کالجوں میں عربی، فارسی، کشمیری اور اردو واسلامیات سے بے رغبتی کیوں| کالج میں سبجیکٹ معین کیسے کریں

0

الحمد للہ الذی وحدہ والصلاہ والسلام علی قادہ الدنیا والاخرہ. 

تعلیم کی افادیت کا ذکر ہی نہیں۔ اور یہ فقرہ مشہور و معروف ہے کہ تعلیم سے مقصود کردار نویسی ہے۔ اولیں درجات میں ہمیں ادب کے ساتھ ساتھ علوم و معلومات سے بھی آشنا کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس میں ہم قدم رکھتیں ہیں تو ہمیں تنوع ہدفِ مخصوصہ (اسٹی مز) ملتے ہیں۔ ہر ڈپارٹمنٹ اپنی مستقل و مفارق حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی محمکہ کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنا ملک و ملت کو خصارے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پر وہیں کچھ سبجیکٹس ہیں، جنہیں مغرب اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تو دل و جان لگا کر تحصیل و تعلیم کراتے ہے پر اس کے استحقاقیوں کو مستعبد (بعید) کر رہا ہیں۔ 

بقول اقبال رحمہ اللہ” مغربی تہذیب کا خالص اندورن قرآن ہے۔“

“The inner core of western civilization is Quran” 

اس لیے آپ دیکھتے ہوگئیں کہ کالج، و یونی ورسٹی میں اسلامی و ادبی زبانیں کی طرف ہماری رغبت بہت کم ہوچکی ہے۔ سبب ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں مغرب سے متاثر ہے، پر ہمیشہ ہمیش مغرب کو ہی دوش کیوں دیا جاتا ہے۔


 کبھی اپنے اضمحلال کا تعاقب کیا ہے؟ کیا تفکر و تدبر کیا ہے کہ وجوہ کیا ہیں؟۔ ہم اس سے متاثر ہوتیں ہی کیوں ہے؟۔ ایک اہمہ وجہ ہے کہ ہم اپنی اکمل دین کو ناقص گردانتے ہیں۔ اور دین سے دوری کی اہمہ وجہ اضمحلالِ علم ہے۔ حصولِ علم تحصیل و تعلیم سے ہوتی ہے، وہ زبان کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہی وہ دیوارِ اول ہے۔ جس پر حملہ مع فریب کیا جارہا ہے۔ اس لیے ہم عربی، فارسی، کشمیری،  اسلامک اسٹیڈی اور اردو سے محروم و محسود ہوتیں جا رہیں ہیں۔


للہ تعالا نے اسلام کے موادات کو علی الترتیب عربی، فارسی و اردو و کشمیری میں محفوظ و مامون کیا ہیں پر شقاوت سے ایسا شوشہ ہمارے ذہنوں میں چھوڑا گیا ہے کہ مذکورہ زبانیں (عربی و فارسی و اردو اور اسلامیات) بطورِ ہدف معین کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا کے مترادف ہے۔ بخدا ایسا مغرب کی فریب کاریوں میں سے ہیں۔ ہوش کے ناخن لینے ہوگئیں! 


المختصر اس پر  ہمیں بقدرِ ظرف و استطاعت انفرادی و اجتماعی کام کرنا ہوگا۔ جو کہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ دیانِ یونیورسٹی جو اس کی طرف بہت کم منعطف ہوتے ہیں وہ اس سے مرکز جاذبہ و موہوم و عروج بنائیں و اساتذہ و طلبا اپنی پوری قابلیت سے تحصیل و تعلیم و تدریس کو انجام دیں۔ وقتاً فوقتاً فہمائش ( کاونسلنگ) کو یقینی بنانا جائیں۔ ان میں ہر سبجیکٹ کا سکل ہونا چاہیے تاکہ کسی بھی محمکہ سے تعلق رکھنے والے طلبا اس سکل سبجیکٹ میں ان کی افادیت سے آشنا ہوں۔ جس سے بتدریج رغبت میں اضافہ ہوگا۔۔۔


 آپ کے متعلقین جو سمیسٹر اول یا ہائر ایجوکیشن میں قدم رکھنے جا رہیں ہیں، انہیں پیشتر داخلہ ان کی افادیت سے آشنا کریں اور اگر تامل کیا جائیں تو ان سبجیکٹس میں افادہ دین و دنیا بمقابلِ باقیہ زیادہ ہیں۔ جیسے آج کل کے مقصد تعلیم کو پوری طرح تکمیل کی طاقت رکھتیں ہیں و دین و دنیا و رضاءِ خداوند جو علمِ اموراتِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہے۔  اُن میں ان سے فلاح کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔ اس لےان کے تحفظات کے لیے ہمیں مجتہد و مستعد (کوشاں) رہنا ہوگا۔ نصر من اللہ و فتح قریب کے لیے شرط وہی ہے۔ 

ماجد کشمیری 

۲۵ جون ۲۰۲۲

Check out in English


خانہ جنگی کا تنقیدی مطالعہ

0

بحکم دانشکدہ کلگام ہمیں دو مختلف موضوع پر نوشت کرنے کا حکم ملا تھا پر ہمیں آخر میں معلوم ہونے کے سبب دونوں موضوع میں ربط ظاہر کرنے میں ناکام رہے تاہم ان میں ربط تلاشی سے ملتا ہے مضمونِ مقدم میں اس کا خیال رکھے بغیر کوئی چارا نہ رہا۔ حیر باعثِ قلتِ وقت ہمیں ڈرامہ خانہ جنگی کا مطالعہ کا موقع نہ ملا اس لئے راہِ مستقیم پر چل کر شرافت اللہ کی کتابچہ ڈرامہ خانہ جنگی کا تنقیدی مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا اس لئے اس میں کسی حد تک مقلدانہ رویہ بھی مل سکتا ہے۔

کالج کے منتخب کردہ مضامین گرچہ عدداً پانچ ہے پر طے شدہ طور پر ان میں خاصا ربط پایا جاتا ہے جس کے سبب اگر کسی موضوع پر محققانہ تحریر کیا جائے تو تمام کا خلاصہ نویسی ہوگا اس کو پیش نظر رکھ کر مقالہ لکھا جا رہا ہے۔ (اس لیے ہمیں خلاصہ نویس لقب مل سکتا نہ کہ مضمون نگار کا) 

کشمیر میں اردو اگرچہ ہندوستان کے مقابلے میں بعد میں پہونچا  کیوں کہ تاریخاً ملکِ کشمیر تہذیبِ ہندوستان کا حصہ نہ تھا پھر بھی بھارت کے پس ازاں نہیں ہے۔

کھانا جنگی کا عنوان شاہجہان کے دعوے حکومت 16 فروری ۱۶۲۷ٕ سے ہوتا ہے جب موصوف کے اِمارت میں غم و الم سے لبریز تھا اور شاہ جہاں اپنے اخلاف کی خانہ جنگی سے سخت پریشان تھے۔ اسی خانہ جنگی میں اورنگزیب جو ملہوف القلب اور چالاکِ مطلق مراد کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور یہ طے ہو جاتا ہے کہ دارالشکوہ سے مقابلہ کرتے ہیں جس میں اورنگزیب فاتحِ بن جاتا ہے۔ داراشکوہ محراب سے بھاگ کر دہلی چلا گیا اورنگزیب نے دلی فتح کر لی اور دارا شکوہ لاہور کی طرف بھاگ گیا ۳۱ جولائی ۱۶۵۷ میں اورنگزیب نے خود کو شاہنشا کا خطاب دیا۔

ڈرامہ کی پہلی ایکٹ میں شاہجہان کی کردار سے صلح و صفائی کا اظہار ہے دارا شکوہ کی زندگی آزاد مزاج کی جھلکیاں کے موجود ہے۔ پرجا کی رائے اورنگزیب کے متعلق کیا ہے ان کا اظہار ہوتا ہے دور شاہجہانی میں عوام شریعت اور طریقت کی جنگ میں الجھے ہوئے تھے۔ 

عنفوان ایکٹ دوجا کردارِ شاہ  شیخ سر مد سے شروع ہوتا ہے ۔ جو دور شاہجہان کے معروف صوفی تھے ان کے اردگرد متعلقین کا اژدحام ہوتا ہے۔ سپاہی خوان لے کر آتا ہے۔ دسترخوان میںوہ دیکھ کر داراشکوہ کی ہار کے متعلق جان جاتے ہیں۔ لڑکے کے ٹال دینے کے بعد ابرہم بد خشانی آتا ہے۔ یہ شیخ کا مرید تھا۔ شیخ ان سے ناراض لہجے میں گفتگو کرتے ہیں درمیان میں دو لڑکے ظاہر ہوکر ۔۔۔ دارا شکوہ کے آنے کی اطلاع دی جاتی ہے اس پر جاہلانہ مباحثہ ہوتا ہے ۔۔۔۔ ایکٹ کی ڈرامائی اہمیت میں اعتماد خان سپاہی ایک سپاہی عالم و محتسب کی حیثیت سے۔  شیخ شاہ سرمد رحمہ اللہ کے سوانحی حالات کی جھلکیاں ملتے ہیں۔ عالموں کا مصلحتی اندازہ عالمگیر کا شخصی تعارف اور وکیلِ شیخ سرمد رحمہ اللہ کی بے باک زندگی کی جھلکی ملتی ہے 


وکیل شیخ کی نخیف وزار دکھائی دیتے ہیں پانچویں ایکٹ میں ملتا ہے شیخ سے قلبی یگانگت اور ان کی اضطرابی شاگردوں کو گھر واپسی کے حکم سے ہوتی ہے ۔ وہ لطف اللہ سعد الدین اور حفظ الرحمن کو جواب تو دیتے ہیں پر خود سکونِ قلب سے محروم ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب کے جام شہادت کی برتری کا احساس دلاتے ہیں اور ملا کی خود کلامی سے پلاٹ کو سنجید اور متاتر بناتے ہے۔ 

اب لکھتے لکھتے جب ہم متاثر ہوئے تو ڈراما خانہ جنگی کا سرسری مطالعہ کرنے پر بھی مجبور ہوئیں


شاہجہان پہلے ایکٹ میں نمودار ہوتے ہیں اس کے بعد واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دارا شکوہ کی شکست کے بعد عنانِ حکومت اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھ میں رہا 


 تاریخی ثبوت اس بات کی شاہد ہے کہ موصوف کی شخصیت بہت پر کشش تھی اور آخری عمر میں چہرے پر خوبصورت داڑھی بہت دیدہ زیب لگتی تھی پر ڈرامہ میں شخصیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے اگر چہرے کی اداسی کا ذکر ہے جو کہ ملکی و سیاسی کشمکش غمازی کرتا ہے۔ 

شاہجہاں جہاں اپنے اخلاف میں دارہ شکوہ سے محبت کرتے تھے وہیں ملکی امور کے معاملے میں وہ اورنگ زیب کے معترف تھے۔ پہلے علم ان کی عزت کرتے تھے سپاہی ان پر جان دیتے تھے۔  داراشکوہ طریقت کا حامی تھا اور اورنگزیب شریعت کا دونوں کے اختلاف نے خانہ جنگی کرائی اور شاہجہان اپنی نونمانوں خاک و خون میں تڑپتے دیکھتا رہا۔ ان کی انسانی سیرت کردار کی روشن مثال نے ان کے دور کو دور ذرین بنا دیا۔ 

ان کے بعد ڈرامہ میں بالترتیب مرکزی کرداروں میں دارا شکوہ ہے۔ وہ شاہجہان کی چہتی اولاد تھا داراشکوہ گیر مادے سے زندگی گزارتا تھا وہاں علم و صوفیوں کی صحبت میں گزارنا پسند کرتا تھا مزاج میں فرق تو عجلت پسندی کی ان کے والد ان کو کہتے تھے” دارا مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم میں اتنا تکبر کہاں سے آ گیا تمہارے مددح کو صوفی بلکہ ولی کہتے ہیں ۔تم تو نہیں چاہتے کہ اپنے خیر خواہوں کی بلاوجہ دل آزاری کرو“

حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دارا، شجاع ، مراد اور اورنگزیب سب حقیقی بھائی تھے مگر سب کی طبیعتوں میں بلا کا بعد تھا۔ دارا سب سے بڑا تھا اس لئے ولی عہد سلطنت منتخب ہوا پس باقیوں کو راس نہ آئی اورنگزیب نے چالاکی سے دھارا کی پوزیشن اس بنیاد پر نازک کر دیں کہ وہ مذہب اسلام سے متنفر ہے۔ جنگ میں نااہلیت کا اظہار بھی ہوتا ہے جب شمن کو آرام کرنے کا موقع دیتا ہے۔

دارا شیخ سرمد سے عقیدت تھی وہ برابر ان کو نان و نفقہ بھیجتا تھا ہاتھی سے اتر کر شیخ کی تعظیم کرتا تھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ سرمد سے خاص ارادت ہے۔ 

اورنگزیب

اورنگزیب المقلب ابو المنطر محی الدین محمد ۔ اورنگزیب بہادر عالمگیر بادشاہ غازی کہلوایا۔ اپنے دورِ امارت میں چند اہم تبدیلیاں کیں تمثیلا: سکوں پر کلمہ ختم کروا دیا ،قبروں پر کلمہ کندہ کرنے کی ممانعت تھی۔ پانچ وقت کی نماز کا سخت حکم تھا ۔ نشیلی اشیاء کی فروخت ممنوع تھی۔ زنا قطعہ غیر قانونی تھا۔ تقریباً ۴۳ سال کی حکومت کرنے کے بعد ۳ مئی ۱۷۰۷ میں رحلت کر گئی پر ڈرامہ میں اورنگ زیب کے متعلق کوئی باقاعدہ تعارف نہیں ہے۔ 

ڈراما کے خصوصی کردار: شاہجہان جس کا مختصر پر باقاعدگی کے ساتھ تعارف نہیں ہے داراشکوہ کا مفصل تعارف اورنگزیب کا تعارف مع باقاعدگی نہیں ہے۔ مولانا ابو القاسم کا تعارف متاثر آمیز ہوا ہے شاید اس لیے کیونکہ ان کی تعارف المیہ آمیز ہے شیخ جو پہلے یہودی تھے پھر مسلمان ہوئے تھے پر ان کا مکمل تعارف نہیں ۔


المختصر اگر خانہ جنگی کو بطور تاریخی ثبوت بھی یا حقیقی پس منظر میں تولا جائے تو بے وزنی پر ادبی ڈراموں میں متضمن کر سکتے ہے بلکہ کیا گیا ہے

ماجد کشمیری 

ڈراما کا تحقیقی جائزہ

0

 ڈراما جہاں الفاظوں کا مجموعہ ہوتا تھا وہاں اس کی شناخت اور اس کے عناصر سے تعریفِ مجموعۂ الفاظ پر صادق نہیں آتا ہے۔ اس لیے مجموعۂ الفاظ کا ایسا ہونا جس کی مصوری ہو سکتی ہے اسے ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ اگر لفظِ جدید میں اس کی ترجمانی کی جائے تو فلم کے نام سے موسوم کرنے میں مضائقہ نہ ہوگا۔ ڈرامہ فنی نقطۂ نظر سے واقعات کی کہانی ہونے کے بجائے کرداروں کی کہانی بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناوِل اور ڈرامے کا فرق بتلاتے وقت ڈرامہ کرداروں کی حکایت بن جاتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ڈرامے کو کردار کی عظمت سے یاد رکھا جاتا ہے اور کردار کی نفسِ انفرادی سے مرغوب کیا جاتا ہے۔ جس سے عامیانہ اس تمثیل سے اخذ کر سکتے ہے کہ ڈرامے میں مرکزی کردار (ہیرو) سے ہمیں فطری یگانگت و شیفتگی ہو جاتی ہے۔


 ڈراما (سوانگ) کا تجزیہ کرنے سے پہلے ڈرامے کا اساس و ارتقا کی شناسائی کرتے ہے۔ ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے اس کا مصدر اسپا (سپا،spaw) ہے۔ جس کے معنی کرکے دکھانا ہے جس کی بالا میں تفسیر ہوئی ہے۔ ڈرامہ پہلے شاعری کا جزو سمجھا جاتا تھا اور منظومیت شرط تھی۔اب یہ مستقل ادبی صنف و شرطِ منظوم سے جدا ہے بلکہ اب تو منظومی ڈرامے بہت کم لکھے جاتے ہیں۔


اگر اب شرطِ ڈراما ہے تو ڈراما دل پذیر و مقناطیس ہے۔ یعنی ہر شے کی عکاسی ہو اور ڈراما ٹسٹ کے الفاظ مبین ہو (جس میں کسی تفسیر کی حاجت نہ ہو)۔

سوانگ کے دو اہمہ قسمیں ہے۔ المیہ: مشاہدۂ نفس سے معلوم ہوتا ہے کہ الم کا جذبہ راحت سے زیادہ قوی، گہرا اور دیرپا ہوتا ہے راحت و مسرت سے انسان کے جسم و روح پر نشہ سا مسلط ہو جاتا ہے اس لئے اس کا احساس کسی قدر کند ہوتا ہے بہ خلاف اس کے الم حس اور ادراک کو اس قدر تیز کر دیتا ہے کہ انسان کی ہر خلش، ہر کسک صاف محسوس ہوتی ہے۔ آپ خوب واقف ہوں گے کہ ڈرامے(فلموں) میں منظرِ المیہ ہم دل کی آنکھ کھول کر اور تاثیر کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ (کیونکہ المیہ سے فرحیہ بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے) پہلے پہل تو المیہ کو ظاہر کرنے کے لیے ڈرامہ نوشت کیا جاتا تھا تخمینا شکسپیر کے فرحیوں کے دیکھنے کے بعد اہلِ نظر اسے مبدل کرنے پر آمادہ و مجبور ہوئے لیکن اس میں اب بھی شائبہ نہیں ہو سکتا کہ دنیا کی ہر زبان میں بہترین ناٹک تقریباً سب کے سب المیئے ہے۔


دوسرا فرحیہ: اس کا اندازہ ہوگیا ہے کہ ڈرامہ میں جذبات کا عمیق اثر ہوتا ہے اس لیے فرحیہ ڈراموں میں وہ کسی قدر کم ہوتا ہے۔ اس سبب موصوف قسم کے ڈرامے بے اثر، کم دیکھے اور ناپسند کیا جاتے ہیں۔ دور حاضر میں گر چہ فرحیہ ڈراموں کو بھی  نا پسند نھیں کیا جاتا ہے جیسے کشمیری کل خراب پر آپ محسوس کرتے ہوگئیں عین وقت پر مزاخ کا رخ ناصحانہ ہو جاتا ہے۔ جس سے قارئین اس کی داد دیتا ہے۔ اطوال کا خوف نہ ہوتا اس کے طویل کرتے، اب قارئین کے فہم پر موقوف رکھتا ہوں۔

ڈرامے کے اجزاء ترکیبی: منصفِ بوطیقا کے مطابق اس کے چھ جزو ہے: پِلاٹ: عملی مشق اور باہمی ربط کو پلاٹ کہا جاتا ہے ۔ 

دوجا کردار: اشخاص کی افادیت کا تخمینہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوت ہے بغیر کرداروں کی نقل و حرکت سے ناٹک سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسے، ناقل کے اشک جوئی سے منظرِ نا خوش آئندہ کا قیاس ہوسکتا ہے۔ اور خوش وخرم سے تقریبِ فرحان کی اٹکل کی جاسکتی ہے۔

تیجا مکالمہ: سوانگ کی حکایت کو آگے بڑھنا، پہلو کی توضیح ، فضا میں معاونت کرنا موصوف سے مقصود ہوتا ہے۔  

چوتھا زبان: زبان سے ڈرامے کی معدویت تو نھیں ہے پر ضروری الظاہر ہے۔ اور زبان عامیانہ ہونا بھی کسے سے کم ہے۔ 

پانچواں و چھٹا: موسیقی و آرائش: درو معشوق میں اب ان کی بھی اہمیت کا انکار نھیں کیا جاسکتا ہے۔ 

ضمیمہ نوٹ: سر والے گانے اور سر والی موسیقی چاہے صوفی کا لیبل ہی کیوں نہ ہو دین فطرت( اسلام) میں حرام ہے۔ 

الحاصل ڈراما نگاری کا صحیح استعمال افادہ سے خالی نھیں پر جدید اشکال فحاشت کے اسباب بھی ہیں۔ جن سے اجتناب از حد ضروری ہے۔

ڈراما خانہ جنگی کا تنقیدی جائزہ

ماجد کشمیری

30 May 2022

کولگام سے کونگ وٹن تک

0

 سفر کا آغاز ہو والدین کی دعا نہ ہو ممکن نہیں۔ ہمارے سفرِ کنگ واٹن کا آغاز بھی دعائے مقبول سے ہوئی۔ ہم برادری میں عین وقت پر متضمن ہوا، اس لیے والدین کو خاصی اطلاع نہ تھی۔ خیر فجر سے پہلے پہل غسل کیا اور نماز ادا کرنے کی توفیق ملی اور ہم برادری کے راقب ہوئیں۔ ۔۔۔۔۔۔ ریستوران سے توشۂ سفر لینے کے بعد ہم اھربل تک نظموں و نعتوں کے سہارے سفرِ سیارہ زائل کر رہے تھے۔ اضطرابیت اور مسروریت سے ہم منزل مقصود کی رسائی کے منتظر تھیں۔۔۔اھربل پہنچتے ہی عمیم کی دوش آبشار کی طرف منعطف ہوئی۔۔۔۔ اتفاقاً ہمارے استاذ پرکٹ ہوئے اور ہم مودب ہو کے سلام و دعا کرنے لگے، جیسے ہی وہ ہم سے اوجھل ہوہے تو دوڑ پھر پرواز چڑھ گئی اور وہی رک گئی جہاں پر جھرنے نے ششدر کردیا۔


یہ کیسی بہتی ہے پہاڑوں سے ندی

 برسوں سے دیکھتی خدا کی عالی 

 وہ جھرنا وہ جھرنے کا پانی 

آقا کی نعمت اور بھی کہانی 

 


شقاوت سے اعتراف کرنا پڑ رہا ہے برادری بے لوث مصوری میں مبتلا ہوئی جو کہ اسلام کے اصل کے خلاف تھی۔۔۔۔۔ خیر خدا کی نعمتوں کا اعتراف کر کے، چائے کی چسکی لینے کے لیے ڈھابے کی طرف نکلے۔ اب سفر پاپیادہ تھا، ڈھابے سے ضمیمہ اشیا لے کر کمربستہ ہو کر چلنے کی تیاری کرنے لگے۔

 ع   سبزار مائل کر رہا تھا

ظاہری غم زائل کر رہا تھا۔

 ہماری مسروریت کچھ زیادہ ہی تھی ہم آگے چلے گے اور گم راہ ہوئے، راہِ باطلہ پر ایک گامی ملا سلام و دعا کی اور بولیں آپ کو کہاں جانا ہے؟ جی! کونگ واٹن۔ اچھا، وہاں کا راستہ وہ ہے۔ جٓی شکریہ ۔۔۔ آپ کی عاطفت۔۔۔ اور میرے شبھ چنتک بھائی بندی میں انتشار ہوا تھا جس پر ہمیں تربیتی ڈانٹ بھی تسلیم کرنی پڑی۔۔۔۔۔ آہ آہ ۔۔۔۔ہاہا۔۔


سچ کہوں تو برادری سست تھی۔۔۔۔۔، ہم سے ایک ہم  قوت فرد ملیں وہ عرب امارات میں رہتے ہے جس کے باعث وہ عربی سے آشنا ہے۔ عربی میں باتیں کرنے لگیں اور چلتے بنے۔۔۔ برادری بکری کے ساتھ قبیحہ مصوری کرنے لگے، اس پر وہ کہنے لگے ۔


کل ھم مشغول بالماعز نذھب، سرعہ سرعہ۔ 

ایوہ مدیر لنذھب سرعہ سرعہ الی تنغ واتن

خیر بہت باتیں ہوہی عربی میں، ہم اہل عرب نہیں، چلتے چلتے آپ ہم تھک گے اور اب توشۂ سفر بھی بوجھ و بوجھل لگنے لگا۔ ذہن کو منتشر کرنے کے لیے آپس میں سامان تبدیل کیا تاکہ دماغ یہ سمجھیں کی وزن کم ہوا ورنہ وزن سب میں  برابر تھا،۔۔۔۔ ہمیں چھوڑ کر۔۔۔۔ جس کی بھرپائی مراجعت کے سمے ہوئی۔ ۔۔۔ بوجھل ہی سہی، آپہنچنا نصیب ہوا ۔۔۔۔۔ خیر! مادیت پرستی انسان کو کہاں چھوڑتی، پیٹ پوجا شروع ہوئی۔۔۔ ہر سمت صعود ہی صعود تھی، قیام پزیر ہوئے تو کہاں! اُدھر ادھر، نہیں وہاں۔۔۔۔ اب یہاں۔۔۔۔ طعام کے بعد مقابلہ مابین ہوئی جس میں ہمیں۔۔۔۔۔ ہوئی۔۔۔ سب وضو کرنے لگے اور بارش شروع ہوئی ہم نے حکومتی پنڈال میں بانگِ ظہر دیکر نماز ادا کی اور جانا تو اونچائیوں پر تھا، کھیلنے لگے عملہ چروا : ارے وہی کرکٹ نا۔ جس کے باعث گھومنے میں خاصا فرق پڑ گیا، اور وقتاً فوقتاً گہوارش کا آنا سیر وتفریح کے لئے مانع بن رہا تھا۔ برف سے لبا لب پہاڑیاں جو احساس دلا رہی تھی کہ اصل خوبصورتی سے مستعبد ہو۔ جب تک ہم منعطف ہوتے مہلت ختم ہوئی تھی اور مصوری کی دنیاوی سزا بھی مل گئی۔ اور ژالے گرنے لگے اور وہیں پنڈال میں تھم جانا کا انتظار کر رہے تھے۔ ۔۔۔ ۔۔ معاودت پر وہی مکافات لیا ۔۔۔۔۔ مراجعت کے سمے ہمارا پالا جاموس سے پڑا۔ برجستہ احدھما بولیں کہ یوں ہی علما کو ان میں اختلاف نہیں! سب نے واہ واہ کی۔۔۔۔  اصلاً ان کی حلت و حرمت میں کس بھی فرد کو اختلاف تو نہیں۔ ہاں ایک منڈل اپنی مفارقت دیکھنے کے لیے ان کی قربانی مشکوک سمجھتے ہے، اصلیت یہ کہ جب ساڑھے گیارہ مہینے ۲۸ یوم حلال ہے، پھر دو دن میں مشکوک کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔ ( لحمہْ فکریہ)۔۔۔    ایک لمبی وادی میں طعام کے لیے رکیں اور پھر قیام ابدی کی طرف متوجہ ہوئے اور ۔۔۔۔ سیکھنے سمجھنے کے لئے بہت کچھ تھا، پر ہم میں شاید وہ لیاقت نہ تھی کہ ادراک کر سکیں۔ پر دن ضائع بھی نہیں ہوا۔۔۔ آخر آغوشِ ماں نے لیل ونہار کو بیش بہا بنا کر، ہمیں آسود بنا دیا۔ الحمدللہ علی کل نمعہ


ماجد کشمیری

۱۹/مئی /۲۰۲۲


قوال حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا انسائیکلوپیڈیا کتاب کا تحقیقی جائزہ

0

قوال حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا انسائیکلوپیڈیا ..... کتاب کا تحقیقی جائزہ


(اقوال حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا انسائیکلوپیڈیا) اس کتاب کا پڑھنا کیسا ہے ؟ اور اس میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب کرکے جو سیکڑوں اقوال بیان کئے گئے ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ 

----------------------------------------------------

الجواب وباللہ التوفیق

1) مذکورہ کتاب جسے مغفور الحق اور حافظ ناصر محمود ان دونوں حضرات نے ترتیب دیا ہے اور اس میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب کرکے بغیر کسی سند اور حوالے کے سیکڑوں اقوال کو عنوانات کے تحت ذکر کیا ہے .

جس کاچوتھا ایڈیشن 

ادارہ (بک کارنر شو روم جہلم) نے سن 2012 میں شائع کیا ہے .


2) مذکورہ کتاب میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے جتنے بھی اقوال ذکر کیے گئے ہیں کتاب کے متعدد مقامات پر میں نے انہیں دیکھا تو وہاں پر اقوال کا نہ کوئی حوالہ ہے نہ کوئی سند اور نہ ہی کسی مستند کتاب کا کوئی ذکر ہے لہذا سوال میں ذکر کردہ کتاب کا پڑھنا اور اس میں ذکر کردہ اقوال کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے اور یہ ایک نہایت ہی غیر مستند اور ناقابل اعتماد کتاب ہے .


3) یاد رہے کہ صحابہ کرام کے اقوال عام بزرگوں کے اقوال کی طرح نہیں ہوتے کہ اس کے لئے کسی سند کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ صحابہ کرام کے اقوال جو کہ (غیر مُدرَک بالقیاس) ہوتے ہیں یعنی جن کو قیاس کے ذریعہ سے اخذ نہیں کیا جاتا وہ بارہامحدثین کے یہاں حدیث مرفوع کے حکم میں شمار کر لیے جاتے ہیں .

 اسی طرح صحابہ کرام کے وہ اقوال جن کا تعلق شرعی مسائل سے ہوتا ہے اگر کوئی حدیث مرفوع اس سلسلے میں موجود نہ ہو تو بعض مرتبہ صحابہ کرام کے اقوال کو ہی حجت مان کر اس پر فتویٰ دے دیا جاتا ہے .


 لہذا کسی صحابی کا قول جب تک کسی معتبر کتاب میں مسند حوالہ جات کے ساتھ نہ مل جائے تب تک اس قول پر اعتماد کرنا درست نہیں ہے .


4) اور شیعہ لوگوں نے بہت زیادہ من گھڑت روایات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور اہل بیت کی طرف منسوب کرکے بیان کی ہیں جو کہ ان سے آگے بڑھ کر اب اہل سنت والجماعت کی عوام میں بھی بہت حد تک یہ قوال رائج ہو چکے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی لہذا اس سلسلے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ مبادا ہم صحابہ کرام کی طرف خصوصا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف ایسی اقوال کو منسوب کر دیں جو انہوں نے حقیقت میں اپنی زبان سے کہا ہی نہیں ہو اور ہم خدا کی گرفت کا (معاذاللہ ) شکار ہو جائیں.


ھذا ما ظہر لی و اللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

 *وکتبہ ابواسامہ حنفی ملی غفرلہ* 

10/شوال/1443ھ

12/مئی/2022ء

مساجد کے حمام میں نماز و تلاوت کامسئلہ سوال:

0

 

سوال:-عموماً لوگ حمام کے غسل خانوں میں بغیر طہارت کے داخل ہوتے ہیں۔ کیا اس جگہ نماز یا کلمات پڑھنا جائز ہوگا؟  

منظور احمد قریشی۔سرینگر

جواب: -کشمیر میں مساجد میں غسل خانوں سے ملحق پتھر کی سلوں کا وہ حصہ جس کو حمام کہا جاتاہے ،دراصل اس کو حمام کہنا ہی غلط ہے او ریہ غلط العوام کی وہ قسم ہے جس سے شرعی مسائل تک متاثر ہو جاتے ہیں ۔ حمام کے معنی غسل خانے کے ہیں ۔ چنانچہ جہاں گرم پانی سے نہانے کا انتظام ہو اور ایک بڑے ہال کو چاروں طرف سے بند کردیا گیا ہو پھر چاروں طرف گرم پانی کے نلکے ہوںیا گرم پانی کا حوض ہو اُس ہال میں داخل ہوکر نہانے کا ،بدن کوگرم کرنے کا کام لیا جاتاہے ۔ اسی کو حمام کہا جاتا ہے۔ حمام دراصل صرف نہانے کا ہوٹل ہے ۔ شرح ترمذی۔ احادیث میں جس حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے وہ یہی حمام ہے ۔ یہاں کشمیر میں مساجد یا گھروں میں جو حصہ پتھر کی سلوں سے تیار شدہ ہوتا ہے اس کا اصلی نام صفّہ ہے جس کو یہاں کے شرفاء ’’صوفہ ‘‘کہا کرتے تھے ، جو مسجد نبوی کے صفّہ سے ماخوذ ہے ۔ اُس صوفہ پر نماز ، تلاوت ، تسبیح وغیرہ سب جائز ہے ۔ مساجد میں جو صفہ یعنی یہاں کے عرف میں حمام ہے اُس میں یقینا بے وضو وغسل آدمی داخل ہوتا ہے مگر اُس کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع قرار نہیں پائے گا۔ جیسے کہ اپنے گھروں میں میاں بیوی کے مخصوص کمرے میں بھی انسان بے وضو وبے غسل ہوتا ہے تو اُس وجوہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع نہیں ہوتا ۔اسی طرح مساجد کے صفہ(حمام)کا معاملہ ہے کہ یہ مسجد کا حصہ بھی ہے مگر مسجد کے حکم میں نہیں ۔اُس گرم حصہ پر اگر صف بچھائی جائے اور اس صف پر سنتیں ، نوافل ،تلاوت ،تسبیح ، ذکر وغیرہ کیا جائے تو یقینا یہ جائز ہے ۔ بلکہ اس کی وجہ سے وہ لغو باتوں کے بجائے محل عبادت بن سکتا ہے ۔ ورنہ یہ صفہ طرح طرح کی لغویات کا مرکز بن جاتاہے ۔

صدر مفتی نذیر احمد قاسمی دامت برکاتہم العالیہ

ماخذ: کشمیری عظمیٰ


سنت مؤکدہ کا اصرار کے ساتھ ترک کرنا باعث گناہ ہے|

0

 سنت مؤکدہ کا اصرار کے ساتھ ترک کرنا باعث گناہ ہے


مفتی امانت علی قاسمیؔ

استاذ ومفتی دار العلوم وقف دیوبند


شریعت میں دو قسم کے احکام ہیں کچھ کا تعلق کرنے سے ہے اور کچھ کا تعلق نہ کرنے سے ہے۔


پہلی قسم کے احکام کے مختلف درجات ہیں ، فرض ، واجب ، سنت مؤکدہ ، سنت غیر مؤکدہ اور مستحب ،اسی طرح دوسری قسم کے احکام کے مختلف درجات ہیں ، حرام ، مکروہ تحریمی ، مکروہ تنزیہی ، اور خلاف اولی وغیرہ ۔ یہ درجہ بندی نصوص کے ثبوت اور دلائل کے اعتبار سے کی گئی ہے،

چنانچہ وہ دلائل جو ثبوت و دلالت دونوں اعتبار سے قطعی ہوں جیسے قرآن کی وہ آیات جو محکم اور واضح الدلالت ہیں ،اسی طرح وہ احادیث جو تواتر کے ساتھ منقول ہیں اوران کے مفاہیم بھی قطعی ہیں ان سے ثابت ہونے والا حکم جانب امر میں فرض ہوتا ہے اور جانب نہی میں حرام ۔

اور وہ دلائل جو ثبوت کے اعتبار سے تو قطعی ہوں لیکن مفہوم کے عتبار سے ظنی ہو جیسے وہ آیت جو موؤل ہیں ،اسی طرح وہ دلائل جو ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوں البتہ مفہوم کے اعتبار سے قطعی و یقینی ہوں جیسے اخبار آحاد کے ثبوت میں ایک گونہ شبہ ہوتا ہے البتہ دلالت کے اعتبار سے قطعی ہوتے ہیں ان دونوں سے جانب امر میں ثابت ہونے والا حکم واجب اور جانب نہی میں ثابت ہونے والا حکم مکروہ تحریمی کہلاتا ہے


اور وہ دلائل جو ثبوت اور دلالت دونوں کے اعتبار سے ظنی ہوں جیسے اخبار آحاد جو اپنے مفہوم پر دلالت کرنے میں بھی ظنی ہیں اس سے جانب امر میں سنت اور مستحب اور جانب نہی میں کراہت تنزیہی کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔علامہ شامی لکھتے ہیں : ان الادلۃ السمعیۃ اربعۃ : الاول قطعی الثبوت و الدلالۃ کنصوص القرآن المفسرۃ أو المحکمۃ و السنۃ المتواترۃ التی مفہومہا قطعی الثانی : قطعی الثبوت ظنی الدلالۃ کلآیات الموؤلۃ الثالث : عکسہ کاخبار لآحاد التی مفہومہا قطعی الرابع ظنیہما کأخبار الآحاد التی مفہومہا ظنی فبألاول یثتب الافتراض و التحریم و بالثانی و الثالث الایجاب و کراہۃ التحریم و بالرابع تثبت السنیۃ و الاستحباب (رد المحتار : ۹/۴۰۹)

خلاصہ یہ کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ چاروں ںقسم کے دلائل سے ایک ہی طرح کے ا حکام ثابت نہیں ہوں گے ، بلکہ جس طرح دلائل میں تفاوت ہے اسی طرح احکام میں بھی تفاوت ہوتا ہے ۔


وہ کام جس کو نبی کریم ﷺ نے اور صحابہ کرام نے کیا ہو اور اس کی تاکید کی ہو یا ترغیب دی ہو اس کو سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے سنت مؤکدہ وہ ہے جس کو حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے ہمیشہ کیا ہو یا کرنے کی تاکید کی ہو اور بلا عذر کبھی ترک نہ کیا ہو یہ حکم میں عملا واجب کی طرح ہے اس کا بلا عذر کے ترک پر اصرار کرنا یہ گناہ کا باعث اور شفاعت سے محرومی کا سبب ہے ۔

اور سنت غیر مؤکدہ وہ ہے جس پر آپ ﷺ نے پابندی نہ فرمائی ہو کبھی کیا اور کبھی ترک کردیا ہو، یا یہ کہ آپ نے اس کو بطور عادت کے کیا ہو اس کا کرنا ثواب کا باعث ہے ترک کرنا گنا ہ کا باعث نہیں ہے ۔

البحرالرائق میں ہے : سنۃ مؤکدۃ قریبۃ من الواجب حتی اطلق بعضہم علیہ الوجوب و لہذا قال محمد لو اجتمع اہل بلد علی ترکہ قاتلناہم علیہ و عند ابی یوسف یحسبون و یضربون و ہو یدل علی تاکدہ لا وجوبہ ( البحرالرائق ۳/۶)


🍂 علامہ شامی لکھتے ہیں :

 لہذا کانت السنۃ قریبۃ من الواجب فی لحوق الاثم کما فی البحر و یستوجب تارکہا التضلیل و اللوم کما فی التحریر ای علی سبیل الاصرار بلا عذر ( ( فتاوی شامی ۲/ ۱۲)علامہ شامی نے صاحب بحر کاقول نقل کیا ہے : والذی ظہر للعبد الضعیف ان السنۃ ما واظب علیہ النبی ﷺ لکن ان کانت لا مع الترک فہی دلیل السنۃ المؤکدۃ وان کانت مع الترک احیانا فہی دلیل غیر المؤکدۃ وان اقترنت بالانکار علی من یفعلہ فہی دلیل الوجوب فافہم فان بہ یحصل التوفیق ( فتاوی شامی ۱/ ۲۲۲)


🍂 سنت مؤکدہ کا بلا عذر ترک کرنا اور ترک پر اصرار کرنا یہ باعث گنا ہ ہونے کے ساتھ ساتھ شفاعت سے محرومی کا باعث ہے اس لیے کہ جس کا کو آپ ﷺ اہتمام سے کیا ہو، اوراس کے کرنے کی تاکید ہو پھر بلا عذر کے اس کو ترک کرنا بہت بڑی محرومی اور شقاوت کی بات ہے ، حضرات فقہاء نے تصریح کی ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک پر اصرار یہ گناہ کا باعث ہے؛ اس لیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : من ترک سنتی لم تنلہ شفاعتی ( فتح القدیر ، کتاب الضحیۃ :۹/۵۰۹)

 جس نے میری سنت کو ترک کردیا وہ میری شفاعت نہیں پائے گا۔

 ایک حدیث میں ہے آپ نے فرمایا : 

من رغب عن سنتی فلیس منی(صحیح ابن خزیمۃ حدیث نمبر : ۱۹۷) جو میری سنت سے اعراض کرے وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے۔

امام مکحول حدیث کے بڑے امام گزے ہیں وہ لکھتے ہیں : 

السنۃ سنتان :سنۃ اخذہا ہدی و ترکہا ضلالۃ و سنۃ اخذدہا حسن و ترکہا لا بأس بہ (اصول السرخسی ۱/۱۱۴))

🍂سنت کی دو قسمیں ہیں

 ایک وہ سنت ہے جس پر عمل کرنا ہدایت اور ترک کرنا گمراہی ہے

 اور ایک وہ ہے جس پر عمل کرنا ہدایت ہے اور ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 الاحکام التکلیفی فی الشریعۃ الاسلامیۃ کے مصنف نے سنت مؤکدہ کے تارک کے لیے گنا ہ گار ہونے کو مختلف دلائل سے ثابت کیا ہے ۔

چنانچہ وہ عبد اللہ بن مسعود کا قول نقل کرتے ہیں : عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ :

 جس کو اس سے خوشی ہو کہ کل قیامت میں وہ اللہ تعالی سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملاقات کرے ان کو چاہیے کہ وہ ان نمازوں پر پابندی کرے کیوں کہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی کریم کے لیے کچھ سنن ہدی کو مشروع کیا ہے اور یہ نمازیں سنن ہدی میں سے ہیں -آگے ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اگر تم نے اپنے نبی کی ان سنتوں کو ترک کردیا تو تم راہ راست سے ہٹ گئے ۔ دیکھئے ابن مسعود نے سنت کے ترک کرنے کو ضلالت سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ نے سنت کے ترک پر وعید بیان کی ہے ایک حدیث میں ہے کہ نماز میں صفوں سیدھی رکھو ورنہ اللہ تعالی تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا ۔اسی طرح ایک اعرابی بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتا تھا اور سنت کے ترک پر اصرار کرتا تھا آپ نے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھأنا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھا سکتاتو آپ نے اس کے لیے بددعا کی کہ تم نہیں کھاسکو گے اس کے بعد اس شخص کا دایاں ہاتھ کبھی اس کے منھ تک نہیں پہونچ سکا ۔ 

اس کو نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں اگر سنت پر عمل کرنے کی اتنی اہمیت نہ ہو تی تو آپ ﷺ جو کہ بڑے شفیق و مہربان تھے کبھی اس کے لیے بد دعا نہ کرتے (الاحکام التکلیفی ص: ۱۷۴)


🍂علامہ شاطبی الموافقات میں لکھتے ہیں :

 مندوبات ( سنن) کا بالجملہ ترک کرنا دین کے ضائع ہونے میں مؤثر ہے جب کہ یہ ترک دائمی ہو ہاں اگر کسی وقت ترک کردیا جائے تو اس کے ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اذا کان الفعل مندوبا بالجزء کان واجبا بالکل کالاذان فی المساجد الجوامع وصلاۃ الجماعۃ و صلاۃ العیدین صدقۃ التطوع و النکاح والوتر و سائر النوافل الرواتب۔فالترک لہا جملۃ مؤثر فی أوضاع الدین اذا کان دائما أما اذا کان فی بعض الأوقات فلا تأثیر لہ فلا محظور فی الترک ( کتاب ا لموافقات ۲/ ۲۶۸وزارۃ الاوقاف قطر )


🍂مذکورہ تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سنت مؤکدہ کا ترک کسی عذر کی ووجہ سے یا کبھی کبھا کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے ترک کا معمول بنانا درست نہیں ہے ایسا کرنے والا والا گنہ گا ر ہوگا ۔

اصول فقہ کی کتابوں میں احکام کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں فرض اور نفل، یہاں پر نفل ،فرض کے مقابلہ میں ہوتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے زائد یعنی یہ فرض سے زائد ہے لیکن فقہاء پھر اس نفل کی تقسیم کرتے ہیں واجب ، سنت مؤکدہ ،سنت غیر موکدہ اور مستحب کے ذریعہ سے۔ پھر ہر ایک کا الگ الگ حکم بیان کیا جاتا ہے جیسا کہ ماقبل میں مامعلوم ہوگیا کہ واجب کا ترک کرنا بھی گنا ہ ہے اسی طرح سنت مؤکدہ کا ترک کرنے کو معمول بنانا گنا ہ ہے تاہم دونوں کے فرق ہے سنت کے ترک کا گنا ہ واجب سے کم تر درجہ کا ہے اور یہ ایک عقلی اور بدیہی بات ہے اللہ کا حکم نہ ماننا ، یہ بھی برا ہے اور رسول اللہ کا حکم نہ ماننا یہ بھی برا ہے اسی طرح باپ اور بڑے بھائی کا حکم نہ مامنا یہ بھی برا ہے ہاں لیکن نسبت کے اعتبار سے درجہ میں فرق ہے ۔


🍂حال میں ایک تحریر شائع ہوئی جس کا عنوان تھا'' نوافل پڑھنا بہتر ہے لیکن نہ پڑھنے کا گناہ نہیں'' ۔

 اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ فرض کے علاوہ تمام نمازیں نفل ہیں چاہے وہ سنت مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ ہو اس پر عمل کرنا باعث ثواب ہے لیکن عمل نہ کرنا گنا ہ نہیں ہے ۔

 تراویح پڑھ لیں تو بہت اچھاہے نہ پڑھیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

یہ تحریر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کی ہے ، موصوف جماعت اسلامی کے مؤقر لوگوں میں ہیں اورجماعت اسلامی کے شریعہ اکیڈمی کے ذمہ دار ہیں ، کثرت سے لکھتے ہیں اور سہل نگار واقع ہیں ان کی تحریریں پڑھی جاتی ہیں ، ادھر چند دنوں سے مولانا محترم کی بعض فقہی تحریریں ایسی آرہی ہیں جن سے راقم کو اختلاف ہے ، مولانا موصوف جس رائے کو بہتر سمجھتے ہیں اسے آزادی سے لکھتے ہیں اس لیے میں بھی اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے رکھوں ، آراء کا اختلاف پہلے بھی رہا ہے ، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ قارئین کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی واضح ہوجائے ۔

مولانا موصوف نے جو لکھا بعد میں ان کے بعض دوستوں نے ان سے رابطہ کیا اور معلوم کیا ہے کہ کیا فجر کی سنت کے ترک پر بھی کوئی گنا ہ نہیں ہوگا تو آپ کا جواب تھا کہ فرض کے علاوہ سب نفل ہے ،کسی نے یہ معلوم کیا کہ یہ تقسیم کہاں سے کی ہے تو جواب تھا کہ اصول فقہ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں ، خوشی ہوئی کہ موصوف اصول فقہ کی کتاب کے مطالعہ کا مشورہ دے رہے ہیں ، یہ نہیں کہا کہ حدیث میں دیکھ لیں ، واقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے اوپر بھی لکھا کہ احکام کی دو قسم فرض اور نفل ہے لیکن ہمارے معاشرے میں جو نفل استعمال ہوتا ہے

 وہ اصطلاحی نفل استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمارے درمیان جو نفل رائج ہے وہ سنت غیر مؤکدہ ہے ، اس طرح مولانا نے فقہاء کے نفل کی تشریح نہیں کی ہے کہ فقہاء کے یہاں نفل کے ضمن میں واجب ، سنت مؤکدہ بھی داخل ہے اور اس کا حکم الگ ہے بلکہ انہوں نے معاشرے میں رائج نفل اور اصول فقہ کے نفل کو خلط ملط کرکے لوگوں کو مغالطہ میں ڈالاہے


 🍂مولانا نے سنت مؤکدہ کے جواب میں بھی یہی کہا کہ اس کے ترک پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ہے حالاں کہ اوپر علامہ شاطبی ، علامہ شامی ، ابن الہمام ، امام مکحول وغیرہ کے علاوہ عبد اللہ بن مسعود کے اقوال پر اگر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک کا معمول بنانا درست نہیں ہے اس سے آدمی گنہ گار ہوتا ہے ۔

حدیث سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے جماعت میں شریک ہونا زیادہ تر فقہاء کے یہاں سنت ہے لیکن اس میں شریک ہونے والے کے لیے آپ نے اظہار ناراضگی کے طور پر فرمایا : میرا جی چاہتا ہے کہ ان کے گھروں کو آگ لگادوں ۔


🍂میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ فجر کی سنت یا ظہر کی سنت کو سنت مؤکدہ سمجھتے ہیں اور سنت مؤکدہ کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں ایسے ماحول میں یہ تشریح کرکے کہ فرض کے علاوہ تمام نمازیں بشمول وتر کے نفل ہیں اسے پڑھ لیا جائے تو بہت اچھاہے قرب خداوندی کا ذریعہ ،

 فرض کی تکمیل ہوتی ہے لیکن اگر نہ پڑھے تو کوئی گناہ نہیں ہوگا اس کے ذریعہ مولانا نے لوگوں کو تراویح یا دوسری سنت مؤکدہ کے اہتمام پر ابھارا ہے یا ترک پرابھارا ہے؟ 

جو لوگ مولانا کی تحریر پڑھیں گے وہ یہی سمجھیںگے کہ اب تک ہم اس کو ضروری سمجھتے تھے اب معلوم ہوگیا کہ ضروری نہیں ہے پڑھ لیں تو اچھا ہے نہ پڑھیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ظاہر ہے ایسی صورت میں عمل کی رغبت کم ہوگی اور دوسری طرف معاشرے میں انتشار بھی پیدا ہوگا۔ حالاں کہ قرآن و حدیث کا اسلوب یہ بتاتا ہے کہ بعض مرتبہ اصل حکم سے ہٹ کر تہدید کے لیے اور ڈرانے کے لیے سخت حکم بیان کیا جاتا ہے اگر چہ وہ مقصود نہ ہو ، 


🍂آپ ﷺ نے فرمایا :

من ترک الصلاۃ متعمدا فقد کفرجس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دیا وہ کافر ہوگیا ، مسلمان جھوٹ نہیں بولتا ہے، جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے ، ان تمام احادیث میں حدیث کا ظاہر مراد نہیں ہے بلکہ محدثین کہتے ہیں کہ یہ تشدید اور تہدید کے طور پر ہے ۔

رمضان المبارک میں وتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے یا تنہا رات کے آخری پہر میں پڑھنا افضل ہے ؟

 حضرات صحابہ کا عمل یہی تھا کہ رمضان میں وتر کی نماز جماعت سے پڑھتے تھے ،

 حضرت علی وتر کی جماعت کی امامت کرتے تھے اس لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا افضل ہے ،

 لیکن مولانا رضی الاسلام صاحب نے اپنی ایک دوسری تحریر میں لکھتے ہیں کہ اگر کسی کو رات کے اخیر میں بیدار ہونے کا یقین ہو تو رات میں تنہا وتر پڑھنا افضل ہے ، اس لیے کہ حدیث میں حضور نے فرمایا ہے کہ اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ اس حدیث کی بنا پر رات کے اخیر میں تنہا پڑھنا افضل ہے ۔ان کی اس تحریرسے بھی بہت سے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ حضرات صحابہ کرام کے سامنے بھی یہ حدیث تھی ، اور حضرات صحابہ کرام سے زیادہ نہ کوئی دین سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دین پر عمل کرسکتا ہے ، اور نہ ہی حضرات صحابہ کرام سے زیادہ کوئی دین دار ہوسکتاہے اور نہ ہی نبی ﷺ کے مزاج سے واقف اور نہ ہی کوئی صحابہ کرام سے زیادہ نبی کا عاشق ہوسکتا ہے اگر صحابہ میں کسی کا انفرادی عمل ہوتا تو یہ گنجائش ضرور ہوتی لیکن صحابہ کا اجماع ہو اس کو چھوڑ کرحدیث کی ایسی تشریح کرنا جس سے یہ ثابت ہو کہ صحابہ کرام کا عمل حدیث کے خلاف تھا اعلی درجہ کی جرأت اور بددیانتی ہے ؟ 

جن صحابہ کرام نے وہ حدیث بیان کی ان کی حدیث تو لیتے ہیں لیکن صحابہ کرام کے اجماعی عمل کا انکار کردیتے ہیں ،

 کیا حضرات صحابہ کرام نبی ﷺکے اس عمل سے واقف نہیں تھے ، پھر تو تراویح کو یہ کہہ کر چھوڑ دینا چاہیے کہ حضورﷺ سے پورے رمضان جماعت کے ساتھ تراویح کا اہتمام ثابت نہیں ہے اورصحابہ کا عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام، ہمارے اور نبیﷺ کے درمیان واسطہ ہیں ، دین کے سلسلے میں ان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور حضرات خلفاء راشدین کے عمل کو آپ ﷺ نے سنت سے تعبیر کیا ہے ؛اس لیے صحابہ کرام کا عمل نبی کے عمل کی تشریح و توضیح کہلائے گا نبیﷺ کے عمل کے خلاف نہیں کہلائے گے۔  

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں