غالب ہم آئے گئے ہے وعدے میں مذکور

0

حالتِ ناگفتہ سے مجبور

 

نہیں مجھے وفورِ زنبور


 نہیں ہوں میں بے قصور

 

نہیں بنا میں خالق کا مزدور


نہیں مجھے کوئی سندور

 

میں کیسے بناؤ گا حضور


ثروت سے ہوں مفرور

 

  سببہ میں ہوں بے سرور 


اب اپنی محتاجی پر غرور

 

میں اس لیے ہوں مسرور


زور خیال نہ رہا مستور

 

ہوگا عیاں فقیر کا دستور


جیب کی مالیت ہے منثور

 

سببہ نہیں ماحول میں بٹور


اللہ کے حضور بھی نہیں منظور

 

مجھے سے جسم بھی ہوگیا نامنظور


محسوس ہوا میں ہوں مسحور

 

اب میری زندگی بنی ہے ناسور 


نہیں حالت بدلنے کی مقدور

 

تخمینہ لگایا کہ ہو میں مسحور 


افسوس فکر سے میں معذور

 

کیسے بنوں گا میں از خود غیور


 مامور بہ کی نہیں مجھے ملتی مذکور 

 

کہتے ہیں اس پر بھی نہ ہو  رنجور


تیرا ظلم روزِ روشن کی طرح مشہور

 

مگر ظلوم کا نہیں رہتا ہمیشہ یور



گر جائے گے مظلوم کے پاؤں کی نیور

 

جب آئیے گا ان میں فطرت کا شعور


نکل جائے گے پنجرے سے طیور

 

جب ختم ہوگا ان میں باہمی فتور

 

قبولِ عمل عند اللہ گر ہو خطور

 

 تسلسلِ عمل سے آئے گا نیت میں بلور

 

شرط وہی ہے کہ بن جا تو شکور

 ملے گئی تمہیں ہی خلافت بھرپور


ہم مظلومین سے ہیں مہجور

نہ گھبرا یہ تو ہمارے لیے ہے جور 


نہیں ہمارے خون میں نَفور

 چھوڑ گھبرانا اے میرے غفور


ہمیں میں ہے قاسم کی جسور

 نہیں ہے ہمیں پسند جہادِ میسور


تلاشِ غفیر نہ کر بلکہ کر تتبعِ تیمور

 ڈھونڈ اپنے اندر ہی اپنے جیسے اور سَمور

 

 دلیلِ زبور کہ قرآن ہی ہے آخری دستور

 نہ بنا دوست ان کو یہ سب ہے چغل خور


نہ گھبرا پھر بھی ہے نظام ان کا کمزور

کیوں کہ نہیں فطرت کا ان کے ساتھ زو


ایم کے کیوں ہوتا ہے تو دل سے چِکور

 غالب ہم آئے گئے ہے وعدے میں مذکور 

ماجد کشمیری

زکات کی اخروی شکل خوف ناک اژدہا

0

یہاں جو نقل کرتا ہوں بخاری کی روایت ہے

بخاری کی روایت میں صداقت ہی صداقت ہے 


رسول پاک نے ایک دن صحابہ کو نصیحت کی 

کہ جس انسان کو اللہ نے دنیا میں دولت دی


اور اس انسان نے بدقسمتی سے فرض کو ٹالا

زکوۃ اس نے نہ دے کر مال کو ناپاک کر ڈالا


 تو اس انسان کا یہ سارا دھن دولت قیامت میں

 بدل جائے گا ایسے اژدہے کی شکل و صورت میں


معاذ اللہ جس کے سر پر ہوں گے داغ دو کالے

 لرز جائے گے اس کو دیکھ کر سب دیکھنے والے


 وہ داغ اس کے علامت ہے کہ زہریلا بڑا ہوگا

 خدا ہی جانتا ہے کتنا زہر اس میں بھرا ہوگا


 غضب اللہ کا بن کر وہ نازل ہوگا انسان پر

گلے میں اس کے اک طوقِ گراں بن جائے گا اجگر


 پھر اس انسان کے جبڑے پکڑ کر وہ کہے گا یوں

میں تیرا مال ہوں کم بخت میں تیرا خزانہ ہوں


میں وہ ہوں جس کو اپنی زندگی میں تو نے پالا تھا

تو دنیا میں بہت مجھ سے محبت کرنے والا تھا


مرے ہی واسطے اللہ کو بھولا ہوا تھا تو

مجھے دنیا میں پا کر کس قدر پھولا ہوا تھا تو


تو لے، دیکھ! آخرت کے روز اب تیری سزا ہوں میں

کمایا تھا جو تو نے کیا ہی خوب اس کی اجر ہوں میں


رسول پاک نے یہ کہہ کر ایک آیت تلاوت کی

بخیلوں کے لیے تو اس میں دھمکی ہے قیامت کی


یہ فرمایا گیا ہے مال و دولت پر جو مرتے ہیں

خدا کی راہ میں کچھ بھی نہیں جو خرچ کرتے ہیں


نہ سوچیں وہ کہ ان کا بخل کچھ بھی راس آئے گا

خدا کے رحم کا سایہ نہ ان کے پاس آئے گا


قیامت میں نہ ان کے واسطے کچھ بہتری ہوگی

قیامت میں تو ان کے واسطے ذلت دھری ہوگی


وہ ذلت یہ کہ دوزخ میں ہمیشہ کے لیے رہنا

اور اس میں آگ کے ان مشتعل سانپوں کا دکھ سہنا 


زکوٰۃ پر اشعار| زکوٰۃ کے فائدے

0
زکوٰۃ اک فرض ہے، اک رکن دیں ہے اک عبادت ہے
یہ شکرِ نعمتِ حق ہے، یہ ایماں کی علامت ہے

دلِ مومن کو حبِّ مال سے یہ پاک کرتی ہے
سیہ دامن کو بخل و حرص کے یہ چاک کرتی ہے

یہ دنیا کی محبت سے مسلماں کو بچاتی ہے
یہ اس کو آخرت کے اجر کی رغبت دلاتی ہے

اک مالی عبادت ہے دولت کی طہارت ہے
سخاوت ہے، شرافت ہے، نشانِ آدمیت ہے

زکوة اک روشنی ہے دل کو جو پر نور کرتی ہے
توکل کے عقیدے سے اسے معمور کرتی ہے

یہ مستقبل کے اندیشے کو دل سے ٹال دیتی ہے
یہ حرص و آز کے شعلے پہ، پانی ڈال دیتی ہے

یہ سودی ذہنیت کو روندتی، پامال کرتی ہے
محبت سے غربیوں کا یہ استقبال کرتی ہے

یہ مسکینوں سے، محتاجوں سے، ہمدردی سکھاتی ہے
یہ اسلامی اُخوت کا سبق ہم کو پڑھاتی ہے

زکوٰۃ احساں نہیں اُن پر، یہ استحقاق ہے اُن کا 
ادائے فرض ہے حقدار کو حق اس کا پہنچانا

معاشی نظام کو ملت کے مستحکم بناتی ہے
سہارا دے کے مجبوروں کو گرنے سے بچاتی ہے

یہ غصے کو خدا کے اپنی ٹھنڈک سے بجھاتی ہے
 یہ وہ شے ہے جو مرگِ بد سے مومن کو بچاتی ہے
 
بہت ہی مختصر حصہ، نصاب مال سے دینا
خدا سے بے کراں اجر و ثواب و مغفرت لینا 

اگر پھر بھی کوئی دولت کا بھوکا اس سے نالاں ہے
تو پھر سوچے کہ کیا وہ واقعی سچا مسلماں ہے  


از مولانا سید احمد عروج قادری 

غسل مسلسل یا بہت دیر پانی میں رہنے سے حکم روزہ

2

غسلِ مسلسل یا وقتِ کافی کے لیے پانی میں رہنا سے حکم روزہ


کیا مسلسل نہانے یا بہت دیر پانی میں رہنے سے روزہ فاسد ہوتا ہے۔ ہمارا جسم یا جلد پانی absorb کرتا ہے، یا sweat pores کے راستہ سے پانی اندر جاتا ہو تو کیا حکم ہے روزے کا۔

جواب۔

 زوزہ فاسد نہیں ہوتا بہت دیر پانی میں رہنے سے کیوں کہ پانی اندر جذب ہی نہیں ہوتا ہے۔ 

ہمارے جلد کے نیچے ڈیڈ سیلز کہ ایک لیئر ہوتی ہے جو سختی کے ساتھ بند ہوتے ہیں جو پانی ابزارب (جذب) کرنے نہیں دیتی ہے۔


عرقِ مسام (سویٹ پورز )کے راستہ سے بھی معدے تک پانی نہیں پہنچتا ہے۔ کیونکہ عرقِ مسام خلالِ جلد و جسم میں ہوتے بل کہ عام طور پر بیرونی پرتوں (epidermis) میں ہوتے ہیں۔ 


نیز اندرونی اعضا کو عموماً ضرورت نہیں پڑھتی تعریق (sweating) کی گر حاجت ہو تو ان کی تخریجِ عرق کے لیے لمفاوی نظام ( lymphatic system) یا جوئے خون (bloodstream) اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ تو 


بالا تفصیل سے روزہ کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔


ماجد کشمیری 

بہو کی ساس و سسر کی خدمت کرنا

0


بہو کی ساس و سسر کی خدمت کرنا 

معاشرے کے بعض اصول درایتی اور اخلاقی ہوتے ہیں۔ ان میں ایک باب یہ ہے کہ بیٹے کی منکوحہ کی خدمت لینا یعنی بہو کی ساس و سسر کی خدمت کرنا۔


جس طرح خاتون کا شوہر کی خدمت کرنا قضاءً نہیں ہے بلکہ دیانتًا واجب ہے اسی طرح ساس و سسر کی خدمت کرنا درایتًا ہے شرعاً نہیں۔


اب دیانتًا کیا ہوتا؟ درایتًا کیا ہوتا؟ اور شرعاً کیا ہوتا؟


یہ خلالِ مولانا بھی نہیں بل کہ مفتی اور قاضی کے درمیان کی ابحاث یعنی مشکل ہے۔


 اور بوجہ عدمِ لیاقت میں تبیان از زبانِ عام سے قاصر ہوں۔ اور نہ مخاطبین اس کو حقیقتاً و کاملاً سمجھ سکتے ہیں (اور یہ عیب نہیں) 


درایت کو عمیم لہجہ میں کہو تو یہ حکمت ہے یعنی وہ حکمت جس کی وجہ گھرانہ کا ماحول برقرار رہتا ہے۔ 


 بہو کی وہ خدمت اپنے سسر کی کرنا جائز نہیں جس سے ان کی ازدواجی زندگی متاثر ہوں جیسے جسمانی خدمت: پاؤں دبانا الخ 


باقی جو عرف میں کی جاتی جیسے بستر لگنا،کھانا پروسنا تو یہ درایتی و اخلاقی حکم ہے کرنا چاہے۔ بل کہ بعض اکابرین نے لازم لکھا ہے۔

ہند میں مؤخری شادی وجہ ارتداد

0

ہند میں مؤخری شادی وجہ ارتداد 

اکثر میں نے ملاحظہ کیا ہےکہ آدمی (رجل و نسا) کا تعلقِ نفسی : حرامی جب عروج پر پہنچتا ہے تب وہ اسے نا حرام بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور عالم میں ایک طریقہ ہے جو کہ ہے شادی!، اختیار کیا جاتا ہے۔ اور اس راستے پر ہم تبدیلِ مذہب پر مجبور ہو جاتے ہیں۔


مگر بہت کم سمجھتے ہیں کہ صرف یہ تعلق : مزعومہ محبت ( so-called love) ہم سے یہ کراتا ہے۔ اس کے پیچھے بڑا منصوبہ اور سازش ہے، ایک ایسا کنواں جس کی پہلی لیول محبت ہے پھر تبدیل مذہب پھر اپنا رنگ: وقتی لذت پھر تکلیفات تکلیفات تکلیفات۔۔۔ پھر جہنم۔


 یہ ان کی دنیاوی زندگی کو بھی نرک بنا دہتا، ابدی کے بارے میں ہم خود سوچیں۔


اس کا ایک قوی سبب موخری شادی (late marriage) ہے کبھی ہم اس کی بھول بھلیاں میں پھنس جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سنگل ہیں اور ہم سے کوئی گناہ بھی نہیں ہو رہا ہے مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ اپنے بستر پر جا کے محاسبہ کر لو بل کہ اپنا موبائل دیکھو، آپ کو آئینہ دکھ جائے گا۔  


اپ اپنے احباب سے ان کے بارے میں، اس خاص کے بارے میں باتیں کرتے ہیں یہ کیا ہے؟


 impact of being unmarried, sex is not all about that... Sex is all about in our minds.


دماغ سے ہی ایک سگنل جاتا ہے کہ آپ کو کچھ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تکمیلِ شہوت کے اور بھی راستے ہیں، وِداؤٹ ڈُوانْگْ ڈَیٹ اور یہ سب تخیلات، حرکتِ ید، چیٹنگ، Ai بیوی کی تلاش؛ یہ سب کچھ اسی کنویں کا پانی ہے جس کی سطحِ اول مزعومہ محبت ہے۔ 


ہمیں چاہیے کہ ہم کنواں بدلیں، محبت کی تلاش حقیقی ہمسفر (بیوی) میں کریں، جو ہمیں اپنے مذہب کے ساتھ ، جو اپنے اللہ کے ساتھ جوڑے رکھیں۔ 


اس کنویں کی خصائل ہیں کہ اگر آپ پہلے سے اس کنویں کا خالص پانی پیتے ہیں تو آپ کو محبت اور راحت ہی ملے گئی، مگر آپ اگر وہاں سے آ رہے ہیں تو وقتی تکلیفات اس کی پہلی لیول ہے پھر۔۔۔ پر سکون زندگی پھر جنت پھر دیدارِ خالق۔ سمجھیں اشارہ اور کریں فہمائش، بچائیں اپنی اور اپنوں کی زندگیاں کو۔


تجزیہ و تبصرہ : ماجد کشمیری

کشمیر میں اضمحلالِ علما

0

کشمیر میں اضمحلالِ علما


 

 

اس عنوان کے تحت بتلایا گیا کہ علماءِ کشمیر نے فہمائش نہیں کی ان کی جو غیر متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والے تھے جیسے ہائر سیکنڈری کے طلبہ کو۔ 


کیا حقیقت ہے اس کی؟ 


علما ابدی طور پر کوشاں ہے کہ عوام الناس سمجھیں، اس کے لیے انہوں مدراس یہاں تک کہ مشترکہ تعلیمی ادارے (combined study platforms) قائم کیے۔


مزید انہوں نے یونی ورسٹیوں میں بھی اسلامک سٹڈیز اور عربک ڈیپارٹمنٹ قائم کیے تاکہ بنادی معلومات حاصل ہو جائے۔


 پھر بھی جب عامت الناس مطمئن نہیں ہوئے تو آن لائن درسیات کا آغاز کیا ، یہ قدم خطرے سے خالی نہیں تھا پرنتو پھر بھی افادہِ عامہ کے لیے برداشت کر رہیں ہیں۔


عام مثال سے سمجھیں۔ ڈاکٹر اگر ڈاکٹری سیکھنا چاہتا ہے تو سیدھا سرجیکل ٹھیٹر میں نہیں بٹھایا جاتا بل کہ اسے پہلے میڈیکل کالج جوائن کرنا پڑتا ہے۔ گر ہم اس کے برعکس کریں گے تو مریض شفا یاب نہیں ہونگے بل کہ ان کی لاشیں ملیں گی۔


ایسا ہی کچھ اس فیلڈ میں بھی ہوتا ہے کہ جب بغیر علم کے اترتے ہیں تو صحیح تصور اسلام کا جنازہ نکل کر بدعات کا آغاز ہوتا ہے۔ 


مشہور زمانہ ابن رشد رحمہ اللہ (Averroes): جن کے بغیر Philosophy physics mathematics & polymath نامکمل ہے، وہ کہتے ہیں: قرآن کریم پر نظر ڈالنے سے تین طرح کی آیتوں کا علم ہوتا ہے۔


 ایک خطابی: یعنی وہ آیتیں جن کا مقصد عامت الناس کی تعلیم و تفہیم ہے۔


دوسری جدلی: یعنی وہ آیتیں جو مشترکہ طور پر اکثر انسانوں کے لیے پیش کی گئی ہے۔


اور تیسری برہانی: یعنی وہ خاص طریقے جو اعلیٰ علم والوں کے لیے پیش کی گئی ہیں،


 میرے نزدیک قرونِ اولیٰ کے لوگ زیادہ دانش مند تھے جنہوں نے مذکورہ بالا طریقے پر پوری طرح عمل کیا۔ ( سائنس اردو 1998)


اب آپ کی وہ بات کہ حدیث مع سندِ صحیح کے خلاف جب فتوی ہوتا ہے تو آپ عوام کو سمجھا نہیں پاتے ہیں کہ یہ کس طرح ہے۔


اولاً وہ فتوی کیوں کر شرعی کہلائے گا جو حدیث کے خلاف ہو مگر حقیقت کچھ اور ہوتی ہے، جس کو غیر متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ایسے ہی جیسے میں ڈاکٹر ہوں تو میں کیوں کر انجینئرنگ کو سمجھ سکتا ہوں وہ بھی پریکٹس فیلڈ میں۔ حقیقتاً معاملہ یوں ہوتا ہے


1۔ وہ حدیث منسوخا خلافِ قرآن ہوگی،

2۔ اجماع کے خلاف ہوگئی،

3۔ وہ حدیث معمول بہ نہیں،

4۔ بقیہ حدیثوں پر عمل ہی نہیں ہوگا،


اور اصل مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب دلیلِ منسوخ بھی نہیں ہوتی، اور کب معمول بہ رہی ہے کب معمول بہ نہیں رہی اعنی وقتِ منسوخ مجمل ہوتا ہے۔


 جب ایک طرف احادیث ایک مسئلہ بتلاتی ہے ، طرف ثانی میں احادیث دوسرے مسئلے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ 


تب قوتِ علما جواب دیتی ہیں اور مجتہدین پر مسئلہ پڑ جاتا ہے۔ اور اختلاف واقع ہو جاتا ہے، یہ اختلاف علما (متعلقین) نہیں سمجھ پاتے غیر متعلقین کیسے سمجھیں گئے۔


اور عمیم گوشوں پر (میں نے عمیم سے کس کی طرف اشارہ کیا، وہ میں نے اوپر بھی ذکر نہیں کر پایا) قیاس، تدبر اور تفکر کر کے پھر مفتی بہ قول پر فتوی شائع ہوتا ہے اور شاذ کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ 


تمثیلًا کوئی بھی مسئلہ لیں،جیسے فاتحہ خلف الامام۔ 


حدیث آئی ہے، جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی نماز نہیں ہوگی اس کی۔ 

اب حدیث مجمل ہے: امام کا، جماعت کا ذکر نہیں۔ کیا کریں؟


 دو منٹ کے لیے مان لیا جائے انفرادی نماز کا مسئلہ ختم ہوگیا مگر جماعت کا ہنوز معلق،


قرآن نے کہا: جب قرآن پڑھا جائے خاموش رہو۔ اب آپ کو ماننا پڑے گا کہ حدیث غلط ہے یا قرآن۔


اب دیکھنا ہے اصول کیا ہے ظاہرًا قرآن کے خلاف حدیث نظر آئی، تو کیا ماننا ہوگا؟۔ 


اللہ کا کلام ماننا پڑے گا، تو لازم آئے گا انکارِ حدیث۔


قرآن کی یہ آیت نماز کے متعلق ہے؟ 

یہ حدیث جماعت کے متعلق ہے؟ 


اقوال آئیں گیے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے۔


ان کا قول لینا ہے یا نہیں؟


حدیث پیش کی گئی؛


 میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہے ان کی اتباع ضروری ہے۔ خلفاء راشدین کی اتباع کرنا میری تتبع ہے۔


اقوال آئیں، آیت نماز کے متعلق ہے، اب دلالتا حدیث قرآن کے خلاف ہوئی تو کہنا پڑھا کہ حدیث جماعت کے بارے نہیں ہے۔  


حدیث آئی : امام کی قراءت مقتدی کے لیے کافی ہے۔ 


اب ان دو حدیثوں میں بھی تضاد آیا، رفعِ تنازع کے لیے مانا ہوگا جماعت کے لیے ہے حدیث، اور اقوال آئیں یہاں بھئی! یہ حدیث جماعت کے لیے ہے۔ 


یہ میں نے ثمیل بیان کی ورنہ طرفین کے پاس اپنے اپنے دلائل ہے۔ نیز ایک ہوتا جواب دینا، ایک ہوتی ہے دلیل دینا اعنی نقص نہیں نقض کرنا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جس کو رحمت سے تعبیر کرتے ہیں۔


اور ان دلائل کو سمجھنا اور پھر اسے فیصلہ کرنا گویا شریعت کا ترجمانی ہے، اور یہ آسان کام نہیں، ان شکلوں پر قیاس کر کے نتیجہ نکالنا مجتہدین کا کام ہے اور اس قیاسیت کو سمجھنا علما کا۔ غیر متعلقین نہ سمجھ سکتے ہے نیز ان کو سمجھانا ضیاعِ وقت و محنت ہے، شائقین تلمذیت کا راستہ اختیار کرتے اعنی تدریجاً پہلے بنیادی کتابیں پڑھتے ہیں۔

تحریر: ماجد کشمیری

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں