غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو،سورة فاتحہ سے پہلے بسم اللہ...اونچی یا آہستہ؟

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٧


 سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ...اونچی یا آہستہ؟


سنی: اس سلسلے میں آپ کا موقف کیا ہے؟


غیر مقلد: جہری نماز میں امام کے لئے سورۃ فاتحہ سے پہلے اونچی آواز سے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے۔ دیکھیے ہمارے نواب صدیق حسن خان صاحب ؒ ’’الروضۃ الندیہ میں لکھتے ہیں کہ بسم اللہ جہری نمازوں میں جہراً اور سری نمازوں میں آہستہ پڑھی جائے گی (۱۰۱٫۱ )۔ یہی بات ان کے بیٹے نواب نور احسن خان ؒ نے ’’عرف الجادی‘‘ ( ص۳۶) پرلکھی ہے جبکہ یونس دہلوی’’ دستور المتقی ‘‘ میں لکھتے ہیں : جہری نمازوں میں پکار کر اور سری نمازوں میں آہستہ سے پڑھنا بہتر ہے (ص:۹۲) صلاۃ الرسول کا حاشیہ نگار لکھتا ہے کہ: حکیم محمد صادق و دیگر علماء حدیث کا یہ فیصلہ بالکل صحیح ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آ ہستہ اور پکار کر پڑھنا دونوں طرح جائز ہے۔ (تسہیل الوصول ص: ۱۵۸)


سنی: اب آپ اس کی دلیل پیش کریں صحیح بخاری یا صحیح مسلم سے۔


غیر مقلد: یہ دیکھنے میرے ہاتھ میں حکیم صادق سیالکوٹی کی کتاب ہے اس میں صحیح بخاری ومسلم کی تو کوئی حدیث موجود نہیں، اگر ہوتی تو وہ ضرور لکھتے البتہ مولانا ابرہیم میر سیالکوٹیؒ نے اپنی کتاب صلاۃ النبی ﷺ میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ " غرض بسم اللہ اور آمین قرأت کے تابع ہیں ، جس طرح قرأت پڑھے ویسے ہی ان كو بھی پڑھے یہ صحیح حدیثوں کا خلاصہ ہے، اس کے خلاف جو کچھ بھی ہے وہ ضعیف ہے (ص ۳۰ ) اس میں ہمارے اس موقف کو صحیح حدیثوں کا خلاصہ اور آپ حضرات کے موقف کے دلائل کو کمز ورلکھا گیا ہے۔


سنی: ذرہ وہ حدیثیں مجھے بھی دکھاد میں۔


غیر مقلد: ضرور جی ضرور لیکن اس کتاب میں صفحہ ۳۰ پر تو کوئی دلیل درج نہیں ہے البتہ ’’صلاۃ الرسول“ کے صفحہ ۱۹۴ کے حاشیہ پر اس کی دلیل موجود ہے، وہ لکھتے میں ’’نسائی اور ابن خزیمہ کی روایت بلوغ المرام میں ہے کہ نعیم مجمر نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی، پھر سورۃ فاتحہ پڑھی (یعنی جہر سے ) پس اگر جہری نماز میں کوئی امام بسم اللہ پکار کر پڑھے تو انکار نہ کر میں ‘‘


سنی: (۱) جو کچھ آپ نے پیش کیا ہے وہ ایک صحابی حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا عمل ہے۔ اور صحابی کا عمل آپ کے یہاں دلیل اور حجت نہیں پھر یہاں اس سے استدلال کیسا؟


(۲) اس روایت کے ترجمہ میں بریکٹ میں يعنی جہر سے اصل روایت میں نہیں ہے۔ حکیم سیالکوٹی صاحب کے اپنے الفاظ میں آپ اس اضافہ کو کیا عنوان دیں گے؟


(۳) آپ کے شیخ الحدیث جانباز صاحب نے لکھا ہے کہ: شیخ البانی نے سعید بن ابی بلال کی وجہ سے اس حدیث کی سند میں کلام کیا ہے مگر مجھے ان سے اتفاق نہیں بہرحال یہ حدث تو صحیح ہے لیکن اس میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا اضافہ محل نظر ہے۔ (صلاۃ المصطفی ﷺ ۱۵۹) بعینہ یہی الفاظ صلاۃ الرسول کے حاشیہ نگار عبد الرؤف صاحب نے بھی دہرائے ہیں ( القول المقبول ۳۵۵)


یہاں قابل توجہ ہے کہ شیخ البانی نے تو سعید بن ابی ہلال کی وجہ سے اس کی سند میں کلام کیا ہے لیکن سعید بن ابی بلال کی توثیق نقل کیئے بغیر یہ کہنا کہ مجھے ان سے اتفاق نہیں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ نیز جب شیخ جانباز صاحب اور عبد الرؤف صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا اضافہ محل نظر ہے تو پھر بسم اللہ اونچی پڑھنے کے استدلال اور موقف میں کیا جان باقی ہی؟ 

سرورق پر ہہی ہے لکھا

کہ سب احادیث ہیں صحیہ 

کتاب کھولی تو میں نے دیکھا

بھری روامات میں ضعیفہ



غیر مقلد: ۔۔۔۔۔ 


اگلا صفحہ

غیر مقلد اور سنی درمیان گفتگو، صحابہ کا قول دلیل حجت نہیں ہیں۔

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٦


 سنی: آپ نے علامہ وحید الزمان صاحب کے جو دو حوالے دیئے ہیں تو یہ کون صاحب ہیں؟


غیر مقلد: یہ ہمارے فرقہ کے بہت بڑے عالم تھے، انہوں نے سب سے پہلے ہمارے فرقہ کی فقہ کی کتاب مرتب کی جس کا نام’’نزل الابرار‘‘ ہے۔ حدیث کی بہت سی کتابوں کے اردو ترجمہ کئے حدیث کی کتابیں چونکہ عربی میں ہیں، لہذا اہل حدیث کی دانی انہی ترجموں کی مرہون منت ہے۔ حتی کہ ہمارے کیلانی صاحب نے تو ان ترجموں کے بل بوتے پر بہت ساری کتابیں بھی بنائی ہیں۔ الغرض ان کی نا قابل فراموش خدمات کی پیش نظر ان کا شمار فرقہ اہل حدیث کے اولین بانیوں میں ہوتا ہے۔

بہرحال آپ کے سوالات طویل ہو ر ہے ہیں اب آپ اصل موضوع کی طرف آئے۔


سنی: بات واقعی لمبی ہوگئی معذرت خواہ ہوں پوری گفتگو کا خلاصہ یہی نکلا :

(۱) آپ صحیح بخاری و مسلم کی روشنی میں اپنی پوری نماز ثابت کر میں گئے۔

(۲) اگر کوئی حدیث صحیح بخاری و مسلم کی حدیث سے ٹکراتی ہو تو آپ صحیح مسلم و بخاری کی حدیث پر عمل کریں گے ۔

(۳) کوئی ضعیف حدیث پیش نہیں کریں گے۔


(۴) کسی صحابی کا قول، اس کا فعل اور اس کا فہم آپ کے نزدیک حجت و دلیل نہیں لہذا آپ اسے پیش نہیں کر یں گے۔


غیر مقلد: بالکل جی انہی اصولوں کے مطابق گفتگو ہوگی۔بس آپ میدان میں آئے۔

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے

یہ باروک مرے آزمائے ہوئے ہیں


سنی: انہی اصولوں پر یہ میرے دستخط میں آپ بھی دستخط کر دیجیے

دستخط سنی              دستخط غیر مقلد


سنی: وقت کافی گزر چکا ہے اگر مناسب سمجھیں تو باقی گفتگو کل ہو جائے گی۔


غیر مقلد: تھکاوٹ تو مجھے بھی محسوس ہو رہی ہے لیکن گزشتہ طویل تمہید سے گویا ہم نے بجلی کی وائرنگ مکمل کر لی۔ اب تو بس ایک ایک مسئلہ کا بٹن دباتے جائیں گے اور میں دلائل کی روشنی کرتا جاؤں گا چونکہ ہمیں تو اپنے دلائل از بر یاد ہوتے ہیں، بس تھوڑی دیر میں فیصلہ ہو جائے گا۔’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘۔


سنی: بہتر ہوگا کہ جس اطمینان سے ہم نے سابقہ گفتگو کی ہے اسی طرح ہماری بقیہ گفتگو بھی مکمل ہو اور ہم کسی واضح نتیجہ پرپہنچ سکیں۔


غیر مقلد: لگتا ہے آپ ابھی سے گھبرار ہے ہیں۔ بہر حال میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتا البتہ میری ایک تجویز ہے کہ کل کی نشست میں دو آدمی میری طرف سے اور دو آدمی آپ کی طرف سے بیٹھیں گے اور باہمی اختلاف کی صورت میں ہم ان کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔


سنی: میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں لیکن انہیں ہماری گفتگو میں مداخلت کی اجازت نہیں ہو گی۔

اگلا صفحہ

غیر مقلد اور سنی درمیان گفتگو، غیر مقلد: حضرت حسن و حسین ؓ کو زمرہ سبائیت شمار کرتے ہے۔

0


سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٥

 غیر مقلد : جی ہاں !اکثر لوگ اسی غلط فہمی کا شکار ہیں ، بلکہ آپ کو تعجب ہوگا کہ خود ہمارے بہت سے جاہل اہل حدیث بھی لکیر کے فقیر بن کر اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں گویا ہم اسے غلط العوام ہی کہہ سکتے ہیں آپ خود بھی سوچیں کہ آج کل ہمارا تعارف سلفی اور اثری نسبتوں سے بھی ہوتا ہے اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں نسبتیں پیغمبر اسلام محمد ﷺ کی طرف تو نہیں ہیں چونکہ آپ ﷺ کا نام اثر اور سلف تو نہیں تھا۔ الغرض آپ تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں مولانا محمد جونا گڑھی میاں نذیر حسین ؒ نواب صدیق حسن خان صاحب ؒ سے پہلے کوئی ایک فرقہ بلکہ ایک شخص بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو ہم جیسے مدلل عقائد و افکار کا حامل ہواور بیک وقت اپنے آپ کو اہل حدیث، محمدی، اثری اور سلفی بھی کہتا ہو۔


سنی: واقعی محمدی نسبت کی بابت آپ کا موقف بڑا ٹھوس اور وزنی ہے تاریخی نقطہء نظر سے بھی آ پکی تائید ہوتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ۱۸۵۷ء سے پہلے احمدی اور محمدی عنوان سے کوئی فرقہ متعارف نہیں تھا۔ لیکن سچ پوچھیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیب ابت آپ کے مولانا محمد جونا گڑھی نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ میں نے پہلی دفعہ سنا ہے۔

کیا اس وقت یا ان کے بعد کسی غیر مقلد عالم نے ان کی تردید نہیں کی؟


غیر مقلد : جب صحابہ کی بابت یہی ہمارا نظریہ ہے تو تردید کس بات کی ؟ بلکہ ہم تو اپنے اکابر کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں دیکھے ہندوستان میں جامعہ سلفیہ ہمارا مرکزی تعلیمی ادارہ ہے۔ ابھی وہاں کے ایک استاذ مولانا رئیس احمد کی کتاب تنویر الآ فاق شائع ہوئی جس پر پرنسپل جامعہ سلفیہ نے تقریظ لکھ کر اس کے مشتملات پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ اس میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر کھل کر تنقید کی ہے لکھا ہے کہ ابن مسعود کا بیان مذکورہ اللہ و رسول کے بیان کردہ اصول شریعت کے خلاف ہے۔


سنی: جناب میرا تو پیانہ صبر لبریز ہو رہا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسی جلیل القدر ہستیاں اور آپ کے علماء کی یہ گستاخیاں؟ الامان والحفيظ بقول شاعر:

چہ نسبت خاک رابا عالم پاک


غیر مقلد : اوہو آپ ایسے بحث کو طول دے رہے ہیں کہ کسی طرح سے نماز کے موضوع سے فرار کا بہانہ تلاش کر یں۔


سنی: نماز کی بابت تو غیر مقلدین سے میری گفتگو ہوتی رہتی ہے، لیکن یہ انکشافات میرے لیے بالکل نئے ہیں۔


 غیر مقلد : میں نے تو کہا تھا کہ براہ راست نماز پر بات کر میں، لیکن آپ نے خود ہی یہ موضوع چھیٹر کر وقت ضائع کیا۔


سنی: نہیں وقت ضائع نہیں ہوا بلکہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ آپ کے ساتھ ہمارا اختلاف نماز کے چند فروعی مسائل میں ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام ؓ کی بابت ہمارے اور آپ کے موقف وعقیدے میں بنیادی فرق ہے۔


غیر مقلد : دیکھئے صاحب ہمارے علماء اور ہم اہل حدیث وسلفی لوگ جو کچھ کہتے ہیں اور کرتے ہیں دلیل اور تحقیق کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اور اس سلسلہ میں کسی کی بھی رعایت نہیں کرتے۔ چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہوں۔ دیکھیے علامہ وحید الزمان صاحب نے اپنی مشہور کتاب ( کنز الحقائق ص ۲۳۴ ) میں لکھا ہے کہ صحابہ کے لئے رضی اللہ عنہ کہنا مستحب ہے مگر ابوسفیان، معاویہ عمرو بن عاص، مغیرہ بن شعبہ اور سمرۃ بن جندب کو رضی اللہ عنہ کہنا مستحب نہیں یہی علامہ وحید الزمان اپنی کتاب نزل الابرار ۹۴٫۲ پر لکھتے ہیں اس سے معلوم ہوا کے کچھ صحابہ فاسق تھے جیسا کہ ولید اور یونہی معاویہ،عمرو، مغیرہ ،اور سمرہ کے بارہ میں کہا جاۓ گا‘‘۔

سنی: میری قوت برداشت ختم ہورہی ہے، کیا واقعی میں کسی اہل حدیث سلفی سے محو گفتگو ہوں یا کسی شیعہ رافضی سے؟ بقول شاعر: 

سناتے ہو اصاحب ؓ کو بے نقط

باُمید اجر و جزاء و ثواب

سفیہوں کو سکھلاؤ نیرنگیان 

کہ برپا زمانے میں ہو انقلاب


میرا اللہ قرآن میں اپنے نبی کے صحابہ کے لئے رضی اللہ عنھم ورضواعنہ ‘‘ کا اعلان کرے اور تم چودہ سو سال بعد قرآن کے مقابلہ میں یہ فیصلہ دو کے ان پانچ صحابہ (حضرت ابوسفیان و حضرت معاویہ و حضرت عمرو بن عاص و حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہم ) کو رضی اللہ عنہم کہنا مستحب نہیں ہے ۔ نبی اسلام ﷺ اپنے صحابہ کے لیے دعائیں کر میں اور تم ان کو فاسق قرار دو ۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ ارشاد فرمائیں کہ علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی تمسّکو ابھا وعضوا علیھا بالنواجذ تم پر میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت پرمل کر نا لازم ہے ان کو داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامے رکھو ۔ اور تم اپنے آپ کو اہل حدیث کہلاؤ اور اس صحیح حدیث کی پرواہ کیئے بغیر دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو نصوص شرعیہ کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دو ۔ اور یہی الزام آنحضور ﷺ کے خادم خاص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر لگاؤ۔ مجھے تعجب ہے کہ تم اہل حدیث کہلاتے ہو اور حدیث کو ٹھکراتے ہو۔


ایسے دستور کو صبح بے نور کو

 میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا


غیر مقلد: مجھے آپ کے جذبات کی قدر ہے ۔ لیکن صحابہ ؓ کی بابت اپنے موقف میں ہم کسی کے پابند ہیں ۔ باقی آپ نے شیعہ سے ہماری مشابہت کا اشارہ کیا ہے تو یہ آپ کی غلط نہی ہے جس کے ازالہ کے لیے اتنا بتا دینا کافی ہے کہ ہمارے اکابر میں حکیم فیض احمد صدیقی صاحب نے اپنی کتاب”سیدنا حسن“ میں لکھا ہے کہ ”سیدنا علی کی نام نہاد خلافت اور سیدنا حسن و حضرت حسین کو زمرہ صحابہ میں شمار کرنا صریحاً سبائیت کی ترجمانی ہے“

اگلا صفحہ

 

غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو، غیر مقلدوں کو محمدی کیوں کہلاتے ہے۔ رد غیر مقلدیت

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۴


غیر مقلد: جی ہاں مسلک اہل حدیث کے بانی نواب صدیق حسن خان صاحب ؒ کے بیٹے نواب نور الحسن خاں صاحب ؒ  نے اس نظریہ کو ہمارا اصول قرار دیا ہے وہ اپنی کتاب ’’عرف الجادی‘‘ ص ۱۰۱ میں لکھتے ہیں’’ چہ در اصول تقرر باشد کہ قول صحابی حجت نیست‘‘ یہ بات اصول میں طے ہے کہ صحابی کا قول دلیل نہیں ہے۔


سنی: آپ کی اس بات نے تو مجھے اور زیادہ حیران کر دیا کہ صحابہؓ کے قول وفعل کو نہ ماننے کا موقف تمہارے اصولوں میں شامل ہے۔


غیر مقلد: دراصل ہم ہر بات میں حدیث اور دلیل کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔اس لئے بعض مسائل میں ہمارے علماء نے صحابہؓ کے خلاف بھی فیصلے سنائے ہیں اس سلسلے میں مولانا محمد جونا گڑھی صاحب کی درج ذیل عبارت ملاحظہ ہو:


  وہ اپنی کتاب طریق محمدی ص ۳۰ پر لکھتے ہیں ””پس آؤ سنو بہت صاف صاف اور موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم ؒنے اس میں غلطی کی“ وہ اس کتاب کے صفحہ ۴۰ پر لکھتے ہیں ”ان مسائل کے دلائل سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے خبر تھے ۔ وہ اسی کتاب میں صفحہ ۴۲ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بابت لکھتے ہیں ۔ پھر بھی ان موٹے موٹے مسائل میں جو روزمرہ کے میں دلائل شرعیہ آپ سے مخفی رہے ۔


سنی: مجھے یقین نہیں آرہا کہ کوئی شخص اپنے خود ساختہ مسلکی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے خلیفہ راشد، خلیفہ عادل، ’’لو کان بعدی نبیا لکان عمر‘‘ کے بارے میں ایسی بات لکھے۔ وہ عمر جن کی تائید میں قرآن کی بعض آیات نازل ہوئیں وہ عمر کہ شیطان جن سے دور بھاگتا تھا۔ بقول شاعر :

انہیں بدگمانی سے فرصت کہاں 

کہ اصحابؓ کا وہ کریں احترام

بخبر بد زبانی نہ سیکھا ہے کچھ

 لگائیں وہ کیونکر زبان کو لگام

غیر مقلد : میں ہوائی باتیں نہیں کر رہا دیکھئے مولانا محمد جونا گڑھی کی کتاب طریق محمدی کے مذکورہ بالاصفحات وفقرات...

سنی: مولانا محمد جونا گڑھی کون صاحب ہیں؟


غیر مقلد: آپ کے سوالات طویل ہوتے جار ہے ہیں۔ ہمیں تو نماز کے موضوع پر گفتگو کرنی ہے۔


سنی: مجھے بھی اس کا احساس ہے، دراصل آپ کے وسیع مطالعہ نے مجھے متاثر کیا ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ اس موضوع کے اہم پہلو میرے بھی سامنے ہوں۔ 


غیر مقلد: جونا گڑھ میں مولانا محمد صاحب ہمارے بہت بڑے عالم گزرے ہیں بہت بڑے خطیب وادیب تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں طریق محمدی، سراج محمدی، نکاح محمدی ہیں الغرض ان کی اکثر کتب محمدی نسبت سے معروف ہیں۔ وہ سنہ ۱۸۹۰ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۴۱ء میں وفات پائی۔ ان کی وفات پر جامعہ سلفیہ ہندوستان کے مدیر مختار ندوی نے شاد اعظمی کا یہ شعر نقل کیا ہے:

لقدمات فی الوطن المبارک وفقہ

سمی رسول اللہ شیخ محمد

خطبات محمدی ص ۱۰ ( ترجمہ ) مبارک وطن میں رسول اللہ ﷺ کے ہم نام شیخ محمد فوت ہو گئے ۔

سنی: کیا یہ محمدی نسبت محمد ﷺ کی طرف ہے؟


غیر مقلد : ہمارے مولانا کا اپنا نام محمد تھا تو انہوں نے اپنی کتابوں کی نسبت اپنے نام کی طرف کی جس کی واضح علامت یہ ہے کہ وہ ایک اخبار نکالتے تھے اس کا نام بھی اخبار محمدی‘‘ تھا اب ظاہر ہے کہ یہ اخبار پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کا تو نہیں تھا۔ اس کی مزید وضاحت یوں سمجھیں کہ ہمارے اکابر کی بہت سی تصانیف انہی کے نام سے منسوب ہیں جیسے تفسیر ثنائی اور فتاوی شنائیہ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی طرف منسوب ہیں ۔ فتاوی نذیر سید میاں نذیر حسین صاحب ؒ کی طرف منسوب ہے۔ فتاوی ستاریہ مولانا عبد الستار کی طرف منسوب ہے ۔ الغرض مولا نا محمد جونا گڑھی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور وہ ہماری مرکزی وعلمی شخصیت ہیں ، جس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ہم سب اس دور سے اپنی نسبت ان کی طرف کر کے محمدی کہلاتے ہیں اور ہمیں اس نسبت پر بجا طور پر فخر ہے۔


سنی: بہت شکریہ آپ نے میری معلومات میں اضافہ کیا کہ آپ کی محمدی نسبت محمد جونا گڑھی صاحب کی وجہ سے ہے ۔ میں تو آج تک مغیث تھا کہ آپ محمد ﷺ کی طرف نسبت کر کے اپنے آپ کو محمدی کہلاتے ہیں۔


غیر مقلد۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اگلا صفحہ


غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو، غیر مقلد فعل صحابی دلیل بننے کے قابل نہیں۔

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٣


 سنی: آپ کے اس جواب نے مجھے حیران کر دیا، تو کیا سب غیر مقلدین صحابہؓ کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں؟

غیر مقلد: ہمارے ذمہ دار اور چوٹی کے علماء نے یہ بات بڑی واضح کر دی ہے جس میں کسی ابہام یا شک وشبہ کی گنجائش نہیں، دیکھئے:


(۱) قول صحابہؓ: دیکھئے نواب صدیق حسن خان ؒ ہمارے مسلک کے بانیوں میں سے ہیں ان کی کتاب الروضۃ الندیۃ ‘‘ ہمارے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے صفحہ ۱۴۱ پر لکھا ہے کہ ”صحابی کا قول دلیل و حجت نہیں‘‘ یہی بات ان کے بیٹے نواب نور الحسنؒ نے اپنی کتاب ’’عرف الجادی“ ص ۳۸، ص۴۰، ص۸۰، اور ص۱۰۱ پر کی ہے۔ نیز ہمارے شیخ الکل حضرت مولانا نذیر حسین دہلویؒ اپنے فتاوی نذیریہ (۳۴۰/۱ ) میں لکھتے ہیں کہ ”قول صحابی حجت نہیں‘‘۔ واضح رہے کہ مولا نا نذیر حسین کی بابت مؤرخ اہل حدیث ابراہیم میر سیالکوٹی ؒ لکھتے ہیں : ہمارے بے نزاع و بے نظیر پیشوا شیخنا و شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی ہیں۔( تاریخ اہل حدیث ص ۱۱۹)



(۲) فعل صحابہؓ کی بابت نواب صدیق حسن خان ؒ فرماتے ہیں: فعل صحابی دلیل بننے کے قابل نہیں۔( التاج المکلل ص ۶۹۲ ) اور ہمارے شیخ الکل میاں نذیر سے حسین نے بھی یہی لکھا ہے، دیکھئے سیرت ثنائی ص۱۹۲۔



(۷) صحابہ کے فہم و استنباط کی بابت شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلویؒ فتاوی نذیر میں ج ۱ ص۲۶۶ میں لکھتے ہیں کہ فہم صحابہ حجت شرعی نہیں ۔ اور یہی بات نواب صدیق حسن صاحب ؒ نے الروضۃ الندیۃ ص۱۵۴ میں لکھی ہے۔

الغرض ہم صحابہؓ کے قول ان کے عمل اور ان کے فہم واستنباط کو دلیل نہیں مانتے۔



سنی: آپ کا مطالعہ بڑا وسیع معلوم ہوتا ہے، تو کیا سب غیر مقلد صحابہؓ کی بابت ہی نظریہ رکھتے ہیں؟

غیر مقلد : میری گفتگو میں آپ کے جواب کی طرف اشارہ موجود ہے کہ ہمارے نزدیک نواب صدیق حسن خاں صاحبؒ کی کتابوں کی بڑی اہمیت سے ان کی کتاب "الروضۃ الندیۃ‘‘ جس کا حوالہ میں نے دیا ہے ہمارے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔

      میاں نذیر حسین صاحبؒ کو ہم سب شیخ الکل سمجھتے ہیں۔ اپنے اکابر علماء کی کتابوں کو چھاپ کر، پڑھ کر، پڑھا کر ہم عملی طور پر اعتماد کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کے افکار کو اپنی تقریروں میں بیان کرتے ہیں، پاک و ہند اور دوسرے تمام علاقوں میں ہمارے مسلکی لوگوں میں یہ قدر مشترک آپ محسوس کریں گے اور صحابہؓ کے دلیل و حجت ہونے کا جو موضوع اس وقت زیر بحث ہے اس پر ہمارے آج کے مقرر وخطیب بھی کھل کر کہتے ہیں کہ ہم صحابہؓ کونہیں مانتے۔ البتہ ہمارے اس موقف کو بیان کرنے میں بعض خطباء و سامعین کا گستاخانہ انداز مجھے اچھا نہیں لگتا ادھر وہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ کی قولیوں شولیوں کو نہیں مانتے، ادھر سامعین وحاضرین کہتے ہیں نعرۂ تکبیر اللہ اکبر، مسلک اہل حدیث زندہ باد۔ 


سنی: جناب آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ واقعی آپ کے جلسوں میں گفتگو کا یہ انداز ہوتا ہے اور سامعین ایسے خطیب کی زبان گُدّی سے کھینچ لینے کی بجائے نعرہ لگا کر داد دیتے ہیں؟


ایسے دستور کو صبح بے نورکو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا


غیر مقلد : آپ جذبات میں نہ آئیں، ہمارے خطیبوں کی یہ بات اتنی غلط بھی نہیں آپ ان کی زبان کھینچنے کا فتوی صادر کریں ، دراصل یہ تو اپنے مسلکی اصول کیساتھ شدید لگاؤ کا ثبوت ہے البتہ ان کے لہجے میں ذرہ سختی ضرور ہے۔


سنی: مسلکی اصول کا کیا مطلب ہے؟


غیر مقلد:۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری

اگلا صفحہ


مکمل گفتگو بتدریج نشر ہوتی جائے گی، نوٹیفیکیشن کے لیے ہمارے گروپ میں جوائن ہو جائے

غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو، ہم اہل حدیث ہیں صحابہ کے کسی قول و فعل کو بطور دلیل نہیں مانتے ہیں۔

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٢

سنی: السلام علیکم

غیر مقلد: وعلیکم السلام ...... آگئے ہو، مجھے تمہارا وہ معنی خیز جملہ مسلسل ستائے جا رہا ہے جس میں تم نے ہماری نماز کو حدیث کے مطابق ماننے کی بجائے چودھویں صدی کے نظریئے کے مطابق قرار دیا تھا جبکہ ہم تو پکے اہل حدیث ہیں ، ہمارا ہر عمل حدیث کے مطابق ہوتا ہے۔


سنی: آپ نے تو پہلے سے بھی بڑا دعویٰ کر دیا، پہلے ذرہ اپنی نماز کو تو حدیث کے مطابق ثابت کر لیں۔


غیر مقلد: جی بالکل ثابت کریں گے، بلکہ ہم تو صرف بخاری ومسلم کی حدیثوں کو بنیاد بناتے ہیں، اور اس کی روشنی میں نماز پڑھتے ہیں۔


سنی: میں چاہتا ہوں کہ باہمی گفتگو کو بحث و مبانے والے ماحول سے ہٹ کر بامقصد بنانے کی کوشش کریں، اور اگر وہی فضول بحث، چیلنج بازی اور دعوے ہی کرنے ہیں تو میں اجازت چاہوں گا چونکہ میراوقت بہت قیمتی ہے۔


غیر مقلد: نہیں نہیں۔ مدلل گفتگو ہوگی۔


سنی: بہتر ہو گا کہ باہمی گفتگو جن اصولوں کی روشنی میں ہوگی ان کا تعین کر لیا جائے تاکہ ہم کسی واضح نتیجہ پر پہنچ سکیں۔

   کیا آپ اپنی ساری نماز صرف بخاری ومسلم کی حدیثوں سے ثابت کریں گے؟


غیر مقلد: بالکل جی ہمارا تو بچہ بچہ اور ان پڑھ جاہل بھی بخاری ومسلم کی روشنی میں نماز پڑھتا ہے اور ثابت کر سکتا ہے۔ ورنہ ہم میں اور تم مقلدین میں کیا فرق ہوگا؟


سنی: کیا آپ کوئی ضعیف حدیث تو پیش نہیں کریں گے؟


غیر مقلد : او جی جب ہمارے پاس بخاری مسلم کی حدیثیں ہیں تو پھر ہم ضعیف ہوں پیش کریں؟


سنی: کیا آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قول وفعل اور فہم کو دلیل و حجت مانتے ہیں؟ اور ان کے اقوال کو بطور دلیل اپنے موقف کے ثبوت کے لیے پیش کریں گے؟


غیر مقلد: ہم اہل حدیث ہے اور حدیث پر عمل کرتے ہیں، اس لئے ہم صحابہؓ کے کسی قول و فعل بطور دلیل پیش کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


سنی: ۔۔۔۔۔۔۔ جاری



اگلا صفحہ

 مکمل گفتگو بتدریج نشر ہوتی جائے گی، نوٹیفیکیشن کے لیے ہمارے گروپ میں جوائن ہو جائے. اپنے تاثرات ضرور شئیر کریں۔ 

غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو، دلائل رد غیر مقلدیت، غیر مقلد کون ہے

0

 بسم اللہ الرحمن الرحیم


ابتدائیہ


اہل حدیث حضرات کا یہ ذہن بنایا گیا ہے کہ اُنکے علاوہ دوسروں کی نماز میں حدیث سے ثابت نہیں، اُنکے علماء جانتے بوجھتے ہوئے اور اُنکے عوام نادانی میں لوگوں پر فتوی بازی کرتے رہتے ہیں۔ شاید انہیں معلوم نہیں کہ یہ سب کچھ دعووں کی گھن گرج ہے، حقیقت حال اِس سے مختلف ہے۔


 اہل حدیث امام سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ . . . اونچی پڑھتے ہیں یہ موقف دلیل کی رو سے کتنا جاندار ہے؟ اِسکا اندازہ آپ کو آئندہ تحریر پڑھنے سے ہوگا، بلکہ جدید علماء اہل حدیث نے تو فیصلہ صادر کردیا کہ فاتحہ سے پہلے اونچی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ لوگوں کی نمازوں پر فتوے لگانے والے اپنی نمازوں کی اصلاح کیوں نہیں کرتے؟


اہلحدیث حضرات سینے پر ہاتھ باندھنے کو اپنا مسلکی شعار بنائے ہوئے ہیں، اور دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انکے اپنے دامن میں کیا ہے؟ اس کا اندازہ آئندہ تحریر پڑھنے سے ہو سکے گا۔


اہلحدیث حضرات غائبانہ نماز جنازہ اور شہید کا غائبانہ جنازہ پڑھتے ہیں، اور لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ حدیث کی روشنی میں کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت حال کیا ہے؟ اسکا انداز و آئندہ تحریر پڑھنے سے ہو سکے گا۔


سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ١

بسم اللہ الرحمن الرحمن الرحیم


غیر مقلد: السلام علیکم!

سنی: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

غیر مقلد: آپ نے نماز میں رفع یدین نہیں کیا، ہاتھ سینے پر نہیں باندھے، پاؤں کھلے نہیں کیئے۔ لہذا آپ کی نماز نہیں ہوئی، آپ حدیث کے مطابق نماز پڑھا کر یں۔

سنی: آپ نے بغیر کسی تمہید اور تعارف کے اتنا بڑا فتوی جاری کر دیا۔

غیر مقلد: یہ نیا فتوی نہیں، ہمارا ہر عالم و جاہل اسی طرز کی دعوت پر کار بند ہے۔


سنی: ہمارے پیارے نبی ﷺ کی دعوت کامل و مکمل اسلام کی طرف تھی، مجھے آپ لوگوں کے عملی تضاد پر تعجب ہے کہ نبی اسلام ﷺ کی کامل دعوت کو نظر انداز کیئے ہوئے ہو، اور جو کوئی نماز پڑھنے لگے اس سے فروعی مسائل میں الجھتے ہو تاکہ وہ تمہارے چودھویں صدی کے نظریئے کے مطابق نماز ادا کرے۔


غیر مقلد: دراصل ہم چاہتے ہیں کہ آپ لوگ حدیث کے مطابق نماز پڑھیں ورنہ کوئی فائدہ نہیں ۔


سنی: آپ نے حدیث کے مطابق والا دعویٰ تو بہت بڑا کیا ہے ۔اس کی بجائے آپ کہا کر میں کہ ہمارے چودھویں صدی والے نظریہ کے مطابق نماز پڑھیں۔


غیر مقلد: حدیث کے مطابق کیوں نہیں؟


سنی: آپ بحث و مباحثہ کے موڈ میں معلوم ہوتے ہیں جبکہ میرا بھی کسی سے ملنے کا وقت طے شدہ ہے، آئندہ کسی ملاقات میں اس موضوع پر بات ہوگی ۔


غیر مقلد: بس میں سمجھ گیا ، آپ بھاگنا چاہتے ہیں ۔

سنی: یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اب اجازت۔۔۔۔۔۔۔ 

اگلا صفحہ

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں