کیا کسی کو فون کرنے یا ملاقات کے بجائے مسیج بھیجنا توہین کے زمرے میں آتا ہے؟

0

کیا کسی کو فون کرنے یا ملاقات کے بجائے مسیج بھیجنا توہین کے زمرے میں آتا ہے؟


ہرگز نہیں! پیغام (Message) درحقیقت ایک مکتوب (خط) ہی کی جدید صورت ہے، بلکہ آج کے دور میں باضابطہ اور مہذب تحریری رابطے کا ذریعہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہوں، امراء اور معزز شخصیات سے براہِ راست ملاقات کی ہر ایک کو اجازت نہ ہوتی، لہٰذا ان تک اپنی گزارشات پہنچانے کے لیے خطوط ارسال کیے جاتے تھے۔ آج بھی اعلیٰ عہدے داران کو عرضداشتیں (Applications) تحریری شکل میں ہی بھیجی جاتی ہیں، کیونکہ یہ رسمی، باضابطہ اور باوقار طریقۂ اظہار ہے۔


اس کے برعکس، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پیغام بھیجنا ان کی توہین ہے، وہ درحقیقت مصنوعی انا کے اسیر ہوتے ہیں۔ حقیقی عزت دار اور سنجیدہ فکر افراد ہمیشہ تحریری مراسلت کو فوقیت دیتے ہیں، کیونکہ یہ الفاظ کو ضبط و ترتیب کے ساتھ پیش کرنے، احترام کو ملحوظ رکھنے اور رابطے کی سنجیدگی کو برقرار رکھنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔


مزید برآں، تحریر کی ایک امتیازی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ فوری ردعمل کے جذباتی دباؤ سے آزاد ہوتی ہے۔ زبانی گفتگو میں بسااوقات جذبات غالب آ جاتے ہیں، جبکہ تحریری پیغام میں انسان کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو نکھار کر اور ترتیب دے کر مؤثر انداز میں بیان کرے۔ یہی وجہ ہے کہ دانشمند اور معاملہ فہم افراد ہمیشہ تحریری رابطے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ اس میں سنجیدگی، غور و فکر اور عزت و وقار سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔

 

کیا مولوی پروفیشن ہے؟

0

 کیا مولوی پروفیشن ہے؟

دین اسلام دستور حیات ہے، ہر زندہ شخص کے لیے ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کو پڑھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے علم شرعی من باب المبادی فرض قرار دیا اور فرمایا: ہر مسلم اور مسلمہ پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔ اس لیے ہر مسلمان اس قابل ہونا چاہیے کہ نماز پڑھا سکے۔ اور ہونا بھی چاہیے کہ ہر مسلم امامت کی اہلیت رکھے۔


پھر کہا جاتا ہے یہ مولوی پروفیشن کیوں بنایا گیا! دین میں کوئی مولوی پروفیشن نہیں ہے۔


اولا "مولوی" پروفیشن نہیں ہے۔ یہ تعظیماً کہا جاتا تھا ان کو جو علوم اسلامیہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔

سمجھ لیں، مولویت امامت سے پرے کی چیز ہے بلکہ مولویت اماموں کو تیار کرنے کا مصدر اور سرچشمہ ہے۔ اب مولوی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی مستند اساتذہ یا ارادے سے علوم دین پڑھتا ہے۔

اس لیے جامعات میں جو طالب دوم سوم میں ہوتے ہیں، انہیں معلمین مولوی کہتے ہیں اور جو فارغ التحصیل ہوں، انہیں مولانا کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔


طب کے ماہر کو ڈاکٹر کہنا، ریاضی کے ماہر کو میتھمیٹیشن کہنا اور ہندسہ کے ماہر کو انجینئر کہنا، کیا یہ بدقسمتی ہے؟ کون اسے شقاوت سمجھتا ہے؟ کوئی نہیں۔


بلکہ یہ تو خوش قسمتی ہے کہ جب کوئی فراڈی انجینئر کوئی غلط کام کرتا ہے تو عوام اس کی تباہ کاریاں دیکھ کر اس کو کوستے ہیں۔ وہ حق ادا نہیں کرتا ہے۔


اگر ہر فرد کامل علم رکھتا تو کیا نبی ﷺ انتخاب نہ کرتے کہ قرآن ان سے سیکھیں؟ اگر سب اہل ہوتے تو "وضع الشی فی غیر محلہ" کا قانون نہ ہوتا۔


اگر وراثتِ نبی کے لیے صرف امتی ہونا کافی ہوتا تو علم وراثت کی شرط نہ بنتی (العلماء ورثة الأنبياء)۔


یہ کلاسفیکیشن ہے بس۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مولوی بننا فرض ہے۔ مگر مبادیات کا جاننے والا بھی مولانا نہیں کہلائے گا۔ اور اگر یہ پروفیشن ہوتا، چونکہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی کا منصب اور ترجمان ہے، تو یہ سب سے زیادہ معاوضے والی جاب ہوتی۔ مگر ایسا بالکل بھی نہیں ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ مولویت لوگوں کی نظر میں پروفیشن ہو سکتی ہے مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی مولویت کے سند یافتہ افراد اس کو منصب و پروفیشن سمجھتے ہیں۔


بلکہ مولویت (مستندیت ) دفاع اسلام اور نسلوں تک میراثِ نبوت ﷺ کے انتقالی کا نام ہے۔

گھرانہ میں عورت کی احتیاج

0

عورت نسلِ انسانی کا وہ ناگزیر حصہ ہے جس کے بغیر زندگی کی افزائش اور معاشرے کی ترقی ممکن نہیں۔ یہی دستورِ الٰہی ہے کہ افراد سے مل کر گھرانے بنتے ہیں، اور ان کو جنت بنانے کے لیے فطرت کے اصولوں کے مطابق منظم کیا جانا ضروری ہے۔


گھر کی تعمیر و بقا کی ذمہ داری جہاں افرادِ نرینہ پر عائد کی گئی ہے، وہیں نظامِ گھرانہ کی تنظیم میں عورت کی شفقت، ایثار اور ہنر کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ وہ گھر کی روح ہے، جس کے بغیر یہ نظام ادھورا ہے۔


ہم اکثر اپنے توہمات کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ عورت کا گھرانے میں کوئی خاص کردار نہیں، مگر اس کی اہمیت کا ادراک تب ہوتا ہے جب ماں یا بہن جیسے کردار وقتی طور پر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ تب یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ وہ کس ہنر مندی اور اخلاص کے ساتھ، بغیر کسی تعریف یا صلے کی توقع کے، اپنی خدمات انجام دیتی ہیں۔


جس طرح جسم کے ہر عضو کی اہمیت ہے، اسی طرح عورت کی موجودگی اور کردار بھی ناگزیر ہے۔ اس کی قدر کرنا، اس کے جذبات کو سمجھنا، اور الفاظ و اعمال کے ذریعے اس کا احترام کرنا نہ صرف لازم ہے بلکہ زندگی کے سکون اور گھر کے امن کا ضامن بھی ہے۔


عورت وہ چراغ ہے جس کی روشنی سے گھر روشن ہوتا ہے، اور وہ بنیاد ہے جس پر گھر کا سکون قائم رہتا ہے۔ اس کی اہمیت کو تسلیم کرنا درحقیقت اپنے وجود کی تکمیل کو تسلیم کرنا ہے۔


دل دہلانے والی کہانی امیر گھر کی ویرانی

0

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر تصور کریں، ایک ایسا شخص جو خوشحال زندگی کے ہر پہلو سے نوازا گیا تھا۔ والدین کی دعاؤں کے سائے، دو بیٹے جو جوان ہوکر کمانے کے قابل ہوگئے، ایک خوبصورت بیوی جو محبت کا مجسمہ تھی، اور ایک معصوم شیر خوار بچہ جس کی ہنسی گھر کو جنت بناتی تھی۔ تجارت میں برکت ایسی کہ زندگی خوشیوں سے بھرپور تھی۔


پھر اچانک، سہ پہر میں ایک پیغام آتا ہے۔ کاروبار میں ایسا نقصان ہونے کی خبر کہ چائے پینے کے پیسے تک میسر نہ رہیں۔ یہ خبر سنتے ہی دل خوف اور اضطراب سے بھر جاتا ہے۔ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش میں وہ والدین کے کمرے کی طرف بڑھتا ہے، کہ شاید ان کی دعائیں دل کو قرار دیں۔ لیکن دروازہ کھولتے ہی ایک دل دہلا دینے والا منظر سامنے آتا ہے: والدین وفات پا چکے ہیں۔


اس غم سے نڈھال، وہ روتا ہوا بیٹوں کے کمرے کی طرف جاتا ہے کہ شاید یہاں سے کچھ سکون ملے۔ مگر یہاں بھی قیامت کا منظر دیکھتا ہے: دونوں بیٹے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔


اب وہ دل تھامے، آنکھوں میں آنسو اور زبان پر اللہ کا نام لیے، آخری سہارا یعنی اپنی بیوی اور معصوم بچے کے کمرے کی طرف بڑھتا ہے۔ دروازے کے قریب پہنچ کر قدم لرز رہے ہیں، سانسیں رک رہی ہیں۔ لیکن جیسے ہی دروازہ کھولتا ہے، اس کا دل چیخ اٹھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ بیوی اور شیر خوار بچہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔


یہ شخص ایک ویران گھر میں، تنہائی اور بے بسی کے عالم میں، زمین پر گر کر رو رہا ہے۔ ہر چیز ختم ہو چکی ہے، ہر نعمت چھن چکی ہے، اور ہر سہارا چھوٹ چکا ہے۔ اس کی چیخ و پکار آسمان تک پہنچتی ہے، لیکن سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔


پیارے بھائی! اگر یہ منظر تمہیں رلا رہا ہے، اگر یہ غم تمہارے دل کو چیر رہا ہے، تو سنو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو جائے، وہ ایسا ہے جیسے اس کا گھر، اس کے اہل و عیال، اور اس کا سارا مال و متاع چھین لیا گیا ہو۔"


آج ہم اپنی غفلت میں نماز کو ترک کرتے ہیں، وقت پر ادا نہیں کرتے، اور اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ لیکن جان لو، نماز وہ واحد خزانہ ہے جو تمہیں دنیا اور آخرت کی تمام مصیبتوں سے بچا سکتی ہے۔ اللہ ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والا بنائے اور ہماری غفلتوں کو معاف کرے۔ آمین! 


ماجد کشمیری 

توحید کی عظمت اور تثلیث کی حقیقت: ایک علمی تجزیہ

0




عید کی اصل حقیقت اور اس کی خوشی خالقِ کائنات کی رضا و خوشنودی میں مضمر ہے۔ عید وہ مسرت ہے جو بندے کی طرف سے اپنے رب کی وحدانیت کے اعتراف اور اس کی نعمتوں کے شکرانے کے طور پر منائی جاتی ہے۔ لیکن جب عقائد میں اختلاف اور توحید کی صاف اور سیدھی راہ کو چھوڑ کر خدا کی وحدت کو بانٹنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو ایسی حالت میں خوشی کا مفہوم بھی بدل جاتا ہے۔


تثلیث کا عقیدہ، جسے بہت سے لوگ خدا کی ذات کی تقسیم کے طور پر دیکھتے ہیں، اس قسم کے عقیدے کی پیچیدگی نے ہمیشہ اس کے پیروکاروں کو مشکلات میں مبتلا رکھا ہے۔ تثلیث کے ماننے والوں کی مذہبی فلسفیانہ توضیحات اکثر فہم و عقل سے پرے معلوم ہوتی ہیں، اور اس کی حقیقت میں ان کے اپنے دل بھی کبھی اطمینان تک نہیں پہنچ پاتے۔ نتیجتاً، اس عقیدے کے ساتھ وابستگی خوشی کی بجائے دلوں میں شک اور اضطراب پیدا کر دیتی ہے۔ اس عدمِ اطمینان کی آخری حالت وہ ہے جو خدا کے غضب اور دخولِ جہنم کی وعید بن سکتی ہے۔


اس کے برعکس، توحید، جسے اسلام نے بڑے واضح اور مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے، ہر لحاظ سے قابلِ فہم اور منطقی ہے۔ توحید کے اصول نہ صرف آسانی سے سمجھے جا سکتے ہیں بلکہ دلائل و فلسفے کی نظر میں بھی مضبوط اور مستحکم ہیں۔ یہ عقیدہ دلوں کو سیراب کرتا ہے اور انہیں نورِ ایمان سے منور کر دیتا ہے، جو کہ خالص حقیقت کی علامت ہے۔


توحید کی عظمت یہ ہے کہ یہ انسانی فکر اور عقل کو مطمئن کرتی ہے۔ اس کی بنیاد ایسی سادہ حقیقتوں پر ہے جو علم و فلسفہ کی باریکیوں میں بھی اپنی صداقت کو برقرار رکھتی ہیں۔ اگر تثلیث کے ماننے والوں کی آنکھیں حقیقت کی روشنی دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو وہ بھی تسلیم کریں گے کہ وحدانیت کا نور ہی وہ سچائی ہے جسے دل تسلیم کرتا ہے اور عقل پروان چڑھاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ دین فطرت سے دور ہونے والوں کو راہ ہدایت پر لائیں۔اور ہمیں استقامت دیں اور فہمائش کرنے کی توفیق سے نوازے ۔ آمین 

25 دسمبر 2024


تثلیث کے عقیدے میں دکھائی جانے والی پیچیدگیوں کے مقابلے میں توحید کی سادگی، اس کی عقلی قوت، اور اس کی فلسفیانہ پختگی ایک غیر متزلزل حقیقت ہے۔ یہ وہ ایمان ہے جو انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے اور اسے ابدی سکون فراہم

 کرتا ہے۔

 

سکول کتابوں کے اضافی قیمت کا حل

0

 کتب کی بھرمار سے ہو پریشان

 آسمان چھوتی قیمت سے ہو پشیمان


سکول ایڈمیشن کے ایام میں اکثر تنقید کی جاتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، کیونکہ تنقید وہ شے ہے جو انسان کو پاک اور محفوظ کرتی ہے۔ سب سے زیادہ محفوظ اور پاک جس چیز کو ہونا چاہیے، وہ ہمارا تعلیمی نظام ہے۔ آج ہمیں جس تنقید پر بات کرنی ہے، وہ ہے چھوٹے بچوں کے لیے 3200 روپے کی کتابیں۔


اولا: موادِ کتاب وہ سرمایہ ہے جس کی قیمت لگانا مشکل ہے بلکہ اس کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ ایک طالب علم جب یک سالہ استعمال ہونے والی کتب خریدتا ہے تو وہ صرف اسی سال ان کا استعمال کرتا ہے، جو صحیح طریقہ نہیں۔ وہ چاہے تو ان کتابوں کو اپنی ذاتی لائبریری میں رکھ سکتا ہے اور بعد میں بھی ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جیسے کہ ایس ایس سی وغیرہ کے امتحانات کے لیے ہمیں چھٹی جماعت سے سلیبس دوبارہ پڑھنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کتاب خریدنا رائگاں یا اکارت نہیں ہوتا۔


دوسری بات: کتابوں کی بھرمار سے نہ تو شاگردوں کو اور نہ ہی ان کے والدین کو پریشان ہونا چاہیے۔ البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کتاب کی قیمت زیادہ تو نہیں رکھی گئی۔


ہم جانتے ہیں کہ کتاب کی اصل قیمت اس کے مواد کی ہوتی ہے، جو درحقیقت بےمول ہے۔ جو قیمت لگتی ہے وہ اس مواد کو شاگرد تک پہنچانے کے اخراجات (مثلاً کاغذ، چھپائی، اور ڈیزائننگ وغیرہ) کی ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں کی کتابوں میں رنگین تصاویر اور مزین انداز زیادہ ہوتا ہے، جو بچوں کو پڑھنے اور سیکھنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، مگر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔


کتاب کی قیمت کم کرنے کے طریقے:


1. پبلشرز کو چاہیے کہ وہ مناسب منافع پر اکتفا کریں اور قومی خدمت کے جذبے سے، اللہ کی خوشنودی کے لیے، کتابوں کی قیمت کم کریں۔


2. سکول کو چاہیے کہ کتابوں پر اپنا منافع نہ رکھیں۔ اگر مکتب یا پبلشر سے کتب ایک ہی بار خریدی جائیں تو قیمت کم ہو سکتی ہے۔


3. ہر سکول کو اپنا پبلشنگ پوائنٹ قائم کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف کتابوں کی قیمت کم ہوگی بلکہ شاگردوں کو بہتر سہولیات مل سکیں گی۔


4. حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں موثر کاروائی کرے اور کنٹرول برقرار رکھے۔


5. اللہ کا خوف رکھنے والی قیادت اور تجارت ضروری ہے۔ اگر زیادہ قیمتیں ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دلوں سے اللہ کا خوف اٹھ چکا ہے۔ اس لیے قوم کے افراد کو ایسی تجارت میں حصہ لینے کی ترغیب دی جانی چاہیے جو عوامی خدمت کے جذبے پر مبنی ہو۔


نتیجہ: تنقید ایک آئینہ ہے جو انسان کو صاف کرتا ہے۔ اگر اوپر بیان کردہ تجاویز پر عمل کیا جائے تو نہ صرف کتابوں کی قیمت میں کمی ممکن ہے بلکہ مواد کا معیار بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال ہمیں علمائے اسلام کی کتب سے ملتی ہے، جن کا مواد تحقیقی اور جدید ہوتا ہے، مگر قیمت بہت کم رکھی جاتی ہے، کیونکہ ان کا مقصد منافع نہیں بلکہ علم کی اشاعت ہوتا ہے۔ اسلام ہی واحد حل ہے۔


ماجد کشمیری

24 Dec 2024

چراغوں کی روشنی کے باوجود اختلاف

0

 الحمد لله رب العالمين و الصلاة والسلام على النبي الذي أعد الصحابة ليكونوا نوراً يهتدي به الأمة.


کچھ ایام سے دو چراغوں کی روشنی کے باوجود اختلاف سے خالی راہ نمایاں نہیں ہو رہی اور دونوں حلقوں میں معاملات تذبذب کا شکار ہیں -اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کی محرم الحرام میں وہ کمیونٹی جو اپنے آپ کو دنیاوی سزا دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ وہ صحابہ اکرام کی شب و روز گستاخیاں کرنے کی وجہ سے خود کو اخروی سزا کے مستحق بناتے ہیں۔


یہ اپنی بد عقیدگی اور جہل کی وجہ سے کیا کرتے ہیں! اس کی مخالفت کرنا حرف دوم ہے ۔ مگر ان کو الزامی جواب دینا اور ان کے خلاف مقدمات اور اقدامات کرنا نہ صرف ہمارا عقیدہ ہے بلکہ ذمہ داری بھی ہے۔


ان سے اختلاف نہیں بلکہ ان کی کھلی مخالفت کی جانی چاہیے وہ اپنی خصوصیات سے باطل ہیں اور باطل سے اختلاف نہیں مخالفت کی جاتی ہے۔


مگر یہ رویہ اختیار نہ کرنے کے باوجود سکونِ ماحول کے لیے موافقت کا نعرہ بلند کرنا کسی بھی حال میں صحیح نہیں ہے۔


ان کے اجلاس میں جا کر صحابہ اکرام کی شان کے بارے گستاخیاں نہیں ہونی چاہیے اور اس پر اول وہلہ زور دینا یہ بھی شیر کا جگرا رکھنے والے ہی کرتے ہیں۔


مگر ایک سوال خالی الجواب ہے ان سے وجہ مخالفت میں بڑا سبب کہ یہ تبرہ کرتے ہیں صحابہ پر اب یہ فطرت پر آ کے صحابہ پر زبان درازی کرنا ( اور ان سےغلط اور غیر مستند چیزیں منسوب کرنا بھی ) بند کریں تو ان سے اس مسئلے میں اتحاد ہو سکتا ہے یا ہمیں صحابہ کے معاملے میں کمپرومائز کر کے ان کی مشابہ ہونا ہوگا۔ اور یہ تخریجِ اہل السنہ والجماعہ کے عقیدے کے مترادف ہے۔ 


رہا پہلا تو تابعین کے زمانے سے آج تک انہوں نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا گویا کہ ان میں اتحاد محال ہے۔ اب وہ کہ جو خیال آپ کے من میں کہ پھر ان کو ساتھ لے کے کیوں چلتے ہیں تو یاد رکھیں جو حد سے تجاوز کرتے ہیں ان میں، ہم ان کو ساتھ نہیں لے کے چلتے ہیں تکفیر کرتے ہیں۔ اور جو غالی نہیں ہے ان سے تو ہم روایات لیتے ہیں۔ 


اگر اتحاد کی بات کی جا سکتی ہے تو وہ انہی غیر تکفیر شدوں سے ہو سکتی ہے۔ مگر یہ صفت حال کے گرم ماحول میں معدوم تھیں۔ تو تجمیع بخاطر اتحاد اپنے عقیدے کو ڈھیلا کرنے کے مرادف ہیں۔ *محافظوں کا نعرہ حد سے تجاوز بھی نہ کرنے دیں گے نہ گرنے دیں گے* تو ایسی صورت حال میں اتحاد وہ بھی محرم الحرام میں ہی کیوں اور کیسے کیا جا سکتا ہے! 


ابھی مسئلہ دو شخصیات کا نہیں ہے بلکہ دو نظریات کا ہے۔ اس لیے نظریے پر کام کیا جائے کیونکہ جب نظریہ اضعف ہو جائے تو بالکل چھلکا اترنے کے بعد مغز دِکھ جاتا ہے۔  


اور اب رہا امیر صاحب کا مسئلہ تو وہ اپنی وسعتِ لیاقت یا فہم و فراست کی حدود میں حق ادا کر چکے ہیں (اگرچہ حق ہے کہ حق ادا نہ ہوا ) اب پلنگ افگن کو میدان میں حق ادا کرنا ہے کہ حلقوں میں فہمائش کریں کہ سیاہ شیعی کس سفید چلمن کے دبر میں رہتا ہے۔ 


باہم نہ کریں گفتگو ہو باطل سے جستجو 

ہے یہ مسئلہ گومگو نہ بنیں جنگجو

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں