کشمیر میں اضمحلالِ علما
اس عنوان کے تحت بتلایا گیا کہ علماءِ کشمیر نے فہمائش نہیں کی ان کی جو غیر متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والے تھے جیسے ہائر سیکنڈری کے طلبہ کو۔
کیا حقیقت ہے اس کی؟
علما ابدی طور پر کوشاں ہے کہ عوام الناس سمجھیں، اس کے لیے انہوں مدراس یہاں تک کہ مشترکہ تعلیمی ادارے (combined study platforms) قائم کیے۔
مزید انہوں نے یونی ورسٹیوں میں بھی اسلامک سٹڈیز اور عربک ڈیپارٹمنٹ قائم کیے تاکہ بنادی معلومات حاصل ہو جائے۔
پھر بھی جب عامت الناس مطمئن نہیں ہوئے تو آن لائن درسیات کا آغاز کیا ، یہ قدم خطرے سے خالی نہیں تھا پرنتو پھر بھی افادہِ عامہ کے لیے برداشت کر رہیں ہیں۔
عام مثال سے سمجھیں۔ ڈاکٹر اگر ڈاکٹری سیکھنا چاہتا ہے تو سیدھا سرجیکل ٹھیٹر میں نہیں بٹھایا جاتا بل کہ اسے پہلے میڈیکل کالج جوائن کرنا پڑتا ہے۔ گر ہم اس کے برعکس کریں گے تو مریض شفا یاب نہیں ہونگے بل کہ ان کی لاشیں ملیں گی۔
ایسا ہی کچھ اس فیلڈ میں بھی ہوتا ہے کہ جب بغیر علم کے اترتے ہیں تو صحیح تصور اسلام کا جنازہ نکل کر بدعات کا آغاز ہوتا ہے۔
مشہور زمانہ ابن رشد رحمہ اللہ (Averroes): جن کے بغیر Philosophy physics mathematics & polymath نامکمل ہے، وہ کہتے ہیں: قرآن کریم پر نظر ڈالنے سے تین طرح کی آیتوں کا علم ہوتا ہے۔
ایک خطابی: یعنی وہ آیتیں جن کا مقصد عامت الناس کی تعلیم و تفہیم ہے۔
دوسری جدلی: یعنی وہ آیتیں جو مشترکہ طور پر اکثر انسانوں کے لیے پیش کی گئی ہے۔
اور تیسری برہانی: یعنی وہ خاص طریقے جو اعلیٰ علم والوں کے لیے پیش کی گئی ہیں،
میرے نزدیک قرونِ اولیٰ کے لوگ زیادہ دانش مند تھے جنہوں نے مذکورہ بالا طریقے پر پوری طرح عمل کیا۔ ( سائنس اردو 1998)
اب آپ کی وہ بات کہ حدیث مع سندِ صحیح کے خلاف جب فتوی ہوتا ہے تو آپ عوام کو سمجھا نہیں پاتے ہیں کہ یہ کس طرح ہے۔
اولاً وہ فتوی کیوں کر شرعی کہلائے گا جو حدیث کے خلاف ہو مگر حقیقت کچھ اور ہوتی ہے، جس کو غیر متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ایسے ہی جیسے میں ڈاکٹر ہوں تو میں کیوں کر انجینئرنگ کو سمجھ سکتا ہوں وہ بھی پریکٹس فیلڈ میں۔ حقیقتاً معاملہ یوں ہوتا ہے
1۔ وہ حدیث منسوخا خلافِ قرآن ہوگی،
2۔ اجماع کے خلاف ہوگئی،
3۔ وہ حدیث معمول بہ نہیں،
4۔ بقیہ حدیثوں پر عمل ہی نہیں ہوگا،
اور اصل مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب دلیلِ منسوخ بھی نہیں ہوتی، اور کب معمول بہ رہی ہے کب معمول بہ نہیں رہی اعنی وقتِ منسوخ مجمل ہوتا ہے۔
جب ایک طرف احادیث ایک مسئلہ بتلاتی ہے ، طرف ثانی میں احادیث دوسرے مسئلے کی نشان دہی کرتے ہیں۔
تب قوتِ علما جواب دیتی ہیں اور مجتہدین پر مسئلہ پڑ جاتا ہے۔ اور اختلاف واقع ہو جاتا ہے، یہ اختلاف علما (متعلقین) نہیں سمجھ پاتے غیر متعلقین کیسے سمجھیں گئے۔
اور عمیم گوشوں پر (میں نے عمیم سے کس کی طرف اشارہ کیا، وہ میں نے اوپر بھی ذکر نہیں کر پایا) قیاس، تدبر اور تفکر کر کے پھر مفتی بہ قول پر فتوی شائع ہوتا ہے اور شاذ کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
تمثیلًا کوئی بھی مسئلہ لیں،جیسے فاتحہ خلف الامام۔
حدیث آئی ہے، جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی نماز نہیں ہوگی اس کی۔
اب حدیث مجمل ہے: امام کا، جماعت کا ذکر نہیں۔ کیا کریں؟
دو منٹ کے لیے مان لیا جائے انفرادی نماز کا مسئلہ ختم ہوگیا مگر جماعت کا ہنوز معلق،
قرآن نے کہا: جب قرآن پڑھا جائے خاموش رہو۔ اب آپ کو ماننا پڑے گا کہ حدیث غلط ہے یا قرآن۔
اب دیکھنا ہے اصول کیا ہے ظاہرًا قرآن کے خلاف حدیث نظر آئی، تو کیا ماننا ہوگا؟۔
اللہ کا کلام ماننا پڑے گا، تو لازم آئے گا انکارِ حدیث۔
قرآن کی یہ آیت نماز کے متعلق ہے؟
یہ حدیث جماعت کے متعلق ہے؟
اقوال آئیں گیے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے۔
ان کا قول لینا ہے یا نہیں؟
حدیث پیش کی گئی؛
میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہے ان کی اتباع ضروری ہے۔ خلفاء راشدین کی اتباع کرنا میری تتبع ہے۔
اقوال آئیں، آیت نماز کے متعلق ہے، اب دلالتا حدیث قرآن کے خلاف ہوئی تو کہنا پڑھا کہ حدیث جماعت کے بارے نہیں ہے۔
حدیث آئی : امام کی قراءت مقتدی کے لیے کافی ہے۔
اب ان دو حدیثوں میں بھی تضاد آیا، رفعِ تنازع کے لیے مانا ہوگا جماعت کے لیے ہے حدیث، اور اقوال آئیں یہاں بھئی! یہ حدیث جماعت کے لیے ہے۔
یہ میں نے ثمیل بیان کی ورنہ طرفین کے پاس اپنے اپنے دلائل ہے۔ نیز ایک ہوتا جواب دینا، ایک ہوتی ہے دلیل دینا اعنی نقص نہیں نقض کرنا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جس کو رحمت سے تعبیر کرتے ہیں۔
اور ان دلائل کو سمجھنا اور پھر اسے فیصلہ کرنا گویا شریعت کا ترجمانی ہے، اور یہ آسان کام نہیں، ان شکلوں پر قیاس کر کے نتیجہ نکالنا مجتہدین کا کام ہے اور اس قیاسیت کو سمجھنا علما کا۔ غیر متعلقین نہ سمجھ سکتے ہے نیز ان کو سمجھانا ضیاعِ وقت و محنت ہے، شائقین تلمذیت کا راستہ اختیار کرتے اعنی تدریجاً پہلے بنیادی کتابیں پڑھتے ہیں۔
تحریر: ماجد کشمیری