انگور کا گچھا میٹھا یا کھٹا

0

 تنبیہ نمبر ٢٦١ 


          انگور کا گچھا میٹھا یا کھٹا


سوال

مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:

ایک غریب دیہاتی، بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں انگوروں سے بھری ایک ٹوکری کا تحفہ پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا۔ کملی والے آقاﷺ نے ٹوکری لی، اور انگور کھانے شروع کئے۔ پہلا دانہ تناول فرمایا اور مُسکرائے، اُس کے بعد دوسرا دانہ کھایا اور پھر مُسکرائے، اور وہ بیچارہ غریب دیہاتی، آپ کو مسکراتا دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال۔۔۔ صحابہ سارے منتظر، خلاف عادت کام جو ہو رہا ہے کہ ہدیہ آیا ہے اور انہیں حصہ نہیں مل رہا۔۔۔ سرکار علیہ السلام، انگوروں کا ایک ایک دانہ کر کے کھا رہے ہیں اور مسکراتے جا رہے ہیں۔

میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں۔۔۔۔ آپﷺ نے انگوروں سے بھری پوری رکابی ختم کر دی اور آج صحابہ سارے متعجب!!!

غریب دیہاتی کی تو عید ہو گئی تھی، خوشی سے دیوانہ۔۔۔ خالی ٹوکری لئے واپس چلا گیا۔

صحابہ نہ رہ سکے، چنانچہ ایک نے پوچھ ہی لیا: یارسول اللہﷺ! آج تو آپ نے ہمیں شامل ہی نہیں فرمایا؟ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: تم لوگوں نے دیکھی تھی اُس غریب کی خوشی؟ میں نے جب انگور چکھے تو پتہ چلا کہ کھٹے ہیں۔ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ تقسیم کروں تو ہو سکتا ہے کہ تم (میں سے کسی) سے کچھ ایسی بات (یا علامت) ظاہر ہو جائے (کہ انگور کھٹے ہیں) جو اس غریب کی خوشی کو خراب کر کے رکھ دے…

کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ گردش کر رہا ہے.

□ حكي أنه جاء رجل فقير من أهل الصفة بقدح مملوءة عنبا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يهديه له، فأخذ رسول الله القدح وبدأ يأكل العنب فأكل الأولى وتبسم، ثم الثانية وتبسم، والرجل الفقير يكاد يطير فرحا بذلك، والصحابة ينظرون وقد اعتادوا أن يشركهم رسول الله في كل شيء يهدى له، ورسول الله يأكل عنبة عنبة ويتبسم حتى أنهى بأبي هو وأمي القدح والصحابة متعجبون.. ففرح الفقير فرحا شديدا وذهب، فسأله أحد الصحابة يارسول الله! لِمَ لَمْ تشركنا معك؟ فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: قد رأيتم فرحته بهذا القدح وإني عندما تذوقته وجدته مرا؛ فخشيت إن أشركتكم معي أن يظهر أحدكم شيئا يفسد على ذاك الرجل فرحته.

■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:

یہ واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، بلکہ من گھڑت روایات کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ منقول نہیں.

لہذا جب روایات کی تحقیق کرنے والے مختلف اداروں سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کو موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے.

○ الدرر السنیة:

الدرر السنیة والے لکھتے ہیں کہ یہ جھوٹ من گھڑت ہے، اس واقعے کا کتب حدیث میں کوئی وجود نہیں.

¤ الدرجة: كذب موضوع لا وجود له في كتب الحديث.

○ اسلام ویب:

اسلام ویب والے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ہمیں نہ ملی اور یہی لگ رہا ہے کہ یہ بےاصل روایت ہے.

¤ فلم نجد هذا الحديث، فيما اطلعنا عليه، والذي يظهر أنه لا أصل له.

○ ایک اور ادارے والے لکھتے ہیں:

اس واقعے کی کوئی اصل نہیں اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.

¤ ولا أصل له. ولا تصح نسبته للنبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وسلم.

● روایات کے بیان میں احتیاط کا تقاضہ:

آپ علیہ السلام کی ذات پر جھوٹ بولنے والے دو قسم کے لوگ ہیں:

أقسام الذين يكذبون علي الرسول ﷺ:

١. ایک وہ لوگ جو جان بوجھ کر جھوٹ بناتے ہیں، ان کا دین میں کوئی حصہ نہیں، اور اگر وہ اس جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں تو یہ کفر ہے.

□ القسم الأول: القسم الذي يكذب متعمداً ليس عنده دين، وإن استحل الكذب كفر.

٢. دوسرے وہ لوگ ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے لیکن روایات کو اچھی طرح یاد نہ کرنے کی وجہ سے غیر ارادی طور پر جھوٹی روایات بیان کرجاتے ہیں، کبھی الفاظ بدل دیتے ہیں اور کبھی مضمون ہی بدل دیتے ہیں.

□ القسم الثاني من الكذب: وهو الخطأ غير المقصود من رواة صالحين أي أناس فضلاء وأتقياء وأصحاب ديانة، لكن لم يضبطوا الحديث، يسمع الكلام يبدل لفظة بلفظة أو يبدل كلاما بكلام بسبب عدم تركيزه.

امام مالک فرماتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں سے زیادہ احادیث میں جھوٹ بولنے والوں کو نہیں دیکھا.

□ كما قال يحيى بن سعيد القطان أو كالإمام مالك أيضا قال: لم نر الصالحين في شيء أكذب منهم في الحديث.

امام مسلم فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے لیکن جھوٹی روایات ان لوگوں کی زبان پر جاری ہوجاتی ہیں.

⤴️2⃣

□ قال الإمام مسلم بعد ما روى هذا الكلام في مقدمة صحيحه: يعني يجري الكذب على ألسنتهم ولا يتعمدون الكذب.

امام ابن حبان کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کی طرف جھوٹی روایات كو منسوب کرنے والوں میں وہ شخص بھی شامل ہے جو احادیث کی صحت معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا.

□ قال ابن حبان في مقدمة كتاب المجروحين تحت قول النبي ﷺ: “من حدث عني بحديث وهو يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين”، وهو يرى، فإن حبان يقول: أن كل من لم يتحري البحث عن صحة هذا الحديث يخشى أن يدخل تحت هذا الوعيد.


                    خلاصہ کلام


آپ علیہ السلام کی ذات کی طرف کسی بھی بات یا واقعے کو منسوب کرنے اور اس کو پھیلانے سے پہلے اس بات کی حتی الامکان کوشش کی جائے کہ وہ بات درست اور قابل بیان ہے یا نہیں، ایسا نہ ہو کہ ہماری ذرا سی چوک ہمیں آپ علیہ السلام پر جھوٹ باندھنے والوں میں شامل کردے.

سوال میں مذکور واقعہ درست نہیں اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب


کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

٢٠ جنوری ٢٠٢٠ کراچی

علامہ انور شاہ کشمیری کی شان میں ایک نظم:

0



علامہ انور شاہ کی عظمت کا نہیں جواب،

حق کے علمبردار، تھے علم کے آفتاب۔


کادیانیت کے خلاف کھڑی کی دیوارِ کمال،

حق و باطل کے بیچ کھینچی ایسی مثال۔


علم و حکمت میں تھے وہ بے مثال،

حافظے کی قوت تھی ان کی بے زوال۔


عدالت میں کہیں جو بات نرالی،

انگاروں پر دکھانے کی دھمکی کمالی۔


یاد رکھے گئے دنیا، وہ عظیم انسان 

علامہ کی روشنی دے گئیں ایمان


ان کی علمیت، ان کی فصاحت و بلاغت 

اسماء الرجال میں تھی ایسی کمال مہارت۔


کادیانیت کے خلاف وہ جرات کی مثال،

حق و باطل میں کھینچی واضح لکیرِ کمال۔


ان کی باتوں میں تھا سچ کا جمال،

علم و ادب میں رہے ہمیشہ بے مثال۔ 


ماجد کشمیری 

ابن ماجہ کتاب الفتن کے راوی روایت کی تحقیق

0

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


سنن ابن ماجه کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن، میں ایک حدیث ہے: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يطوف بالكعبة وهو يقول ما أطيبك وأطيب ريحك ... الحديث

 اس حدیث کی روایت کرنے والے صحابی کا نام ہندوستان سے چھپے ہوئے پرانے اور متداول نسخوں، نیز پرانے عرب ممالک میں شائع ہونے والے نسخوں میں : ( عبد اللہ بن عمرو) لکھا ہے ، واو کے ساتھ ۔ یعنی عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ۔

جبکہ درست یہ ہے کہ یہ حدیث بروایتِ عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا ہے۔ محقق مطبوعہ نسخوں میں یہی ہے ، جیسے شعیب ارناؤط ، دار التاصیل، دار الصدیق وغیرہ کے مطبوعہ نسخوں میں۔

اور امام رازی نے بھی تحفہ الاشراف میں برقمِ 7284 پر اس کو مسند ابن عمر میں لکھا ہے۔


عبد اللہ بن ابی قیس النصری جو ابن عمر کے شاگرد ہیں، اور اس حدیث کی سند میں ان کا نام ہے، ان کا ترجمہ تھذیب الکمال میں ملاحظہ فرمائیں کہ ان کے مشایخ میں ابن عمر کا تو نام ہے اور اس کے آگے ابن  ماجہ کار مز (ق) لکھا ہے، مگر ابن عمرو کا ذکر نہیں ہے۔


ابن ماجہ کے پرانے قلمی نسخے بھی ابن عمر پر متفق ہیں، سوائے سلیمیہ والے نسخے کے کہ اس میں ابن عمرو ہے، جیسا کہ دار التاصیل کے محقق نسخے میں حاشیہ میں دیا ہے۔


الحاصل: ابن ماجہ کی سند میں ابن عمر ہیں۔


البتہ حافظ ابن کثیر نے مسند الفاروق میں موقوفًا اس روایت کی نسبت ابن عمرو وغیرہ کی طرف کی ہے، قال ابن کثیر :


لكن روي مثله عن ابن عمر وابن عباس وعبد الله بن عمرو : أن كلاً منهم نظر إلى الكعبة، فقال: ما أعظم حرمتك والمؤمن أعظم حرمة منك۔ اہ


لیکن ابن ماجہ والی مرفوع روایت تو ابن عُمر ہی کی ہے۔

واللہ اعلم

کتبہ العاجز : محمد طلحہ بلال احمد منیار، 22 رمضان


ترمذی شریف میں ایسی ہی روایت ابن عمر  ؓ کی سند سے ہی ہے۔


وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ السَّمَرْقَنْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، ‏‏‏‏‏‏نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا.

تجارت میں حلال و حرام کی تمیز نہ کر پانے کی وجوہات۔

0

تجارت میں حلال و حرام کی تمیز نہ کر پانے کی وجوہات۔

تجارت میں حلال و حرام کی تمیز نہ کر پانے کی وجوہات۔


شقاوتًا یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ تجارت میں دور حاضر و زمانۂ قریب کے مسلمان کسی اچھی پوزیشن پر نہیں ہیں۔ ہمارے لاشعوری حصے میں یہ بات مسلط کی گئی ہے کہ شعبہ جات کی فلاحی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، غیروں کے ہی شعبہ جات کو ترقی کے عرش پر پہنچانا ہے، جس کے عوض وہ ہمیں گھٹلی دیں گے اور خود آم کھائیں گئے۔


‎معروف رصافی نے کیا ہی گہری بات کی ہے۔


ناموا ولا تستيقظوا، ما فاز إلاّ النُوَّم ۔ خوابِ علفت میں ہی رہوں! جاگنا مت!، کامیابی کا راز یہی ہے


‎غلامی بھلا کیوں کر مسلمان کی طبعیت میں رکھی گئی ہوگئی؟ آپ اس گھٹلی کو لے کر اپنا شعبہ تو قائم کر سکتے ہی ہیں۔ نیز رزاق تعالی نے ہمیں زمین کا وارث تو بنایا ہی ہے، جس طرح دنیاوی مفلحین کو بنایا ہے ۔ جب وہ بزنس کر سکتے ہیں تو جن مسلمانوں کو ان کے دین نے تجارت کی ترغیب دی ہے اور قواعدِ تجارت اور اس کے ذرائع سے بھی آگاہ کیا گیا ہے، جس سے وہ کامیاب ہو جائیں۔ وہ بھلا کاروبار سے کس دلیل سےبھاگتے ہیں۔


مجھے اس کی افادیت پر کلام نہیں لکھنا ہے، کیوں کہ مخاطبین اس کے منفعت بخش ہونے کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ میران کی فہارس میں انٹرپرنروں (تاجروں ) کو دیکھتے ہیں۔ مگر خود اس غریبی مکت اور نبوی کام کو کرنے سےکتراتے ہیں۔ اس کی بہت وجوہات ہوتی ہیں؛ کچھ کا ذکر کرکے جانبِ مقصود لب کشائی کرتا ہوں ۔ سب سے بڑی رکاوٹ جو بن جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہاتھ میں انویسٹمنٹ (سرمایہ) نہیں ہوتا ہے۔ سرمایہ رقمِ غفیر کا نام نہیں ہے۔ بل کہ یہ وہ رقم ہے جو اپ کو دلاسا دیتی ہے۔ اس لیے آپ دیکھتے ہوں گیے کہ لون ( جو خود کی رقم نہیں ہوتی، بس بہانے) سے کاروبار شروع ہوتا ہے۔


 ہمیں کون رقم دے گا؟ جب آپ کا کردار و عزم اور پریزنٹیشن ایسی نہ ہو کہ آپ پر کوئی ساہوکار (قرض دہندہ ) بھروسا کرنے سے قبل سوچیں، تو پہلے خود کو تیار کریں ۔


‎ان قرض دہندگان یا سرمایہ کاروں سے رابطے کریں، جو آپ کے ساتھ منافعے میں شریک ہو کر آپ کو رقم و تجربہ دیں۔ اور باقی جو آج کل رائج طریقے ہیں، جیسے سرمایہ کسی کا اور محنت کسی اور کی، اور منفعت مقدارًا تقسیم وغیرہ ۔


 یہ سب تدبیرات تب کام آ سکتی ہے، جب آپ کے اندر کی غلامیت دم توڑ چکی ہو اور عزم آوری اور پلان اچھا اور تجربہ کاروں کے مشوروں کے ساتھ چلانے کی ایسی وسعت و ہمت جو خالی از کبر و نخوت ہوں۔


‎اب اس کی جانب مراجعت کرتے ہیں، جو مقصود ہے اعنی تجارت میں حلال و حرام کی تمیز کیوں نہیں رکھی جار رہی ہے؟ اس کی مضبوط اور پہلی وجہ تو یہ ہےکہ جو بزنس مین ہمارا رول ماڈل ہے یعنی جاگیردار ، ان کے ناقص و حرام کاروباری اصول میں حلت و حرمت کا کوئی باب ہے ہی نہیں، اور ہم انہی کی تقلید کرتے ہیں، جس کے باعث ہماری طبیعت بھی مادی، خود غرض بن چکی ہے، یعنی جو تقاضاءِ تجارت کے منافی ہے اور یہی سوءِ فہم گھر کر چکی کہ جاگیرداری کے ورے دھندا نہیں چل سکتا ہے، نہ فائدہ ہے۔ جب کہ حقیقی و صحیح کاروبار کی شرط اول ہے، اپنے اور دوسروں کی ادائیگی کا پورا صلہ دیا جائے۔ اور یہی ہے وہ جس کو برانڈنگ کہا جاتا ہے، یعنی جہاں خرچ ہونے والی رقم ضائع و فضول نہ لگے۔


دوسری وجہ : اس کی طرف ، ہمیں متنبہ کرنے والے بہت کم بل کہ کمترین دھیان دیتے ہیں۔ اپنی عمر میں نے بابِ اقتصادیات کے تبیان میں مسائل زکات کے ورے کچھ نہیں پایا ہے۔ جب کہ پیت کو سیراب کرنے والی چیزوں کا حرامی ہونا، بہیمیت کو تقویت اور ملکیت کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے اور یہی بہیمیت ہمیں باقی اعمال صالحہ کو نہ کرنے اور اعمال طالحہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ لہذا، اولین ترجیح والی ابواب میں، اس کو بھی شمار کرنا چاہیے۔ اللہ توفیق دے۔


تیسرا سبب مع حل: جیسے اسٹارٹ اپ پلان کو تشکیل دیا جاتا ہے اور اس میں کاروباری تصور، مارکیٹ کا تجزیہ، عملی منصوبہ اور مالی منصوبہ و تخمینہ ضروری ہے۔ بعینہ قوانین شریعہ کو پلان کا سرتاج بنانا چاہیں، یعنی اس کی حدود میں انتخابِ راہِ رزق اعنی حلال انڈسٹری کو منتخب کر کے قانون عمر ؓ کا پالن کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے، یعنی بیع اور ربا میں تفریق کا مبادی علم ہونا چاہیے اور وقتًا فوقتًا اور خصوصًا مشکوک صورت پر متنبہ کرنے والے کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ فلاح دارین مل جائیں ، جو مقصودِ ازلی ہے۔


 چوتھی بمعیت حل کے: ہمیں نہیں ملتا راسخ العمل نمونے جن کی ہم اقتدا کرتے مگر قلیل، رفعِ ھذا کے لیے شائقین علما کو اپنے اقتصادی علوم کے داعیہ کے موافق تجارت کرنی چاہی تاکہ وہ نمونہ شرعی قرار پائیں۔


آخری مگر لازمی : مادیت دلوں میں سیرات نہ کر پائے، یہ قوی وجہ ہے کہ جب یہ اندر گھس جائیں تو ہمیں مجبور کر دیتی ہے یہ کہنے پر: بیع مثلِ ربا ہے یعنی حلال و حرام تو یکساں ہے، اس میں کچھ فرق نہیں، اور ہر جگہ یہی ہوا ہے، زبان اضطرارًا ایسے تاویلی جملے کہنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔


خلاصۂ کلام : تجارت کو فروغ محراب و ممبروں سے دیا جائے، معیشت و اقتصادیت کے بابوں کی تشریح و توضیح بھی اپنی شرعی ذمہ داری سمجھیں جیسے کہ یہ ہے۔ اور جس طرح ہر سال صلات و صوم کی ترغیب اور فضائل بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ طبیعت بن جائے بعنیہ تجارت کے اصول بھی دہرائیں تاکہ وہ فطرت بن جائے اور عمل کرنا تن آسان ہو جائیں ۔


نیز ، عوام کو اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اپنی عقلی اصولوں کے بجائے شرعی اصولوں کی پابندی کرنی چاہیے۔ واللہ اعلم۔


 نہیں قدرت ہے ہمیں اس پر، گر وہ دلوں کو پھیرنے والا اس مقناطیسی میلان سے متنفر نہ کر دے، ہم طالبِ رحمت و رزق و توفیق ہے ۔ رب العالمین ہمیں نوازے، آمین۔


ماجد کشمیری

٢١ شوال المکرم ١٤٢٥

پی ڈی ایف حاصل کریں۔


ترمذی شریف کی روایت بتحقیق حضرت علامہ سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ۔

0

 ترمذی شریف کی روایت بتحقیق حضرت علامہ سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ۔ 


حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث حدثنا عمر بن إبراهيم عن قتادة عن الحسن عن سمرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لما حملت حواء طاف بها إبليس وكان لا يعيش لها ولد، فقال سميه عبد الحارث، فسمته عبد الحارث، فعاش ذلك، وكان ذلك من وحي الشيطان وأمره.



ترندی (۱۳۳:۲) اور حاکم وغیرہ کی روایات میں ہے کہ دادی حواء نے اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھا تھا ( حارث شیطان کا نام بتایا جاتا ہے ) اور یہ نام رکھنا شیطان کے فریب دینے کی وجہ سے تھا، جس پر مذکورہ آیت میں شدید نکیر آئی ہے کہ یہ آدم و حواء نے شرک کیا۔ معلوم ہوا کہ غیر اللہ کی طرف عبدیت کی نسبت کر کے نام رکھنا شرک ہے۔


فائدہ: امام ترمذی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کو حسن کہا ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ مگر یہ روایت قطعاً باطل ہے۔ وجوہ درج ذیل ہیں:


(۱) یہ عمر بن ابراہیم بصری کی روایت ہے عن قتادة عن الحسن، عن سمرة ، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں عمر کو صدوق یعنی معمولی درجہ کا ثقہ راوی قرار دیا ہے مگر لکھا ہے کہ قتادہ رحمہ اللہ سے روایت میں یہ راوی ضعیف ہے۔


 (۲) یہ حدیث مرفوع ہے یا حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے؟ اس میں اضطراب (اختلاف) ہے۔ غرض یہ روایت قطعی طور پر مرفوع نہیں۔


(۳) حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے لقاء اور سماع مختلف فیہ ہے، گو راحج ثبوت سماع ہے۔


(۴) حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے آیت کی جو تفسیر مروی ہے وہ اس مرفوع روایت کے خلاف ہے۔ پس اگر حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس یہ روایت ہوتی تو ان کی تفسیر اس کے خلاف نہ ہوتی ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ نے یہ تفسیر کی ہے قال : كان هذا في بعض أهل الملل، ولم يكن بآدم ( ابن كثیر )

(۵) علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان روایات کو قطعی طور پر اسرائیلی قرار دیا ہے۔ اور اس پر مفصل کلام کیا ہے۔ 

(۲) شرعاً اور عقلاً یہ بات ممکن نہیں کی نبی شرک کا ارتکاب کرے، چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی ؟! اور روایت میں یہ صراحت ہے کہ آدم و حواء علیہما السلام نے مل کر یہ نام رکھا تھا ( الدر المنثور (۱۵۱:۳) غرض یہ روایت عصمتِ انبیاء کے بنیادی عقیدہ کے خلاف ہے، اس لئے مردود ہے۔ 


( رحمت اللہ الواسعہ ص: 631)

گرجتی گر آنگن میں تو ہے فرعونی

0

 بکنے لگی تلوار بکنے لگے اقلام

بکے خواہش پہ ، کہیں لگے دام

رہتی نہیں تلوار کی تیزی میں دوام
آتی ہے جب اس پہ شہوتِ نام

قلم میں رہتی نہیں نظر فرقان تام 
لکھتا ہے وہ بد عقیدگیوں پر کلام

مٹ جاتی ہے طاقتِ تاثیرِ کلام
بڑھتا ہے جب اس میں باطل کا مقام

تلوار اٹھتی ہے جب نا حق سرِعام
لگ جاتی ہے اس پہ بزدلی کی لگام

طاقت تھی کلمے کی اور برکتِ ایمانی
بنی نہ فلسطینی تو ہے اس میں ناتوانی

گرجتی گر آنگن میں تو ہے فرعونی
برستی ہے کفار پر تو ہے قرآنی

کر عہد و عزم کہ بننا ہے جانفشانی
لڑنا ہے گر ہوں میں بے سر و سامانی

اٹھتی گر مظلوم کے لیے تو آتی مدد آسمانی
گر جھک جاتی ہجوم سے تو ہے اثرِ شیطانی

نازک مزاج ماجد کیا کریں خطابی
ہمیں کہاں آتا ہے جوہر سلمانی

غالب ہم آئے گئے ہے وعدے میں مذکور

0

حالتِ ناگفتہ سے مجبور

 

نہیں مجھے وفورِ زنبور


 نہیں ہوں میں بے قصور

 

نہیں بنا میں خالق کا مزدور


نہیں مجھے کوئی سندور

 

میں کیسے بناؤ گا حضور


ثروت سے ہوں مفرور

 

  سببہ میں ہوں بے سرور 


اب اپنی محتاجی پر غرور

 

میں اس لیے ہوں مسرور


زور خیال نہ رہا مستور

 

ہوگا عیاں فقیر کا دستور


جیب کی مالیت ہے منثور

 

سببہ نہیں ماحول میں بٹور


اللہ کے حضور بھی نہیں منظور

 

مجھے سے جسم بھی ہوگیا نامنظور


محسوس ہوا میں ہوں مسحور

 

اب میری زندگی بنی ہے ناسور 


نہیں حالت بدلنے کی مقدور

 

تخمینہ لگایا کہ ہو میں مسحور 


افسوس فکر سے میں معذور

 

کیسے بنوں گا میں از خود غیور


 مامور بہ کی نہیں مجھے ملتی مذکور 

 

کہتے ہیں اس پر بھی نہ ہو  رنجور


تیرا ظلم روزِ روشن کی طرح مشہور

 

مگر ظلوم کا نہیں رہتا ہمیشہ یور



گر جائے گے مظلوم کے پاؤں کی نیور

 

جب آئیے گا ان میں فطرت کا شعور


نکل جائے گے پنجرے سے طیور

 

جب ختم ہوگا ان میں باہمی فتور

 

قبولِ عمل عند اللہ گر ہو خطور

 

 تسلسلِ عمل سے آئے گا نیت میں بلور

 

شرط وہی ہے کہ بن جا تو شکور

 ملے گئی تمہیں ہی خلافت بھرپور


ہم مظلومین سے ہیں مہجور

نہ گھبرا یہ تو ہمارے لیے ہے جور 


نہیں ہمارے خون میں نَفور

 چھوڑ گھبرانا اے میرے غفور


ہمیں میں ہے قاسم کی جسور

 نہیں ہے ہمیں پسند جہادِ میسور


تلاشِ غفیر نہ کر بلکہ کر تتبعِ تیمور

 ڈھونڈ اپنے اندر ہی اپنے جیسے اور سَمور

 

 دلیلِ زبور کہ قرآن ہی ہے آخری دستور

 نہ بنا دوست ان کو یہ سب ہے چغل خور


نہ گھبرا پھر بھی ہے نظام ان کا کمزور

کیوں کہ نہیں فطرت کا ان کے ساتھ زو


ایم کے کیوں ہوتا ہے تو دل سے چِکور

 غالب ہم آئے گئے ہے وعدے میں مذکور 

ماجد کشمیری

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں