کشمیر میں پاسپورٹ بنانے کا طریقہ| What is the procedure for making a passport in Kashmir?

0

پاسپورٹ کیا ہے؟



پاسپورٹ ایک ایسی دستاویز ہے جو اپ کو بیرون ملک جانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت تبھی اشکار ہوتی ہے جب اس کی ضرورت ہوتی ہے۔

کشمیر میں پاسپورٹ بنانے کا طریقہ کار کیا ہے؟

کسی بھی کامن سروس سینٹر یا خود آن لائن پاسپورٹ کے لیے آپلائی کریں۔ جس کی فِی گر چہ 1500 ہے، مگر سروس چارجوں سمیت 1600 سے 1700 کا خرچہ ہوگا۔ 

اسی فائل میں آپ کا اپوائمنٹ ڈیٹ ہوگی۔ یاد رہیں کہ اس کی ہاڈ کاپی نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ موبائل میں جو محفوظ ہوگی وہ آپ کے لیے کافی ہوگی۔ 


جس دن آپ کو پاسپورٹ آفس جانا ہوگا: جو ڈل لیک (جھیل ڈل سری نگر) کے بغل میں واقع ہے۔ اس وقت آپ اپنے ساتھ :

1۔ آدھار کارڑ، 

2۔کوالیفیکیشن سرٹیفکیٹ( یعنی اگر اپ 12ویں میں پڑھ رہے ہیں تو دسویں کی یا اگر گریجویشن کر رہے ہیں تو بارویں کی۔ بلکہ ساتھ رکھیں تمام مناسب ہوگا۔

3 ڈی او بی 

ڈی او بی، دسویں کی مارسک شیٹ کا زراکس (فوٹو سٹیٹ) ساتھ رکھیں نیز ان پر اپنے دستخط بھی کریں۔

جیسے ہی آپ پاسپورٹ آفس میں داخل ہوں گے اگر آپ کو انتظار کرنا پڑے تو آپ کو انتظار گاہ کی طرف اشارہ کیا جائے گا، اگر نہیں تو آپ سیدھے جائیں گے، آگے دریا نہیں کنٹین ملے گا: وہ فوٹو سٹیٹ بھی کرتا ہے، وہاں پر بھی آپ یہ سب کام کر سکتے ہیں مگر وقت لیتا ہے۔


آگے سے بائیں طرف، جب آپ پہنچیں گے، تو دفترِ تصدیقچی میں داخل ہوگے۔ وہاں ان کو آئی ڈی نمبر (جو آپ کے ریسپٹ پر ہوگی، وہ) دیکھائیں گے اور دستاویزات جن کا ذکر بالا میں ہوا۔ ۔۔۔ بعد از توثیق وہ آپ کو دائیں طرف جانے کا اشارہ کریں گے۔ اب وہاں پر آپ کو ایک اور صاحبہ ملیں گی جو سیریل نمبر دیں گی۔ 


جب آپ کا نمبر آئے گا تو آپ دوسری منزل پر تشریف لیجئے، وہاں پر پھر سے آئی ڈی اور دستاویزات کو دیکھائیں گے۔ ۔۔۔وہ تصدیق اور آپ کا ایک فوٹو لیں گے اور آخر میں آپ کو ایک پرچی تھما دیں گے، وہ لے کر گھر آئیں اور انتظار کرنا ہے کہ کب مجھے تھانے (پولیس ٹیشن) کی طرف سے ایک کال آئی گی۔۔۔ 


ایڈمنسٹریشن کی جتنی رفتار ہوگی، اسی کے موافق سمے لگتا ہے کم از کم دس سے پندرہ دن۔۔۔ ان دونوں میں آپ ایک اور کام مکمل کریں کہ نمبردار (مگدم ) کا تصدیق نامہ لیئے کر رکھیں۔

جیسے آپ کو تھانہ سے کال آئی، آپ تصدیق نامہ لیئے کر وہاں پہنچ جائیں۔۔۔۔ روکیں! 60 روپے کا خرچہ اور کرنا ۔۔۔۔کسی سروس سینٹر سے پاسپورٹ فائل ساتھ لیے کر تھانے میں داخل ہو جائے جیسے کہ اپ کوئی مایہ ناز شخصیت ہیں۔ 

کلیرک کی دفتر میں جائیں گے، وہ اپنی کارؤائی کریں گے، پھر سی آئی ڈی کی کال کا منتظر ہونا ہوگا۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ 


آپ پڑھتے پڑھتے بور ہو گئے ہوں گے اور آپ نے تھان لی ہوگی کہ میں تو بناؤں گا ہی نہیں پرنتو سن لیجیے، تب تک ایک اور کام کر کے رکھ لیجئے والد صاحب سے کہیں کہ عدالت میں جائیں، ایفی ڈیوٹ بنام پاسپورٹ ویری فکیشن بتصدیقِ جج لائیں۔ ذرا دیکھو ان کی جانب! والدہ کو بول رہیں ہیں! خیر احتراما ان کو بولیں، ایک فوٹو گرافر ساتھ لی جائیں۔ اور اگر ہو سکے تو 150 فی دیں۔ ارے ارے کنجوسی کیوں کر رہیں ہوں کچھ اور بھی دیں۔ 

یہ ضروری نہیں ہے شکل دیکھ کے وہ بتلاتے ہیں کہ لانا ہے یا نہیں سمجھ گئے نا۔ 


جب سی ائی ڈی کی طرف سے کال آئی گی تو وہ لے کر آپ وہاں جائیں گے تو یوں آپ کی تمام کاروائی مکمل ہو جائے گی پرنتو  پھر بھی راقب ہونا ہوگا۔ مگر یہ انتظار بے وفا بیوی کی پیار کی مانند ہوتا ہے۔ جو آخر کار آپ کے پاس ہی لوٹ کے آتا ہے، یعنی پاسپورٹ آپ گھر میں پہنچ جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ 


دنیا کی پہلی استانی والدہ

0

والدین مربی ہوتیں ہیں، ایسے مربی کہ ہر فن کو سیکھنے کے لئے ان کی ضرورت ہے۔ آپ کی لنکتی زبان میں تیزی لاتیں ہیں۔ چھوٹے جسم کو توانائی عطا کرتیں ہیں۔ آپ جو باہر کی دنیا سے سیکھتے ہیں وہ ٹہنیاں پر پھل آنا ہے مگر والدین زمین ہیں۔

والدہ سے آپ نے کیا سیکھا جو آپ انہوں استانی کہتیں ہیں؟

سنیں: چپ چاپ ایک ہی جگہ پر اعنی مطبخ میں اپنا کام کرتے رہنا سکھایا یعنی خاموشی کے ساتھ لائبری میں مطالعہ کرتے رہنا۔ 


باورچی خانے میں سب کے لیے کھانا تیار کرنا اعنی مطالعہ کر کے سب کے لیے مواد جمع کرنا۔


ضرورت محسوس کرتے ہی نظم الطعام کرنا اعنی جس مسئلے کی ضرورت محسوس ہو اس کی تفسیر کرنا۔


کھانے میں نمک زیادہ ہو تو ہر ایک کا طنز سہ لیتی ہے اور پھر اسے ٹھیک کرنے کی پوری کوشش کرنا اعنی مواد میں جامعیت نہ ہو اس کو جامع بنانے کی کوشش کرنا۔

اس کا نام ہے معرفتِ الہٰی جو علم کی انتہا ہے۔ 

                  من ھو علم ھذا الا امی

لاپتہ فوجی جاوید احمد وانی کی فائل فوٹو

0

معدوم فوجی جاوید احمد وانی کی فائل فوٹو







سری نگر- جموں و کشمیر پولیس نے متعدد افراد سے پرسش کی اور ساپہی جاوید احمد وانی کی کال کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کی، جو کچھ دن قبل اپنے آبائی ضلع کولگام سے چھٹی کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے، ذرائع سے ہہی خبر ملی۔

لداخ کے علاقے میں تعینات سپاہی کو اتوار کو حاضری دینی تھی ۔ اس کی گاڑی استھل میں لاوارث پائی گئی۔

حکام نے بتایا کہ درجن سے زائد افراد سے استفسار کیا گیا اور کال ریکارڈوں کی جانچ کی جا رہی ہے کیوں کہ معدوم فوجی کی تتبع کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔

سپاہی کے والد نے ان لوگوں سے اپیل کی ہے جنہوں نے ان کے بیٹے کو اغوا کیا ہیں، وہ انہیں زندہ رہا  کردیں گر چہ وہ اس شرط سے مشروط کر دیں کہ یہ فوجی اہل کاری چھوڑ دیں ۔۔۔ وہ خاندان کا واحد فعال ہے

"میں تمام بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اسے زندہ چھوڑ دیں۔ اگر اس نے کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ محمد ایوب وانی نے اتوار کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگر وہ چاہیں تو میں اسے بھی نوکری چھوڑ دوں گا۔ 

مدرسہ میں جرمانہ ظلم کثیرہ ہے خصوصاً فقرا سے جن کی کثرت ہوتی ہے مدرسہ میں

0

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

لاگ ان10/07/2023

دارالافتاء

 

مدرسے کا غیر حاضری پر طلبہ سے جرمانہ لینا


سوال

میں ایک مدرسے کا طالب علم ہوں، ہمارے مدرسے کے ناظم صاحب تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب میں اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے مدرسے میں تعلیم مفت نہیں بلکہ اس کی فیس مقرر ہے اور وہ ہر گھنٹے کی 20 روپیہ ہے تاہم یہ فیس ہر طالب علم سے نہیں لی جاتی بلکہ ان طلبہ سے لی جاتی ہے جو اصول اور ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان سے بھی ساری فیس نہیں لی جاتی  بلکہ جزوی لی جاتی ہے ۔مثلا  جو طالب علم ایک دن غیر حاضر ہو اس سے 100 روپیہ فیس لی جاتی ہے ، یا ایک نماز کی حاضری میں موجود نہ ہو تو 20 روپیہ فیس لی جاتی ہےاسی طرح اگر طالب علم سنگین جرم کا ارتکاب کرے تو اس کو خارج کر دیا جاتا ہے پس اگر وہ طالب علم دوبارہ داخلے پر اصرار کرے تو داخلہ فیس لی جاتی ہے ۔ناظم صاحب سے کسی نے کہا کہ یہ تعزیر مالی ہے جو کہ ناجائز ہےتو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تعلیمی فیس ہے مالی جرمانہ نہیں۔ کیوں کہ ایک تو ہم سال کے شروع میں طلبہ پر یہ معاملہ واضح کرتے ہیں دوسرا یہ مالی جرمانہ گزشتہ غلطی کی سزا  نہیں ہوتی ھے بلکہ آئندہ  تعلیم جاری رکھنے کی فیس ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی طالب علم مدرسے میں مزید تعلیم جاری نہیں رکھتا تو اس سے کوئی فیس نہیں لی جاتی ۔ سوال یہ ہے کہ  مدرسہ  والوں کا اس طرح طلبہ سے فیس لینا جائز ہے یا ناجائز ؟

جواب

         واضح رہے کہ  تعزیر بالمال (مالی جرمانے)کے جواز میں فقہاے کرام کا اختلاف ہے  فقہاےاحناف میں سے اکثر فقہاےکرام کے ہاں تعزیر بالمال جائز نہیں البتہ امام ابویوسفؒ سےاس کا جواز منقول ہےاورموجودہ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بعض انتظامی امور میں مالی جرمانہ مقرر کیا جائے کیونکہ ہر مجرم پر بدنی سزا سے لوگ مشقت میں پڑ جائیں گے جو تنفیر کا سبب بنے گا۔اور بسا اوقات بدنی سزا سےکسی جرم کی روک تھام نہیں ہوسکتی  لیکن مالی سزا کی بدولت روک تھام ہوجاتی ہے،لہذا ان حالات میں امام ابویوسفؒ کے قول سے استفادہ کرتے  ہوئے اس کے جواز کی گنجائش دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔علامہ ابن عابدینؒ نے بزازیہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام تعزیر میں مال لے سکتا ہے،لیکن خود استعمال نہیں کر سکتا،بلکہ مجرم کی توبہ اور اصلاح کے بعد اس کوواپس لوٹادے گا۔ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام اگر مجرم کی توبہ سے ناامید ہوجائے توخیر کے کام میں اس کو استعمال کرے۔

           صورتِ مسئولہ میں مدرسہ سے غیر حاضری  کرنا جرم ہے ، اسی طرح نماز با جماعت میں سستی کرنا بھی  مدرسہ کے قانون کے مطابق جرم ہے اس لیے مدرسہ کے منتظم  کےلیے زجر اورتادیب کی خاطر  غیر حاضری وغیرہ  پر جرمانہ لینا جائز ہے چاہے  نام اس کو فیس کا ہی  دیا جائے ،لیکن استاداس کوخود استعمال نہیں کرسکتا،بلکہ طالب علم کی توبہ اور اصلاح کےبعداس کو واپس لوٹادےگا۔یا اگراستاد طالب علم کی اصلاح سے ناامید ہو یاجرمانہ واپس لوٹانے سے طلباکویہ تاثر ہو کہ جرم کرتے رہیں گےجرمانہ ہم کوویسے بھی واپس کیاجارہاہےتو ایسی صورت میں اس رقم کو  ر فاہِ عامہ میں خرچ کرنے کی گنجائش ہے۔

 

عن عمر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: من وجدتموه غل فى سبيل الله فأحرقوا متاعه قال صالح :فدخلت على مسلمة ومعه سالم بن عبد الله فوجد رجلاقدغل فحدث سالم بهذا الحديث فأمر به فأحرق متاعه فوجد فى متاعه مصحف فقال سالم :بع هذا المصحف وتصدق بثمنه.(الجامع الترمذى، أبواب الحدود، باب ماجآء فى الغال مايصنع به، ج:4، ص:61)

ويجوز التعزير بأخذالمال،وهومذهب أبى يوسف وبه قال مالك،ومن قال:إن العقوبة المالية منسوخة فقد غلط على مذاهب الأئمة نقلاواستدالا،وليس بسهل دعوى نسخها،وفعل الخلفاء الراشدين وأكابرالصحابةلهابعدموتهﷺ مبطل لدعوى نسخها والمدعون للنسخ ليس معهم سنة ولاإجماع يصح دعواهم. (معين الحكام، ص:231)

 وأفاد فى البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي .وفى المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ ورأى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى(ردالمحتارعلى الدرالمختار، كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب فى التعزير بأخذ المال، ج:4، ص:61)

کونگ وٹن: خوبصورتی کا پھول

0

 کونگ وٹن: خوبصورتی کا پھول

کونگ وٹن ایک خوبصورت جگہ ہے جو اہربل سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جگہ اپنی فراوانیت اور دلکشی کے لئے مشہور ہے۔ واقعیت میں، کونگ وٹن محیطی تنوع اور خوبصورت طبیعت کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ اس جگہ میں پیدا ہونے والے مناظر اور طبیعی چشمے دل کو بہلا دیتے ہیں۔ (لیجئے اپ بھی مظاہرہ کیجئے)


 

وقت گزارے جب آپ کونگ وٹن تک پہنچتے ہیں، آپ کو بہت سی دلچسپیاں نظر آتی ہیں۔ اہربل سے راستے پر چلتے ہوئے، آپ پانی کے جھرنوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں جو چشمہ جیسی آوازوں کے ساتھ بہتے ہیں۔ یہ نظریں محیطی تنوع کو ظاہر کرتی ہیں اور آپ کو پر امن ماحول میں لے جاتی ہیں۔

ہیں



وادی میں چلتے ہوئے، آپ ایک مختلف دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ کونگ وٹن کی لمبی وادی میں چھوٹی چھوٹی گھاس میں پھولوں کی بھرپور تشکیلات نظر آتی ہیں جو پھولوں کی مہک سے محفوظ ہیں۔ اس وادی میں کوثر ناگ بھی واقع ہے، جو کونگ وٹن سے چار گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ یہ مقام گرمیوں کے موسم میں لوگوں کے درجہ حرارت بڑھانے سے بچنے کے لئے مشہور ہے۔ اس میناری پانی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

جو پانی کوثر ناگ سے آتا ہے جس سے کونگ وٹن، اہربل جیسے مقامات سیراب ہوتے ہیں۔ اس کی تاریخ یوں رقم ہوئی کہ ایک زمانہ میں زین العابدین رحمہ اللہ نے اس کی کھدائی کی تھی۔ اس کا پانی جھیل ڈل تک پہنچا تھا۔۔۔زین العابدین وہی شخصیت ہے جو کوثر ناگ میں شکارا میں تفریح کرتے تھے۔

کونگ وٹن کی جمیل وادی اور اس کے قریبی حصوں کا دورہ کرتے ہوئے، آپ کو عمدہ تفریحی مواقع حاصل ہوں گے۔ طبیعی مناظر کے علاوہ، آپ فعالیتوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں مثلاً پھولوں سر سبز وادیوں میں چہل قدمی کرتیں کرتیں اپ ٹھنڈی ہَوا کا لطف اس طرح محسوس کرتیں جیسے آپ جنت میں ہوں۔

 جہاں آپ طبیعت کے نزدیک ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا کی شور و غل میں سے دور محسوس کرتے ہیں۔ یہاں آنے سے، آپ کو طبیعت کی خوبصورتی اور اس کی نرمی کا احساس ہوتا ہے جو آپ کے دل کو بہت پسند آتا ہے۔ کونگ وٹن ایک پھول کی طرح ہے جو چشمہ سے بہتے ہوئے پانی کی مسیر پر رہتا ہے۔ اس کی خوبصورتی، شاندار مناظر اور آرام دہ ماحول کا یہ مشاہدہ آپ کو یادگار رہے گا۔۔۔۔۔



سرکاری کیمپ کی طرف سے منتخب قسم کے گھاس اور سبزیاں کا اگائی جانا، یہاں کی رونق کو بڑھاتا ہے۔ گھاس اور سبزیوں کی مختلف قسموں کی اگائش سے، مناظر اور حیاتیاتی خوبصورتی کا مزید وسیع انداز حاصل ہوتا ہے

و گھاس اور سبزیوں کی اہلیت کو مزید بہتر بناتا ہے اور کونگ وٹن کی خوبصورتی کو بہتر دکھاتا ہے۔ اس سے یہ علاقہ مزید مسرت بخش اور دلکش بنتا ہے جو لوگوں کو کھینچنے کا مقصد پورا کرتا ہے

سرکار کی طرف سے  ایک اور اقدام بھی محسوس ہوا کہ جہاں، جہاں جنگلی درختوں کی کمی نظر آتی ہے وہاں انہیں نئے نئے جنگلی درختوں کی اگائی کی ہے۔

یہ حسین وادی اکثر کوثر ناگ کے سفیروں کے لیے ماوی بنتا ہے یہاں رات گزارنے کے بعد صبح کو آرام سے کوثر ناگ کی طرف روان۔ ہوتیں ہیں۔ ۔۔۔چلیں ہم بھی کوثر کی طرف ہی رجوع کرتیں ہیں۔۔۔ اس کے متعلق تفصیلی بحث کے لیے پروانے سفرنامہ ضروری پڑھیں۔( پورانہ سفرنامہ) ۔۔۔ تب تلک چشمہ آ جائیں گا۔۔۔۔ 


ماجد کشمیری 





بے وفائی نا کروں | لا یدخل الجنۃ قاطع۔

0
وفا ایک بہت اہمہ اور نایاب خصوصیت ہے جو ہر رشتے کو مضبوط بناتی ہے۔ وفاداری ایک ایسی صفت ہے جو ایک شخص کو دوسرے شخص سے جوڑتی ہے اور محبت، احترام اور توجہ کا اظہار کرتی ہے۔ یہ رشتے کو برقرار رکھتی ہے اور توازن اور استحکام کا باعث بنتی ہے۔ لیکن اس دنیا میں کچھ لوگ اپنے رشتوں میں بے وفا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے وعدوں کو نہیں نبھاتے اور دوسروں کی خوشیوں کا خیال نہیں رکھتے۔ بے وفائی سب کچھ کھو دیتی ہے، یہ دلوں کو توڑتی ہے اور دوسروں کے لئے غم و دریغا کا باعث بنتی ہے۔ بے وفائی ایک منفی صفت ہے جو اخلاقیت کے خلاف ہوتی ہے۔

 وفاداری اور اعتماد: دو اہم اصول ہیں جو ہر رشتے کی بنیاد ہوتی ہیں، لیکن جب کوئی شخص بے وفا ہوتا ہے تو یہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور عملی زندگی میں تنگیاں پیدا کرتے ہیں۔ بے وفائی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگ مصلحتیں پیش کرتے ہیں اور دوسروں کی مدد کے بجائے اپنے فوائد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

 بے وفائی ایک اجتماعی اور روحانی مسئلہ بنتی ہے جو انسان کے دل کو تکلیف میں ڈالتا ہے۔ وفاداری اور تکیہ انسانی تعلقات کی اہمیت کو بڑھاتے ہیں، لیکن بے وفائی کے باعث، رشتے میں دھچکا پیدا ہوتا ہے۔ بے وفا افراد کئی طرح سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ اپنے احباب،اقارب یا محبوبہ سے وعدے کرتے ہیں، لیکن وقت آنے پر ان وعدوں کو توڑ دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف دوسرے شخص کا دل دُکھتا ہے بلکہ خود کو بھی انتہائی محسوس کرنے کا باعث بنتا ہے۔ بے وفا دوستی اور رشتے کو بھی اپنے پہلو میں لے لیتی ہے۔ وہ لوگ جو بے وفا ہوتے ہیں، دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ انسان کے دل کو چھوڑ کر ان کی قیمت کم کر دیتے ہیں اور ان کے ساتھ روزمرہ کے حسین لمحوں کو تباہ کرتے ہیں۔ بے وفائی کی صورت میں انسان کو دوسروں سے دور رہنا پڑتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا دل اچھے اور وفادار لوگوں کے ساتھ ہو، جن کے ساتھ وہ احساسِ تعلق کر سکے۔ یہ ایک دل کو تکلیف دہ صورتِحال ہوتی ہے جب کوئی شخص اس پر بے وفائی کرتا ہے جس کے ساتھ اس نے بہت ساری محبت اور وفا کی توقع کی تھی۔

 بے وفائی ایک منفی صفت ہے جو معاشرتی تعلقات کو متاثر کرتی ہے۔ ہمیں ہرگز بے وفا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں وفادار اور اعتماد کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے تاکہ ہم ایک دوسرے کے لئے معنی خیز اور قیمتی رشتے بنا سکیں۔

 لا یدخل الجنۃ قاطع او کما قال: لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذین اذا قطعت رحمہٗ وصلھا.



ماجد کشمیری 

منافقت کی تعریف | میں منافق تو نہیں ہوں

0

میں منافق تو نہیں؟!


عام تعریف جو ”منافقت“ کی، کی جاتی ہے : ظاہر اور باطن میں یکسانیت نہ ہونا۔ پر یہ جامع تعریف نہیں ہے، کیوں ہمارے ید کے طرفین متخالف ہے اور یہ فطرت ہے۔اور ایسا ہونا فطری ہے، تو تعریف ہوگی: اندر کی حقیقت کو جھٹلانا اور باہر کو مزین کر کے دکھلانا ”منافقت“ ہے۔


 ظاہر داری کے قرائن: ایۃ المنافق ثلاث: اذا حدث کذب، واذا وعد اخلف ،واذا اؤتمن خان. 


یہ علامتیں اس لیے نہیں ہیں کہ آپ ان کو دوسروں میں تتبع کر کے، ان پر منافقت کی لیبل یعنی فتویٰ دیں۔ بل کہ اپنا محاسبہ کرنے کے لیے ہیں۔ ، تاکہ مقبل وعید ہمارے لیئے متحقق نہ ہو جائیں۔ ان المنافقین فی الدرک الاسفل النار


علامتِ ثلاثہ: 1: کذاب، 2: مخالف اور 3: خائن۔ اب ان کو سمجھتیں ہیں۔


تشریحِ کذاب: اذان ہو رہی ہے، مؤذن ”اللہ اکبر ، اللہ اکبر، اللہ اکبر ، اللہ اکبر “ کہ رہیں ہیں۔ ہم نے جواباً عرض کیا۔ میں صلات کے لیے نہیں آؤ گا۔ تو میں نے جھٹلایا خداوند کی کبریائی کو تو ہم سے بڑا کو دروغ گو ہے ہی نہیں۔ 


تفسیرِ مخالف: اللہ وعدہ لیں رہیں ہیں : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ ہم جواب دیں رہیں ہیں: بلا کیوں نہیں۔، مگر ہم آستانوں پر ماتھا رگڑتیں ہیں، منسٹروں کے سامنے جھکتیں ہیں، تعظیمی سجدہ کرتیں ہیں۔ کوئی ہے جو ہم سے عظیم بر خلاف ہے۔ 


صراحتِ خائن: ہماری روح و جسد کا ہر حصہ، اللہ کی امانت ہے۔ حقوق و حدود اللہ کے موافق عمل نا کرنا خیانت ہے : جیسے : اپنی بیوی کے ورے کسی دوسری کی طرف دیکھنا۔ قوتِ یدین اور نطق کو حق کو مغلوب کرنے کے لیئے مستعمل کرنا، فریبی ہونا کا ثبوت ہے۔ 


ہم حساب کرنے میں ماہر ہے۔ دکان دار سے ایک درہم کی کمی کی بھی تفہیم رکھتیں ہیں۔ تو امروز بل کہ ہر روز محاسبی چھوڑ کر متحاسب بن کر ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ روح و جسم میں متضمن تو نہیں ہے۔ گر ایقان ہو جائیں تو برخواست کریں نہیں تو خائف و مفکر بنیں کہ کہیں شامل نہ ہو جاؤں ۔


✍️: ماجد کشمیری

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں