتہم العالیہ کے پاس امتحان دینے کے لیے جانا تھا۔۔۔ انہوں نے تعارف کے بعد سابقہ مطالعہ شدہ کتب کو نوشت کرنے کا حکم دیا ۔۔۔۔۔۔ اور ایسا ہی کیا گیا ۔۔۔پھر قرآن کی روانگی و ادائیگی کا جائزہ لیا ۔۔۔۔ آخر الحمد مشکلاً کامیابی حاصل ہوئی ۔۔۔۔ پھر بابا سے باتیں ہوئیں۔۔۔۔ اور دیر کے سبب ہم  روانہ ہوئے ۔۔۔۔ دلِ مسرور کی حالت ہی نہ پوچھئے۔۔۔۔ جاری 

معراج جسمانی ہوئی یا روحانی| نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات روحانی ہیں یا جسمانی۔

0

 معراج قسطہ ۵

ملفوظات گھمن ۵

معراج جسمانی ہوئی ہے!


بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج جسمانی کا انکار کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ معراج روحانی ہوئی ہے یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر نہیں گیا بلکہ فقط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک گئی ہے ۔ جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف روحانی معراج نہیں بلکہ جسمانی معراج ہوئی ہے، اس لئے کہ روحانی معراج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال نہیں ہے ۔ کوئی بندہ یہاں سویا ہوا ہو اور دیکھے کہ میں آسمان پر گیا ہوں ، میں عرش پر گیا ہوں ، میں مکہ گیا ہوں ، میں مدینہ گیا ہوں تو یہ کوئی کمال نہیں ہے کیوں کہ صرف روح تو عام بندے کی بھی جاسکتی ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز اور اعجاز یہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف روح نہیں بلکہ جسم بھی ساتھ جائے ۔ اس لئے ہمارے علماء کہتے ہیں کہ آج کے دور میں جب کوئی کہے کہ ہم معراج مانتے ہیں تو ان سے یہ پوچھیں کہ معراج مانتے ہو یا معراج جسمانی مانتے ہو؟ کیوں کہ وہ کہے گا معراج اور نیت کرے گا روحانی کی ، روحانی پر اختلاف نہیں ہے اختلاف تو معراج جسمانی پر ہے۔


بالکل اسی طرح جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت کے بعد قبر مبارک میں زندہ ہیں ۔ اگر کوئی بندہ کہے کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوزندہ مانتے ہیں تو آپ نے پوچھنا ہے کہ حیات روحانی مانتے ہو یا جسمانی مانتے ہو؟ ورنہ لوگ دھوکہ دیں گے حیات کہہ کر اور روحانی مان کر ڈنڈی مار جائیں گے ۔ معراج کہیں گے اور روحانی مان کر ڈنڈی مار لیں گے ۔


ہم وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بھی جسمانی مانتے ہیں اور مکہ سے عرش تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج بھی جسمانی مانتے ہیں۔


کتبہ ماجد کشمیری

ماہ شعبان کی فضیلت|نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیا ہے ؟

0

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تعالی ہمارے  پورے شعبان میں برکتیں نصیب اور  رمضان تک پہنچائے۔

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال:  کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا دخل رجب قال : اللہم باریک لینا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان۔ 

المعجم الاوسط للطبرانی،رقم الحدیث:3939

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں ماہِ رمضان تک پہنچا۔


ماہ شعبان کی فضیلت: 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے چاند اور اس کی تاریخ ہو کہ حساب کا بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔ 

عن ابی هریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احصوا جلال شعبان لرمضان۔

جامعہ ترمذی: رقم الحدیث 687

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کی چاند ( تاریخوں) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھو تاکہ رمضان کی آمد کا حساب لگانا آسان ہو سکے۔

یعنی رمضان کی صحیح حساب کے لئے شعبان کا چاند اور اس کی تاریخوں کو خصوصیت سے یاد رکھا جائے۔جب شعبان کی آخری تاریخ ہو تو رمضان کا چاند دیکھنے میں پوری کوشش کی جائے۔

رمضان کا مقدمہ: 

شعبان آٹھواں اسلامی مہینہ ہے جو رمضان المقدس سے پہلے آتا ہے۔اس مہینے کو اللہ تعالی نے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے، جس کی عظیم وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینے میں ماہ رمضان کے روزوں،تواریخ اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے،رمضان جو اپنے برکتوں،رحمت اور عنایات ربانی کا موسم بہار ہے اس کی تیاری کا ماہ شعبان سے شروع ہونا اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔گویا شعبان کو رمضان کا مقدمہ کہنا چاہیے۔


ماہِ شعبان کے روزے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے،بلکہ رمضان کے بعد ماہ شعبان میں روزوں کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ 

1: عن عائشہ رضی اللہ عنہا  قالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم حتی نقول لا یفطر و یُفطر حتی نقول لا یصوم فما رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استکمل صیام شھر الا رمضان و مارایتہ اکثر صیاما منہ فی شعبان


صحیح البخاری: رقم الحدیث 1969

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو (غیر رمضان میں) شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا تھے۔

یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان کے روزے رکھا  کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر کل کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔

3: المسغوبات من الصیام انواع اولھا صوم المحرم والثانی صوم رجب والثالث صوم شعبان و صوم عاشوراء۔

فتاوی عالمگیری،ج:1،ص:202

ترجمہ: مستحب روزں کی کئی قسمیں ہیں: محرم کے روزے،رجب کے روزے،شعبان کے روزے اور عاشوراء کے (دو)روزے۔

نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھنے کی تحقیق: 

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذابقی نصف من شعبان فلا تصوموا۔

جامع الترمذی،رقم الحدیث :738

ترجمہ: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے تو روزی نہ رکھا کرو۔

اس ریوایت کے پیش نظر فقہاءِ کرام نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ قرار دیا ہے،ساحل البتہ چند صورتوں کو متثنی فرمایا ہے کہ ان میںنے پندرہ شعبان کے بعد روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ صورتیں یہ ہیں:

1: کسی کے ذمہ قضائر روزہ ہو یا واجب (کفارہ وغیرہ کے) روزے ہوں اور وہ انہیں انعام رکھنا چاہتا ہو۔

2: ایسا شخص جو شروع شعبان سے روزہ رکھتا چلا آرہا ہو۔

3: ایسا شخص کی جس کی عادت یہ ہے کہ مخصوص دنوں یا تاریخوں کے روزے رکھتا ہے،  اب وہ دنیا طاری شعبان کے آخری دن میں آ رہی ہوں تو روزہ رکھنے میں کوئی  حرج نہیں بشرطیکہ ایسی کمزوری کا خطرہ نہ ہو گی جس سے رمضان کے روزوں کا حرج ہونے کا اندیشہ ہو۔ ملخص: درسِ ترمذی: ج:2، ص:579


نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیا ہے ؟

 حکیم الامت ماہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میرا تو ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان شریف میں جو جاگنا ہو گا اس شب کا جاگنا اس کا نمونہ ہے اور یہ صوم ایام رمضان شریف کا نمونہ ہے ۔ پس دونوں نمونے رمضان کے ہیں ، ان نمونوں سے اصل کی ہمت ہو جاوے گی۔ پھر اس صوم کے بعد جو صوم سے منع فرمایا اس میں حقیقت میں رمضان کی تیاری کے لیے فرمایا ہے کہ جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ مت رکھو۔ مطلب یہ کہ سامان شروع کرو رمضان کا یعنی کھاؤ، پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاؤ اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے “ 

خطبات حکیم الامت: ج:7،ص: 391

رد غیر مقلدیت| اہل حدیث کی تحریفات

0

 سلسلہ رد غیر مقلدیت نمر ۲۱

تحریف مفہوم کا دوسرا نمونہ: آپ کے مشہور مصنف محمد اقبال کیلانی صاحب اپنی کتاب الصلاۃ میں لکھتے ہیں عن ابی هریرۃ رض اللہ عنہ أن النبی ﷺ امره أن یخرج فینادی لاصلاۃ إلا بقراءۃ فاتحۃ الکتاب فما زاد . (ص۸۰)

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس سے زیادہ جتنا کوئی چاہے پڑھے۔(ص ۸۰)۔

حدیث میں سورۃ فاتحہ اور فمازاد کا ایک ہی حکم بیان کیا گیا ہے جبکہ مترجم نے ترجمہ میں تحریف کر کے فاتحہ اور فمازاد کا حکم علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ کیا یہ تحریف کی بدترین مثال نہیں ہے؟ پھر بھی تمہیں اصرار ہے کہ تم اہل حدیث ہو ۔ آج امانت کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے دیانت کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ ہم رور ہے میں چِلّا رہے ہیں لیکن ہماری آواز ہے کہ صدا بصحرا۔ 


    میرے بس میں ہو تو غیر مقلدوں کی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر انہیں تحریف کا یہ نمونہ دکھا دوں ۔ ان کے دماغوں سے مسلکی جمود کے پردے ہٹا کر انہیں حدیث کا صحیح ترجمہ سکھا دوں ۔ ان کے کانوں سے اندھی تقلید کی تھونسی ہوئی انگلیاں نکال کر انہیں آنحضور ﷺ کا اصلی اور سچا پیغام سنادوں۔


دیکھو خود تمہارے ہی مولانا اسماعیل سلفی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں : سورہ فاتحہ و مازاد کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔( رسول اکرم کی نماز ۲۸ ) دونوں ترجموں میں کتنا واضح فرق ہے؟


چنگیاں لیتی ہے فطرت چیخ اٹھتا ہے ضمیر

 کوئی کتنا ہی حقیقت سے گریزاں کیوں نہ ہو


اس واضح تحریف اور دغا کے باوجود تم اپنی تحریروں میں یہ شعر لکھتے ہو  اور تقریروں جھوم جھوم کر پڑھتے ہو:

 ما اہل حدثیم دغا رانہ نشنا سیم 

با قول نبیﷺ قول فقہا رانہ نشنا سیم

 (ترجمہ ) ہم اہل حدیث ہیں جو دھوکہ فریب نہیں جانتے نبی ﷺ کے قول کے ساتھ فقہاء کے قول کو نہیں جانتے ۔اب خود ہی بتاؤ تم نے مندرجہ بالا حدیث کے ترجمہ و تشریح میں حدیث پر جو ہاتھ صاف کیا ہیں اس کا کیا عنوان دوں گے؟ اور آقائے مکی و مدنی علیہ الصلوۃ والسلام کو کیا جواب دو گے؟

غیر مقلد: آپ نے تو مجھے حیران ہوا پریشان کر دیا ہے۔یہ تو ہماری مرکزی دلیل ہے لیکن اس کے بہت سے پہلو ہم سے مخفی رکھے گئے تھے۔اور ہم طوطے کی طرح بغیر تفصیلات سمجھے اس کی رٹ لگاتے رہے۔

سنی: میں نے نہیں بلکہ آپ کے طریقہ کار نے آپ کو پریشان کیا ہے۔ جب تم صحابہ کے قول و فعل کو چھوڑ کر چودھویں پندرہویں صدی کے لوگوں پر اعتماد کرو گے تو وہ تمہارا علمی و فکری استحصال نہیں کریں گے تو اور کیا؟

    

جب تم احادیث کو صحابہ کے حوالے سے نہیں سمجھو گے اور ان کے فہم کو مسترد کرکے چودھویں صدی کے آپ نے ان لوگوں کے فہم پر اعتماد کرو گے تو پھر وہ تمہیں مندرجہ بالا طریقے سے ہی حدیث سمجھائیں گے۔ 

غلط بیانی کا نمونہ: آپ کو تعجب ہوگا کہ آپ کی عظیم شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی صاحب اپنے فرقے کے لوگوں کو بارو کرنا چاہتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام کے مصلے میں غیر مقلد حدیثوں پر عمل کرتے ہیں، جبکہ حنفی اس کے مقابلے میں امام کو بنیاد بناتے ہیں۔ جب کہ اصل صورت حال آپ دیکھ چکے ہیں۔ شیخ موصوف لکھتے ہیں۔ بزرگوں کا احترام اچھی بات ہے لیکن آنحضرت ﷺ کے اقوال گرامی میں سب سے زیادہ قابل احترام ہیں، اقوال ائمہ کی تاویل ہو سکے تو ہو جانے چاہیے احادیث نبویہ کے لئے ائمہ کے اقوال و مذاہب کو معیار نہیں کرا دینا چاہیے۔ ( رسول ﷺ کی نماز:ص ۷۲)

غلط بیانی کا دوسرا نمونہ: حکیم صادق سیالکوٹی صاحب نے ( سبیل الرسول ص:۵۰) پر لکھا ہے کہ ” فاتحہ نہ پڑھنے والے کو یو چھو تو کہتے ہیں: ابو حنیفہ نے روکا ہے“

اس عبارت میں موصوف نے سینہ زوری کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ہم تو حدیث پر عمل کرتے ہیں،جبکہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والوں کے پاس کوئی حدیث نہیں۔بلکہ وہ تو حدیث کے مقابلے میں اپنے امام کے قول کو بنیاد بناتے ہیں۔ نیز تمہارے مولانا عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں کہ : ” حنفیہ کا مسئلہ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ یہ صریح حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہ کہتے ہیں کہ یہ ہوتی ہے “( امتیازی مسائل ص ۵۱) 

جب کہ آپ گزشتہ گفتگو میں سن چکے ہیں کہ ہماری دلیل کتنی مضبوط ہے اور۔۔۔۔جاری 


بین مذہبی شادی ،اسلام کی نظر میں| ارتداد کے بنیادی اسباب

0

جو وابستگان اسلام کے لیے لمحۂ فکریہ اور ہماری دینی حمیت کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔


 بین مذہبی شادی ،اسلام کی نظر میں:


کسی بھی غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنا اور ازدواجی تعلق قائم کرنا کیسا ہے؟ اس میں اسلامی قانون کی کیسی خلاف ورزی پائی جاتی ہے؟اور اس طرح کرنے والا دائرۂ اسلام میں رہتاہے یا خارج ہوجاتاہے ؟ آئیے ہم اس سلسلہ میں کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔چناں چہ غیرمسلم مرد سے نکاح کے بارے میں قرآن پاک کا صاف اور کھلا حکم موجود ہے: اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ یقینا ایک مومن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو، اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور یقینا ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ مشرک مرد تمہیں پسند آرہا ہو۔ یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنے احکام لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ ( سورۃ البقرۃ: ۲۲۱)


یہ حکم کس قدر اہميت کا حامل ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ قرآن نے صرف حکم ہی بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ مومن مرد اور عورت کو جدا جدا خطاب کرکے منع کرنےکےساتھ اس کی حکمت اور وجہ بھی بیان کردی۔ اول تو مشرک مرد و عورت سے نکاح کو اس وقت تک منع قراردیاجب تک وہ ایمان قبول نہ کرلیں ۔ پھر فوراہی فیصلہ کن انداز میں اس صورت کو بھی بیان کردیا کہ کافر و مشرک جاہ و جلال حسن و جمال اور حسب و نسب کے اعتبار سے تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے، اس کے مقابلے میں دنیاوی اعتبار سے سے کم حیثیت والا مومن ہی تمہارے لیے ہزار درجہ بہتر ہے قرآن نے اپنے بلیغ اسلوب میں اس کو یوں بیان کیا: ”ایک مومن غلام اور باندی مشرک مرد و عورت سے بہتر ہے ” ۔ اس کی اصل حکمت یہ بیان کی کہ یہ کافر اور مشرک دوزخ اور جہنم میں لے جانے والے ہیں اور اللّٰہ تعالی اپنے ارشاد سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے ۔ اصل ناکامی اور کامیابی ہی یہی ہے؛اس لیے اخیر میں شفقت بھرے لہجے میں ارشاد فرمایا کہ یہ احکام صاف صاف اس لیے بیان کیے جاتے ہیں ، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔ اس اسلوب سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مخاطب کے فائدے کے پیش نظر ہی مذکورہ حکم دیا گیا ہے۔


پتہ چلا کہ صدق دل سے اسلام قبول کرنے سے پہلے کسی غیر مسلم کا نکاح مسلمان خاتون کے ساتھ جائز نہیں، نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، ازدواجی تعلق حرام کاری کے زمرہ میں داخل ہوتا ہے، ایمان جیسی قیمتی دولت کو جنسی خواہش کی بھینٹ چڑھا دینا اور غیر مسلم کی ہمہ وقت صحبت و معیت اختیار کرکے اپنے دین و ایمان کو خطرہ میں ڈالنا کس قدر سنگین جرم ہے کہ ایسی بدکاری کی حالت میں دین و ایمان کا سلامت رہ جانا بھی دشوار ہے، اسی حالت میں موت آجانے کی صورت میں آخرت میں جو انجام ہوگا، اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایک مسلمان بندی اپنے خالق و مالک کے روبرو کس طرح کھڑی ہوگی اور اپنے اعمال و ایمان کا کیا جواب اس کے پاس ہوگا؟حضرت محمدﷺ جن کے طفیل ہمیں دین وایمان کی دولت ملی، انہوں نے ایک ایک امتی کے لیے کیسی کیسی دعائیں کیں، مسلمان بندی ان کو کیا منہ دکھائے گی، اپنے دین و ایمان کوغارت کرنے کا کیا جواز وہ پیش کر سکے گی؟


ارتداد کے بنیادی اسباب :


غور کیاجائے اور سنجیدگی سے جائزہ لیاجائے تواس برائی؛بل کہ بےحیائی کےبہت سارے اسباب ہیں ؛جن میں فحش وناجائزتعلقات پرمبنی ٹی وی سیریل ،موبائیل کا غلط استعمال،مخلوط نظام تعلیم، ذاتی طورپردینداری کی کمی اور مسلم گھرانوں میں دینی ماحول کا فقدان وغیرہ سر فہرست ہیں،آج عفت وعصمت ،پاکیزگی وپاک دامنی کی کوئی فضیلت واہمیت دلوں میں باقی نہ رہی؛ بل کہ عفت وعصمت کی قدروں کو پامال کرنا، ایک فیشن بن گیا اور جو شرم وحیاء اور عصمت کی بات کرے وہ ان لو گوں کی نظرمیں دقیانوسی اور حالات زمانہ سے بے بہرہ اور تاریک خیال ٹھہرایا گیا۔اخلاق و شرافت، تہذیب وانسانیت کی جگہ حیوانیت و درندگی، دنائت و بدتہذیبی نے لے لی اور انسانیت واخلاق کی توہین کرنا ،ایک محبوب مشغلہ بن گیا۔

 آج ہمارے بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کے مسلمان ہونے کا معنی کیا ہے ؟ ہم مسلمان کیوں ہیں ؟ ہم میں اور کافر میں کیا بنیادی فرق ہے؟ آج کی نسل طہارت کے موٹے موٹے مسائل بھی نہیں جانتی !ہمارے بچوں کو محرم ونامحرم کسے کہتے ہیں اس کی بھی تمیز نہیں !یہ کتنے افسوس بات ہے کہ کھانے کے لیے جینا اور جینے کے لیے کھانا ہمارا مقصد بن چکاہے ،ہمیں اپنے دین کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں ،والدین کو اولاد کی تربیت کاکوئی احساس نہیں ،نوجوانوں کو اپنےدینی مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہر شخص ذمہ داری کے احساس سے خالی ہے جب کہ سرکار دوعالم ﷺفرمارہے ہیں :تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ ادرای کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔(متفق علیہ) 


ماخذ: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

سفر معراج کے دو حصے؟ قسط ۴ |ملفوظات گھمن حفظہ اللہ

0

 سفر معراج کے دو حصے؟ قسط ۴

ملفوظات گھمن ۴

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا سفر دوحصوں کا ہے؛ ایک مکہ سے بیت المقدس اور ایک بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کے سفر کو اسراء کہتے ہیں جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اور پھر وہاں سے عرش معلیٰ تک کے سفر کو معراج کہتے ہیں جس کا ذکر سورۃ النجم کی پہلی اٹھارہ آیات میں ہے۔


تو یہاں ”اسراء“ کا ذکر بھی ہے اور معراج کا ذکر بھی ہے لیکن عام طور پر چونکہ مکہ سے بیت المقدس کا سفر زمینی ہے اگر چہ عجیب تر تھا لیکن عجیب شمار نہیں ہوتا اور بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کا سفر عجیب تر ہے اس لئے اس پورے سفر کو ”اسراء کے بجائے“ معراج ہی کہہ دیتے ہیں۔

مرتب: اسلامی زندگی

اگلی قسط

معراج کا سفر کیوں ہوا|ملفوظات گھمن حفظہ اللہ |معراج کا پورے واقعات

0

معراج کا سفر کیوں ہوا قسط ۳

ملفوظات گھمن ۳

 جب نبی کا خون کسی زمین پر گر جائے تو اللہ اس وقت اس زمین والوں کو زندہ نہیں رہنے دیتے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک گرا ہے اس کے لئے اللہ تعالی نے فرشتے بھیجے فرشتوں نے آ کر عرض کیا کہ حضور! آپ اجازت دیں تو ہم ان کو ان دو پہاڑوں کے درمیان میں کر رکھ دیں گے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 میں اللہ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ طائف والے مسلمان نہیں ہوئے تو اللہ ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا فرما دے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے۔ 


اس حالت میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو بد دعا نہیں فرما رہے بلکہ اللہ سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ اللہ ان کی اولاد کو اسلام کی توفیق دے گا۔ اس لئے میں ان کے حق میں بد دعا نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں مکہ تشریف لائے تو جب مکہ والوں نے تکلیف دینے کی انتہا کر دی تو اللہ تعالی نے فیصلہ کیا کہ اے میرے محبوب! اب میں تمہیں عزت دینے کی انتہا کرتا ہوں ۔انہوں نے سمجھا تھا کہ نام ونشان مٹادیں گے لیکن ہم فرش پر نہیں بلکہ عرش پر تیرے چرچے کرتے ہیں، یہاں فرش پر عداوت ہے آپ عرش پر اپنی عزت دیکھیں! تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے لئے جو مشقت برداشت کی ہے اس کے بدلے میں خدانے یہ اعزاز معراج کی صورت میں بخشا ہے ۔ (جاری)

کتبہ اسلامی زندگی (ماجد کشمیری)

اگلی قسط

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں