سکول کتابوں کے اضافی قیمت کا حل

0

 کتب کی بھرمار سے ہو پریشان

 آسمان چھوتی قیمت سے ہو پشیمان


سکول ایڈمیشن کے ایام میں اکثر تنقید کی جاتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، کیونکہ تنقید وہ شے ہے جو انسان کو پاک اور محفوظ کرتی ہے۔ سب سے زیادہ محفوظ اور پاک جس چیز کو ہونا چاہیے، وہ ہمارا تعلیمی نظام ہے۔ آج ہمیں جس تنقید پر بات کرنی ہے، وہ ہے چھوٹے بچوں کے لیے 3200 روپے کی کتابیں۔


اولا: موادِ کتاب وہ سرمایہ ہے جس کی قیمت لگانا مشکل ہے بلکہ اس کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ ایک طالب علم جب یک سالہ استعمال ہونے والی کتب خریدتا ہے تو وہ صرف اسی سال ان کا استعمال کرتا ہے، جو صحیح طریقہ نہیں۔ وہ چاہے تو ان کتابوں کو اپنی ذاتی لائبریری میں رکھ سکتا ہے اور بعد میں بھی ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جیسے کہ ایس ایس سی وغیرہ کے امتحانات کے لیے ہمیں چھٹی جماعت سے سلیبس دوبارہ پڑھنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کتاب خریدنا رائگاں یا اکارت نہیں ہوتا۔


دوسری بات: کتابوں کی بھرمار سے نہ تو شاگردوں کو اور نہ ہی ان کے والدین کو پریشان ہونا چاہیے۔ البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کتاب کی قیمت زیادہ تو نہیں رکھی گئی۔


ہم جانتے ہیں کہ کتاب کی اصل قیمت اس کے مواد کی ہوتی ہے، جو درحقیقت بےمول ہے۔ جو قیمت لگتی ہے وہ اس مواد کو شاگرد تک پہنچانے کے اخراجات (مثلاً کاغذ، چھپائی، اور ڈیزائننگ وغیرہ) کی ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں کی کتابوں میں رنگین تصاویر اور مزین انداز زیادہ ہوتا ہے، جو بچوں کو پڑھنے اور سیکھنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، مگر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔


کتاب کی قیمت کم کرنے کے طریقے:


1. پبلشرز کو چاہیے کہ وہ مناسب منافع پر اکتفا کریں اور قومی خدمت کے جذبے سے، اللہ کی خوشنودی کے لیے، کتابوں کی قیمت کم کریں۔


2. سکول کو چاہیے کہ کتابوں پر اپنا منافع نہ رکھیں۔ اگر مکتب یا پبلشر سے کتب ایک ہی بار خریدی جائیں تو قیمت کم ہو سکتی ہے۔


3. ہر سکول کو اپنا پبلشنگ پوائنٹ قائم کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف کتابوں کی قیمت کم ہوگی بلکہ شاگردوں کو بہتر سہولیات مل سکیں گی۔


4. حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں موثر کاروائی کرے اور کنٹرول برقرار رکھے۔


5. اللہ کا خوف رکھنے والی قیادت اور تجارت ضروری ہے۔ اگر زیادہ قیمتیں ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دلوں سے اللہ کا خوف اٹھ چکا ہے۔ اس لیے قوم کے افراد کو ایسی تجارت میں حصہ لینے کی ترغیب دی جانی چاہیے جو عوامی خدمت کے جذبے پر مبنی ہو۔


نتیجہ: تنقید ایک آئینہ ہے جو انسان کو صاف کرتا ہے۔ اگر اوپر بیان کردہ تجاویز پر عمل کیا جائے تو نہ صرف کتابوں کی قیمت میں کمی ممکن ہے بلکہ مواد کا معیار بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال ہمیں علمائے اسلام کی کتب سے ملتی ہے، جن کا مواد تحقیقی اور جدید ہوتا ہے، مگر قیمت بہت کم رکھی جاتی ہے، کیونکہ ان کا مقصد منافع نہیں بلکہ علم کی اشاعت ہوتا ہے۔ اسلام ہی واحد حل ہے۔


ماجد کشمیری

24 Dec 2024

چراغوں کی روشنی کے باوجود اختلاف

0

 الحمد لله رب العالمين و الصلاة والسلام على النبي الذي أعد الصحابة ليكونوا نوراً يهتدي به الأمة.


کچھ ایام سے دو چراغوں کی روشنی کے باوجود اختلاف سے خالی راہ نمایاں نہیں ہو رہی اور دونوں حلقوں میں معاملات تذبذب کا شکار ہیں -اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کی محرم الحرام میں وہ کمیونٹی جو اپنے آپ کو دنیاوی سزا دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ وہ صحابہ اکرام کی شب و روز گستاخیاں کرنے کی وجہ سے خود کو اخروی سزا کے مستحق بناتے ہیں۔


یہ اپنی بد عقیدگی اور جہل کی وجہ سے کیا کرتے ہیں! اس کی مخالفت کرنا حرف دوم ہے ۔ مگر ان کو الزامی جواب دینا اور ان کے خلاف مقدمات اور اقدامات کرنا نہ صرف ہمارا عقیدہ ہے بلکہ ذمہ داری بھی ہے۔


ان سے اختلاف نہیں بلکہ ان کی کھلی مخالفت کی جانی چاہیے وہ اپنی خصوصیات سے باطل ہیں اور باطل سے اختلاف نہیں مخالفت کی جاتی ہے۔


مگر یہ رویہ اختیار نہ کرنے کے باوجود سکونِ ماحول کے لیے موافقت کا نعرہ بلند کرنا کسی بھی حال میں صحیح نہیں ہے۔


ان کے اجلاس میں جا کر صحابہ اکرام کی شان کے بارے گستاخیاں نہیں ہونی چاہیے اور اس پر اول وہلہ زور دینا یہ بھی شیر کا جگرا رکھنے والے ہی کرتے ہیں۔


مگر ایک سوال خالی الجواب ہے ان سے وجہ مخالفت میں بڑا سبب کہ یہ تبرہ کرتے ہیں صحابہ پر اب یہ فطرت پر آ کے صحابہ پر زبان درازی کرنا ( اور ان سےغلط اور غیر مستند چیزیں منسوب کرنا بھی ) بند کریں تو ان سے اس مسئلے میں اتحاد ہو سکتا ہے یا ہمیں صحابہ کے معاملے میں کمپرومائز کر کے ان کی مشابہ ہونا ہوگا۔ اور یہ تخریجِ اہل السنہ والجماعہ کے عقیدے کے مترادف ہے۔ 


رہا پہلا تو تابعین کے زمانے سے آج تک انہوں نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا گویا کہ ان میں اتحاد محال ہے۔ اب وہ کہ جو خیال آپ کے من میں کہ پھر ان کو ساتھ لے کے کیوں چلتے ہیں تو یاد رکھیں جو حد سے تجاوز کرتے ہیں ان میں، ہم ان کو ساتھ نہیں لے کے چلتے ہیں تکفیر کرتے ہیں۔ اور جو غالی نہیں ہے ان سے تو ہم روایات لیتے ہیں۔ 


اگر اتحاد کی بات کی جا سکتی ہے تو وہ انہی غیر تکفیر شدوں سے ہو سکتی ہے۔ مگر یہ صفت حال کے گرم ماحول میں معدوم تھیں۔ تو تجمیع بخاطر اتحاد اپنے عقیدے کو ڈھیلا کرنے کے مرادف ہیں۔ *محافظوں کا نعرہ حد سے تجاوز بھی نہ کرنے دیں گے نہ گرنے دیں گے* تو ایسی صورت حال میں اتحاد وہ بھی محرم الحرام میں ہی کیوں اور کیسے کیا جا سکتا ہے! 


ابھی مسئلہ دو شخصیات کا نہیں ہے بلکہ دو نظریات کا ہے۔ اس لیے نظریے پر کام کیا جائے کیونکہ جب نظریہ اضعف ہو جائے تو بالکل چھلکا اترنے کے بعد مغز دِکھ جاتا ہے۔  


اور اب رہا امیر صاحب کا مسئلہ تو وہ اپنی وسعتِ لیاقت یا فہم و فراست کی حدود میں حق ادا کر چکے ہیں (اگرچہ حق ہے کہ حق ادا نہ ہوا ) اب پلنگ افگن کو میدان میں حق ادا کرنا ہے کہ حلقوں میں فہمائش کریں کہ سیاہ شیعی کس سفید چلمن کے دبر میں رہتا ہے۔ 


باہم نہ کریں گفتگو ہو باطل سے جستجو 

ہے یہ مسئلہ گومگو نہ بنیں جنگجو

کشمیر میں اتداد اسباب و تدارک

0

کشمیر میں ارتداد: اسباب، اثرات اور تدارک


کشمیر، جو ایک غالب مسلم معاشرہ ہے، بدقسمتی سے ارتداد کے فتنہ سے دوچار ہو رہا ہے۔ ارتداد کی خبریں وقفے وقفے سے سامنے آتی ہیں، جس کی وجہ سے ہم اس مسئلے کی حساسیت اور سنگینی کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگرچہ ارتداد کے کچھ اسباب بالکل واضح ہیں، لیکن ہم ان کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے میں غفلت کا شکار ہیں۔ ہم ان اسباب کا جائزہ لیں گے اور ان کے سدباب کے لیے عملی تجاویز پیش کریں گے۔

ارتداد کے اسباب اور ان کی نشاندہی

کشمیر میں ارتداد کے بڑھتے ہوئے رجحان کی کئی وجوہات ہیں۔ ایم وجوہ یہ ہیں ۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی بے راہ روی، نامناسب تعلیم، اور دینی شعور کی اضمحلالی ، ان عوامل میں شامل ہیں جو ارتداد کا باعث بن رہے ہیں.


ہندوستانی مسلم معاشروں کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت

ہندوستان کے ان علاقوں میں جہاں مسلم آبادی اکثریت میں ہے، جب ارتداد کا فتنہ پھیلنے لگا تو وہاں کے علماء کرام نے فوری اقدامات کیے۔ ان علماؤں نے والدین کو سمجھایا اور انہیں مکاتب میں بچوں سمیت بٹھایا تاکہ انہیں دین کی بنیادی تعلیم دی جا سکے اور ان سوالات کے جوابات فراہم کیے جا سکیں جو انہیں تعلیم گاہوں میں اٹھائے گئے تھے۔

ہندوستان کے برعکس، کشمیر میں تعلیمی نظام نسبتاً مضبوط ہے، مگر یہاں کے نوجوان جاب کے پیچھے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس، ہندوستان میں تعلیم کی کمی کے باوجود ، وہاں کا نصاب نہ صرف غیر شعوری طور پر اسلام کی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے بلکہ یہ ایک منظم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں چونکہ نسبتا مضبوط ہے تو اپ اندازہ لگائیں یہاں پر کس طرح ماثر بنتا ہوگا ، خیر ہندوستانی علماؤں نے اس کا تدارک دینی تعلیم کے ذریعے کیا، جس کا بہترین ذریعہ مکاتب ہیں۔


مکاتب کی اہمیت اور ہمارے معاشرے میں ان کی کمی


 ہمارے معاشرے میں مکاتب کو بون میرو کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، ہمارے مکاتب میں تربیت کی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔ ہندوستان کے مقابلے میں ہمارے مکاتب میں تعلیمی سرگرمیاں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کو ناظرہ پڑھا کر چھوڑ دیا جاتا ہے، جو کہ شعور پیدا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

اصلاح کی ضرورت 

 اس بات کی ہے کہ ہمارے مکاتب میں موثر نصاب متعارف کرایا جائے تاکہ بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت ممکن ہو سکے۔ اس کے لیے ہمیں ہندوستانی مسلم معاشرے کی طرح عملی اقدامات کرنے ہوں گے، جہاں مکاتب نے معاشرتی بگاڑ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کو وہ کتابیں پڑھائی جائے جن کی وجہ سے معاشرے کے سازشوں سے نہ صرف بچے بلکہ ان کا جواب بھی دے سکے ایسے افراد جب مکاتب میں پیدا ہونے لگیں گے ارتداد کا عکس ہونے لگے گا ان شاءاللہ تعالی۔


خلاصہ: کشمیر میں ارتداد کا فوری حل ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس مسئلے کے اسباب کی نشاندہی کریں اور ان کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کریں۔ مکاتب کے نظام کو بہتر بنانا اس جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہو سکتا ہے، تاکہ ہم اپنے بچوں کو دین سے جوڑ سکیں اور معاشرے کو اس فتنے سے محفوظ رکھ سکیں۔


موخری شادی اور ارتداد: ایک خطرناک ربط


    ارتداد کی دوسری وجہ کہ ایک نیا رواج بن چکا ہے، اس نے معاشرے کے خواص کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ موخری شادی نے ارتداد کے پھیلاؤ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب نفسانی خواہشات بے قابو ہو جاتی ہیں، تو لوگ حرام تعلقات میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ جب یہ تعلقات اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں، تو اسے حلال بنانے کے لیے شادی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس شادی کی راہ میں مذہب رکاوٹ بن جائے، تو تبديل مذہب پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بظاہر یہ ایک "محبت" کا معاملہ دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے ایک گہری سازش چھپی ہوتی ہے۔ یہ سازش صرف عارضی خوشیوں کا وعدہ کرتی ہے، جبکہ حقیقت میں یہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں پہلا قدم محبت، دوسرا تبديل مذہب، اور پھر دنیاوی و ابدی کی طویل داستان ہے۔

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم حقیقی محبت کی تلاش میں حلال اور دینی راستے اختیار کریں۔ شادی کو موخر کرنے کے بجائے، جلد از جلد مناسب رشتہ تلاش کرے اور اسے نیک بنائیں جو ہمیں اللہ کے ساتھ جوڑنے میں مددگار ہو۔ اس کے لیے ہمیں اپنے کنویں کو تبدیل کرنا ہوگا، یعنی اپنی محبت کی جستجو کو دین کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔


اگر ہم دین کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور اپنے نکاح کو جلد مکمل کریں، تو ہمیں محبت اور راحت حاصل ہوگی۔ جب کہ اگر ہم غیر اسلامی راستوں پر چلیں گے، تو وقتی لذت کے بعد صرف تکلیفیں ہی ہمارا مقدر بنیں گی۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اس کنویں کے پانی کو ترک کر دیں جو بظاہر میٹھا لگتا ہے مگر حقیقت میں زہر ہے۔ اس کے بجائے، وہ راستہ اختیار کریں جو ہمیں دین کے ساتھ جوڑے رکھے اور ابدی خوشیوں کی ضمانت بنے۔


خلاصہ: موخری شادی اور حرام تعلقات کا مسئلہ ایک سنگین چیلنج ہے، جس کا حل بروقت نکاح میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں خود بھی اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا اور دوسروں کو بھی اس بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم اس فتنے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔

غیر محارم کے ساتھ تعلیم اور تربیت کا فقدان: ایک سنگین مسئلہ


ارتداد کی تیسری بڑی وجہ: محارم کے بغیر تعلیم حاصل کرنے اور تربیت کے فقدان کے ساتھ تعلیم کے لیے بچوں کو اپنے سے دور بھیجنا ہے۔ جب بچوں کو تعلیمی اداروں یا ہاسٹلز میں محارم کے بغیر بھیجا جاتا ہے، تو وہ مختلف لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کا ذہن چونکہ ابھی کچا اور ناتجربہ کار ہوتا ہے، جب ایک ایسے ماحول میں جاتے ہیں جہاں انہیں طرح طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ ان لوگوں میں کچھ ان کے ہم عمر ہوتے ہیں، اور کچھ بالکل مختلف افکار و نظریات کے حامل ہوتے ہیں۔

 ایسی صورت حال میں، جب بچوں کے پاس کوئی دینی یا اخلاقی تربیت نہیں ہوتی، تو وہ بآسانی گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے ناتجربہ کار ذہن کو ورغلانا آسان ہوتا ہے، اور یوں وہ ارتداد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات ان بچوں کے ساتھ سازشیں بھی کی جاتی ہیں، جن کا مقصد انہیں دین سے دور کرنا ہوتا ہے۔

ہم نے صرف اشارات کیے ہیں جو قادریں انہیں مناسب سمجھیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور جتنا ہو سکے فہمائش کرتے رہیں۔ معاشرہ عوام سے بنتا ہے اس لیے اس کی اصلاح میں عام و خاص کی حاجت ہوتی ہیں۔

تجزیہ و تبصرہ ماجد کشمیری

  


انگور کا گچھا میٹھا یا کھٹا

0

 تنبیہ نمبر ٢٦١ 


          انگور کا گچھا میٹھا یا کھٹا


سوال

مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:

ایک غریب دیہاتی، بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں انگوروں سے بھری ایک ٹوکری کا تحفہ پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا۔ کملی والے آقاﷺ نے ٹوکری لی، اور انگور کھانے شروع کئے۔ پہلا دانہ تناول فرمایا اور مُسکرائے، اُس کے بعد دوسرا دانہ کھایا اور پھر مُسکرائے، اور وہ بیچارہ غریب دیہاتی، آپ کو مسکراتا دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال۔۔۔ صحابہ سارے منتظر، خلاف عادت کام جو ہو رہا ہے کہ ہدیہ آیا ہے اور انہیں حصہ نہیں مل رہا۔۔۔ سرکار علیہ السلام، انگوروں کا ایک ایک دانہ کر کے کھا رہے ہیں اور مسکراتے جا رہے ہیں۔

میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں۔۔۔۔ آپﷺ نے انگوروں سے بھری پوری رکابی ختم کر دی اور آج صحابہ سارے متعجب!!!

غریب دیہاتی کی تو عید ہو گئی تھی، خوشی سے دیوانہ۔۔۔ خالی ٹوکری لئے واپس چلا گیا۔

صحابہ نہ رہ سکے، چنانچہ ایک نے پوچھ ہی لیا: یارسول اللہﷺ! آج تو آپ نے ہمیں شامل ہی نہیں فرمایا؟ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: تم لوگوں نے دیکھی تھی اُس غریب کی خوشی؟ میں نے جب انگور چکھے تو پتہ چلا کہ کھٹے ہیں۔ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ تقسیم کروں تو ہو سکتا ہے کہ تم (میں سے کسی) سے کچھ ایسی بات (یا علامت) ظاہر ہو جائے (کہ انگور کھٹے ہیں) جو اس غریب کی خوشی کو خراب کر کے رکھ دے…

کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ گردش کر رہا ہے.

□ حكي أنه جاء رجل فقير من أهل الصفة بقدح مملوءة عنبا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يهديه له، فأخذ رسول الله القدح وبدأ يأكل العنب فأكل الأولى وتبسم، ثم الثانية وتبسم، والرجل الفقير يكاد يطير فرحا بذلك، والصحابة ينظرون وقد اعتادوا أن يشركهم رسول الله في كل شيء يهدى له، ورسول الله يأكل عنبة عنبة ويتبسم حتى أنهى بأبي هو وأمي القدح والصحابة متعجبون.. ففرح الفقير فرحا شديدا وذهب، فسأله أحد الصحابة يارسول الله! لِمَ لَمْ تشركنا معك؟ فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: قد رأيتم فرحته بهذا القدح وإني عندما تذوقته وجدته مرا؛ فخشيت إن أشركتكم معي أن يظهر أحدكم شيئا يفسد على ذاك الرجل فرحته.

■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:

یہ واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، بلکہ من گھڑت روایات کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ منقول نہیں.

لہذا جب روایات کی تحقیق کرنے والے مختلف اداروں سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کو موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے.

○ الدرر السنیة:

الدرر السنیة والے لکھتے ہیں کہ یہ جھوٹ من گھڑت ہے، اس واقعے کا کتب حدیث میں کوئی وجود نہیں.

¤ الدرجة: كذب موضوع لا وجود له في كتب الحديث.

○ اسلام ویب:

اسلام ویب والے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ہمیں نہ ملی اور یہی لگ رہا ہے کہ یہ بےاصل روایت ہے.

¤ فلم نجد هذا الحديث، فيما اطلعنا عليه، والذي يظهر أنه لا أصل له.

○ ایک اور ادارے والے لکھتے ہیں:

اس واقعے کی کوئی اصل نہیں اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.

¤ ولا أصل له. ولا تصح نسبته للنبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وسلم.

● روایات کے بیان میں احتیاط کا تقاضہ:

آپ علیہ السلام کی ذات پر جھوٹ بولنے والے دو قسم کے لوگ ہیں:

أقسام الذين يكذبون علي الرسول ﷺ:

١. ایک وہ لوگ جو جان بوجھ کر جھوٹ بناتے ہیں، ان کا دین میں کوئی حصہ نہیں، اور اگر وہ اس جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں تو یہ کفر ہے.

□ القسم الأول: القسم الذي يكذب متعمداً ليس عنده دين، وإن استحل الكذب كفر.

٢. دوسرے وہ لوگ ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے لیکن روایات کو اچھی طرح یاد نہ کرنے کی وجہ سے غیر ارادی طور پر جھوٹی روایات بیان کرجاتے ہیں، کبھی الفاظ بدل دیتے ہیں اور کبھی مضمون ہی بدل دیتے ہیں.

□ القسم الثاني من الكذب: وهو الخطأ غير المقصود من رواة صالحين أي أناس فضلاء وأتقياء وأصحاب ديانة، لكن لم يضبطوا الحديث، يسمع الكلام يبدل لفظة بلفظة أو يبدل كلاما بكلام بسبب عدم تركيزه.

امام مالک فرماتے ہیں کہ ہم نے نیک لوگوں سے زیادہ احادیث میں جھوٹ بولنے والوں کو نہیں دیکھا.

□ كما قال يحيى بن سعيد القطان أو كالإمام مالك أيضا قال: لم نر الصالحين في شيء أكذب منهم في الحديث.

امام مسلم فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے لیکن جھوٹی روایات ان لوگوں کی زبان پر جاری ہوجاتی ہیں.

⤴️2⃣

□ قال الإمام مسلم بعد ما روى هذا الكلام في مقدمة صحيحه: يعني يجري الكذب على ألسنتهم ولا يتعمدون الكذب.

امام ابن حبان کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کی طرف جھوٹی روایات كو منسوب کرنے والوں میں وہ شخص بھی شامل ہے جو احادیث کی صحت معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا.

□ قال ابن حبان في مقدمة كتاب المجروحين تحت قول النبي ﷺ: “من حدث عني بحديث وهو يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين”، وهو يرى، فإن حبان يقول: أن كل من لم يتحري البحث عن صحة هذا الحديث يخشى أن يدخل تحت هذا الوعيد.


                    خلاصہ کلام


آپ علیہ السلام کی ذات کی طرف کسی بھی بات یا واقعے کو منسوب کرنے اور اس کو پھیلانے سے پہلے اس بات کی حتی الامکان کوشش کی جائے کہ وہ بات درست اور قابل بیان ہے یا نہیں، ایسا نہ ہو کہ ہماری ذرا سی چوک ہمیں آپ علیہ السلام پر جھوٹ باندھنے والوں میں شامل کردے.

سوال میں مذکور واقعہ درست نہیں اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب


کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

٢٠ جنوری ٢٠٢٠ کراچی

علامہ انور شاہ کشمیری کی شان میں ایک نظم:

0



علامہ انور شاہ کی عظمت کا نہیں جواب،

حق کے علمبردار، تھے علم کے آفتاب۔


کادیانیت کے خلاف کھڑی کی دیوارِ کمال،

حق و باطل کے بیچ کھینچی ایسی مثال۔


علم و حکمت میں تھے وہ بے مثال،

حافظے کی قوت تھی ان کی بے زوال۔


عدالت میں کہیں جو بات نرالی،

انگاروں پر دکھانے کی دھمکی کمالی۔


یاد رکھے گئے دنیا، وہ عظیم انسان 

علامہ کی روشنی دے گئیں ایمان


ان کی علمیت، ان کی فصاحت و بلاغت 

اسماء الرجال میں تھی ایسی کمال مہارت۔


کادیانیت کے خلاف وہ جرات کی مثال،

حق و باطل میں کھینچی واضح لکیرِ کمال۔


ان کی باتوں میں تھا سچ کا جمال،

علم و ادب میں رہے ہمیشہ بے مثال۔ 


ماجد کشمیری 

ابن ماجہ کتاب الفتن کے راوی روایت کی تحقیق

0

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


سنن ابن ماجه کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن، میں ایک حدیث ہے: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يطوف بالكعبة وهو يقول ما أطيبك وأطيب ريحك ... الحديث

 اس حدیث کی روایت کرنے والے صحابی کا نام ہندوستان سے چھپے ہوئے پرانے اور متداول نسخوں، نیز پرانے عرب ممالک میں شائع ہونے والے نسخوں میں : ( عبد اللہ بن عمرو) لکھا ہے ، واو کے ساتھ ۔ یعنی عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ۔

جبکہ درست یہ ہے کہ یہ حدیث بروایتِ عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا ہے۔ محقق مطبوعہ نسخوں میں یہی ہے ، جیسے شعیب ارناؤط ، دار التاصیل، دار الصدیق وغیرہ کے مطبوعہ نسخوں میں۔

اور امام رازی نے بھی تحفہ الاشراف میں برقمِ 7284 پر اس کو مسند ابن عمر میں لکھا ہے۔


عبد اللہ بن ابی قیس النصری جو ابن عمر کے شاگرد ہیں، اور اس حدیث کی سند میں ان کا نام ہے، ان کا ترجمہ تھذیب الکمال میں ملاحظہ فرمائیں کہ ان کے مشایخ میں ابن عمر کا تو نام ہے اور اس کے آگے ابن  ماجہ کار مز (ق) لکھا ہے، مگر ابن عمرو کا ذکر نہیں ہے۔


ابن ماجہ کے پرانے قلمی نسخے بھی ابن عمر پر متفق ہیں، سوائے سلیمیہ والے نسخے کے کہ اس میں ابن عمرو ہے، جیسا کہ دار التاصیل کے محقق نسخے میں حاشیہ میں دیا ہے۔


الحاصل: ابن ماجہ کی سند میں ابن عمر ہیں۔


البتہ حافظ ابن کثیر نے مسند الفاروق میں موقوفًا اس روایت کی نسبت ابن عمرو وغیرہ کی طرف کی ہے، قال ابن کثیر :


لكن روي مثله عن ابن عمر وابن عباس وعبد الله بن عمرو : أن كلاً منهم نظر إلى الكعبة، فقال: ما أعظم حرمتك والمؤمن أعظم حرمة منك۔ اہ


لیکن ابن ماجہ والی مرفوع روایت تو ابن عُمر ہی کی ہے۔

واللہ اعلم

کتبہ العاجز : محمد طلحہ بلال احمد منیار، 22 رمضان


ترمذی شریف میں ایسی ہی روایت ابن عمر  ؓ کی سند سے ہی ہے۔


وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ السَّمَرْقَنْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، ‏‏‏‏‏‏نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا.

تجارت میں حلال و حرام کی تمیز نہ کر پانے کی وجوہات۔

0

تجارت میں حلال و حرام کی تمیز نہ کر پانے کی وجوہات۔

تجارت میں حلال و حرام کی تمیز نہ کر پانے کی وجوہات۔


شقاوتًا یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ تجارت میں دور حاضر و زمانۂ قریب کے مسلمان کسی اچھی پوزیشن پر نہیں ہیں۔ ہمارے لاشعوری حصے میں یہ بات مسلط کی گئی ہے کہ شعبہ جات کی فلاحی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، غیروں کے ہی شعبہ جات کو ترقی کے عرش پر پہنچانا ہے، جس کے عوض وہ ہمیں گھٹلی دیں گے اور خود آم کھائیں گئے۔


‎معروف رصافی نے کیا ہی گہری بات کی ہے۔


ناموا ولا تستيقظوا، ما فاز إلاّ النُوَّم ۔ خوابِ علفت میں ہی رہوں! جاگنا مت!، کامیابی کا راز یہی ہے


‎غلامی بھلا کیوں کر مسلمان کی طبعیت میں رکھی گئی ہوگئی؟ آپ اس گھٹلی کو لے کر اپنا شعبہ تو قائم کر سکتے ہی ہیں۔ نیز رزاق تعالی نے ہمیں زمین کا وارث تو بنایا ہی ہے، جس طرح دنیاوی مفلحین کو بنایا ہے ۔ جب وہ بزنس کر سکتے ہیں تو جن مسلمانوں کو ان کے دین نے تجارت کی ترغیب دی ہے اور قواعدِ تجارت اور اس کے ذرائع سے بھی آگاہ کیا گیا ہے، جس سے وہ کامیاب ہو جائیں۔ وہ بھلا کاروبار سے کس دلیل سےبھاگتے ہیں۔


مجھے اس کی افادیت پر کلام نہیں لکھنا ہے، کیوں کہ مخاطبین اس کے منفعت بخش ہونے کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ میران کی فہارس میں انٹرپرنروں (تاجروں ) کو دیکھتے ہیں۔ مگر خود اس غریبی مکت اور نبوی کام کو کرنے سےکتراتے ہیں۔ اس کی بہت وجوہات ہوتی ہیں؛ کچھ کا ذکر کرکے جانبِ مقصود لب کشائی کرتا ہوں ۔ سب سے بڑی رکاوٹ جو بن جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہاتھ میں انویسٹمنٹ (سرمایہ) نہیں ہوتا ہے۔ سرمایہ رقمِ غفیر کا نام نہیں ہے۔ بل کہ یہ وہ رقم ہے جو اپ کو دلاسا دیتی ہے۔ اس لیے آپ دیکھتے ہوں گیے کہ لون ( جو خود کی رقم نہیں ہوتی، بس بہانے) سے کاروبار شروع ہوتا ہے۔


 ہمیں کون رقم دے گا؟ جب آپ کا کردار و عزم اور پریزنٹیشن ایسی نہ ہو کہ آپ پر کوئی ساہوکار (قرض دہندہ ) بھروسا کرنے سے قبل سوچیں، تو پہلے خود کو تیار کریں ۔


‎ان قرض دہندگان یا سرمایہ کاروں سے رابطے کریں، جو آپ کے ساتھ منافعے میں شریک ہو کر آپ کو رقم و تجربہ دیں۔ اور باقی جو آج کل رائج طریقے ہیں، جیسے سرمایہ کسی کا اور محنت کسی اور کی، اور منفعت مقدارًا تقسیم وغیرہ ۔


 یہ سب تدبیرات تب کام آ سکتی ہے، جب آپ کے اندر کی غلامیت دم توڑ چکی ہو اور عزم آوری اور پلان اچھا اور تجربہ کاروں کے مشوروں کے ساتھ چلانے کی ایسی وسعت و ہمت جو خالی از کبر و نخوت ہوں۔


‎اب اس کی جانب مراجعت کرتے ہیں، جو مقصود ہے اعنی تجارت میں حلال و حرام کی تمیز کیوں نہیں رکھی جار رہی ہے؟ اس کی مضبوط اور پہلی وجہ تو یہ ہےکہ جو بزنس مین ہمارا رول ماڈل ہے یعنی جاگیردار ، ان کے ناقص و حرام کاروباری اصول میں حلت و حرمت کا کوئی باب ہے ہی نہیں، اور ہم انہی کی تقلید کرتے ہیں، جس کے باعث ہماری طبیعت بھی مادی، خود غرض بن چکی ہے، یعنی جو تقاضاءِ تجارت کے منافی ہے اور یہی سوءِ فہم گھر کر چکی کہ جاگیرداری کے ورے دھندا نہیں چل سکتا ہے، نہ فائدہ ہے۔ جب کہ حقیقی و صحیح کاروبار کی شرط اول ہے، اپنے اور دوسروں کی ادائیگی کا پورا صلہ دیا جائے۔ اور یہی ہے وہ جس کو برانڈنگ کہا جاتا ہے، یعنی جہاں خرچ ہونے والی رقم ضائع و فضول نہ لگے۔


دوسری وجہ : اس کی طرف ، ہمیں متنبہ کرنے والے بہت کم بل کہ کمترین دھیان دیتے ہیں۔ اپنی عمر میں نے بابِ اقتصادیات کے تبیان میں مسائل زکات کے ورے کچھ نہیں پایا ہے۔ جب کہ پیت کو سیراب کرنے والی چیزوں کا حرامی ہونا، بہیمیت کو تقویت اور ملکیت کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے اور یہی بہیمیت ہمیں باقی اعمال صالحہ کو نہ کرنے اور اعمال طالحہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ لہذا، اولین ترجیح والی ابواب میں، اس کو بھی شمار کرنا چاہیے۔ اللہ توفیق دے۔


تیسرا سبب مع حل: جیسے اسٹارٹ اپ پلان کو تشکیل دیا جاتا ہے اور اس میں کاروباری تصور، مارکیٹ کا تجزیہ، عملی منصوبہ اور مالی منصوبہ و تخمینہ ضروری ہے۔ بعینہ قوانین شریعہ کو پلان کا سرتاج بنانا چاہیں، یعنی اس کی حدود میں انتخابِ راہِ رزق اعنی حلال انڈسٹری کو منتخب کر کے قانون عمر ؓ کا پالن کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے، یعنی بیع اور ربا میں تفریق کا مبادی علم ہونا چاہیے اور وقتًا فوقتًا اور خصوصًا مشکوک صورت پر متنبہ کرنے والے کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ فلاح دارین مل جائیں ، جو مقصودِ ازلی ہے۔


 چوتھی بمعیت حل کے: ہمیں نہیں ملتا راسخ العمل نمونے جن کی ہم اقتدا کرتے مگر قلیل، رفعِ ھذا کے لیے شائقین علما کو اپنے اقتصادی علوم کے داعیہ کے موافق تجارت کرنی چاہی تاکہ وہ نمونہ شرعی قرار پائیں۔


آخری مگر لازمی : مادیت دلوں میں سیرات نہ کر پائے، یہ قوی وجہ ہے کہ جب یہ اندر گھس جائیں تو ہمیں مجبور کر دیتی ہے یہ کہنے پر: بیع مثلِ ربا ہے یعنی حلال و حرام تو یکساں ہے، اس میں کچھ فرق نہیں، اور ہر جگہ یہی ہوا ہے، زبان اضطرارًا ایسے تاویلی جملے کہنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔


خلاصۂ کلام : تجارت کو فروغ محراب و ممبروں سے دیا جائے، معیشت و اقتصادیت کے بابوں کی تشریح و توضیح بھی اپنی شرعی ذمہ داری سمجھیں جیسے کہ یہ ہے۔ اور جس طرح ہر سال صلات و صوم کی ترغیب اور فضائل بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ طبیعت بن جائے بعنیہ تجارت کے اصول بھی دہرائیں تاکہ وہ فطرت بن جائے اور عمل کرنا تن آسان ہو جائیں ۔


نیز ، عوام کو اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اپنی عقلی اصولوں کے بجائے شرعی اصولوں کی پابندی کرنی چاہیے۔ واللہ اعلم۔


 نہیں قدرت ہے ہمیں اس پر، گر وہ دلوں کو پھیرنے والا اس مقناطیسی میلان سے متنفر نہ کر دے، ہم طالبِ رحمت و رزق و توفیق ہے ۔ رب العالمین ہمیں نوازے، آمین۔


ماجد کشمیری

٢١ شوال المکرم ١٤٢٥

پی ڈی ایف حاصل کریں۔


© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں