دوسروں کی تباہی کا ذریعہ مت بنیں

0

دوسروں کی تباہی کا ذریعہ مت بنیں




امابعد! لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کریں، اپنی بنیاد اتنی مضبوط کریں کہ کوئی اسے تباہ نہ کرسکے۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے اثرات سے آزاد رکھیں۔ لوگ آپ سے کہیں گے کہ پیچھے ہٹ جاؤ، ہمارا ساتھ دو، ہم اہلِ حق ہیں۔ لیکن آپ تحقیق کریں، ثبوت کے پیچھے جائیں اور حق کے متلاشی بنیں۔ جنہیں معیارِ الٰہی پر پرکھا گیا ہو، ان کی پیروی کریں۔ اپنے آپ کو دوسروں کی تباہی کا ذریعہ نہ بنائیں اور نہ دوسروں کو اپنی تباہی کا سبب بننے دیں۔ ڈریں اس قہرِ الٰہی سے، جس کی پناہ زمین و آسمان مانگتے ہیں، اور اس عذاب سے جس کے آگے قارون بھی سرِ تسلیم خم کر گیا تھا۔


جب ہم اپنی شرم و حیا کھو دیتے ہیں تو اپنی بربادی کے ساتھ دوسروں کی تباہی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ جیسے اگر کسی دریا یا نہر کے پانی کو روک دیا جائے تو وہ زرخیز زمینوں تک نہیں پہنچ سکے گا، جس سے فصلیں خراب ہو جائیں گی، کھانے کی قلت ہو جائے گی، اور معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ بعینہ، جب گناہ کیا جاتا ہے تو اس کا اثر صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب گناہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو ان کی سزا بھی شدت اختیار کر جاتی ہے۔


جہالت میں رہنا بہتر ہے بنسبت اس کے کہ انسان خود کو اَجہل بنا لے، کیونکہ کم از کم جہالت کا نقصان خود تک محدود رہتا ہے۔ لیکن اگر آپ اچھے معاشرے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں اخلاقی، فلاحی، سیاسی، اور معاشی ترقی ممکن ہو، تو ہمیں تنہائی اور خفیہ طور پر گناہوں سے بچنا ہوگا۔ اور دوسروں کو بھی گناہوں سے بچنے کی نصیحت کرنی ہوگی۔


وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين۔

اسوہِ نبوی کی ذمہ داریاں

0
اسوہِ نبوی کی ذمہ داریاں
استاذ: وہ شخص ہے جس کی پوری زندگی متعلم کے لیئے صرف ہوتی ہے۔ گر ان کا متعلم فراغت حاصل کر بھی لے تب بھی تلمذیت سے کوسوں نہیں ہوتا۔ علوم سمندر کی مانند ہے، غوطہ زن زیادہ دیر تک پانی میں نہیں رہ سکتا لیکن استاذ سمندر کا بادشاہ ہوتا ہیں۔ وہ اٹھیں تو پورا پانی ابھر کر آتا ہے۔ وہ خاموش ہو جائیں تو یہ نہ سمجھیں کہ پانی کے بہاؤ میں تغیر نہیں آسکتا، بل کہ خاموشی کے بعد کے طوفان کے آنے کی راقبیت کا موجب بنتا ہے۔ اب اس بات کو ازبر کر لیں کہ آپ استاذ کے سامنے تادیب کی جو صورت اختیار کر سکتے ہے، اس میں قالب کو ڈھالنا چاہیے۔۔۔۔
جس کا جنتا بڑا فریضہ، اس کی اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس اسوہِ نبوی کے حاملین میں اخلاقی، علمی اور حکمتی اضمحلال آیا ہے، اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، کریں تو ہر فرد کا دعویٰ اہلِ منصبِ استاذ ہونے کا عنفوان ہوگا، یہ ایسا قہر ہے، جس سے نظامی ، نصابی ،علمی اور اخلاقی اضمحلالوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، اس جنگِ جمیل سے رعایا کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو تقاضائے معلمیت نہیں ہے، بل کہ آثارِ جھل ہے۔ چوں کہ یہ ساری واردات اس جھل سے شروع ہوتی ہے، تو اولاً اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ترتیبِ صحیح پر منصب بندی کرنی چاہیے۔
یہ ہی تقاضائے تعلیماتِ نبوی ہے۔ اگر برعکس ہوا تو مذکورہ مخطورات سے دوچار ہونا ہی پڑے گا۔جو معلمین منصوب ہوئے ہیں۔ وہ اس کو قابلیتِ من نہ سمجھیں بل کہ مرتِب کا عطف سمجھیں۔
اب ان کا تذکرہ کرتے ہیں، جن سے اساتذہ کرام آمیز ہوتے ہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر، وہ مندرجہ ذیل ہے۔
یہ نہ صرف اتالیق کی کوتاہی ہے، بلکہ نظامتِ مراکز کی بھی ہے، جو نصاب اسلاف سے تواتراً رواں تھا، اس میں اتنی کمی آئی ہے۔ جس میں کچھ کا تغیر بربنائے مصلحتِ زمن ہے اور کچھ فقدانِ اہلِ مدرس ہے۔ اب جو نصاب متضمن ہے بھی، اس میں بھی اتمام نہیں ہوتا، جس سے وہ کمزوری رہتی ہے، جس کی بھرپائی ذاتی مطالعہ سے بھی رفع نہیں ہوتی ہے۔
2۔ اگر چہ وقت، جو صرف ہوتا ہے تدریس میں اس کی تنخواہ لینا جائز ہے، پر اسی کو ذریعۂ ماش بنانا اور صرف اسی غرض سے تعلیم دینا، جس کی وجہ سے روحِ علم یعنی عمل منتقل نہیں ہوتا ہے۔ اس کو اصلاح کی حاجت ہے (بل کہ سابقہ شیخ الحدیث دارالعلوم رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کی پوری تنخواہ کی مراجعت کو یقنی بنایا)
3۔ خیر استاذ کا کسی طالب علم کو ذہنی دباؤ ڈالنا یا تدریس میں نا تجربہ کار ہونے کی وجہ سے طلبہ کو محروم از تعلیم کرنا، نہ صرف نا اہلیت ہے بل کہ کسی نہ کسی حد تک گناہ بھی ہے۔
کمزور تلامیذ کا خیال نہ کرنا، یہ جان کر کہ وہ ناقابل ہے اور صرف ذہین شاگردوں کو درخورِ اعتنا رکھنا۔۔۔۔۔۔ متکلم اسلام کا اس حوالے سے فقرہ یاد آیا، فرماتے ہیں: کمزور طلبہ کو قابل بنانا ہی استاذیت کا اصل ہنر ہے۔ جس کی کمی آج پائی جاتی ہے۔( روایتِ معنوی) اصلاح کی ضرورت ہے!
سب سے زیادہ خطرہ جو تدریسی نظام کو ہوتا ہے، وہ نا اہل کا فائزِ منصب ہونا ہے، جس کے نقصانات کا تذکرہ بالا میں ہوا۔
اس نوعیت کا حامل خطرہ یہ بھی ہے کہ متعلمین، اساتذہ کی تلمذ کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے روحِ علم منتقل نہیں ہوتا اور یہ عیاں ہے کہ روح کے بغیر جسم مردہ کہلاتا ہے۔ اس لیئے طلبہ کو چاہیے کہ وہ عمل کرنے کی نیت کے ساتھ اسباق کو ازبر کریں اور فہمِ مضامین کو بھی، ورنہ جن اضمحلالوں کا نوشت کردہ میں تذکرہ ہوا وہ سرایت کرے گا۔
اب حلِ مشکل یہ ہے کہ دونوں طرف سے نیک نیتی سے حصول علم اور استاذیت کا فریضہ انجام دیں تو اسلافوں والا علم باعمل سرایت کریں گا۔ ان شاءاللہ تعالا۔
اللہ تعالا ہمیں فہمِ تقاضائے تعلیم و تعلم کی توفیق دیے۔ اور ہم سے دیں کا کام لے۔ آمین

محرر: ماجد کشمیری

حجاب حکمِ الہیٰ ہے تو بس کر لو عمل

0

 

حجاب حکمِ الہیٰ ہے تو بس کر لو عمل



حجاب خواتین کے لیئے مخصوص نہیں ہے، بل کہ حجاب اپنے آپ کو خطرات سے اور دوسروں کو بھی مخطورات سے بچانے کا نام ہے، اور خطرہ دونوں پر لائق ہوتا ہے۔ بلا تمیز الجنس، عورت کے حجاب کو مقدم اس لیئے کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ مرد کے باحجاب رہنے کے باوجود بھی اس سے بے حجاب کرتا ہے۔ اس لیئے جب بھی پردے کا تذکرہ ہوتا ہے، تب ذہن منعطف ہوتا ہے عورت کے پردے کی طرف، پر صرف اس کی طرف ذہن کا جانا اور یہ سمجھنا کہ فقط حجاب عورت کے لیئے ہے تو یہ غلط فہمی کے ورے کچھ نہیں، گر عورت کے ستر کو حجب کرنا لازم ہے، وہیں مرد کے لیے متعین جسم کا اخفا بھی لازم ہے۔ گویا نگاہوں کو نیچے کرنے کا حکم مشترک ہے، کلام میں اجنبی کے لیے مٹھاس نہ رکھنا مشترکہ طور پر حکم ہے۔ ناورا تعلقات کے سدِباب سے بھی خود کو محفوظ کرنا امرِ یکساں ہے۔عرض حجاب کرنا دونوں کے لئے لازمی ہے۔ جس سے یہ اعتراض بھی رفع ہوتا ہے کہ صرف خواتین کو حجاب کیوں ہے، جب ہے ہی نہیں مختص، بل کہ ہے مشترک، اعتراض کبھی من میں ہوتا، کبھی غیر قوم کے افراد کرتے ہے، پر بنتا نہیں ہے۔

حکمِ حجاب اور ہم: مرد کا ستر ناف کے متصل نیچے سے لے کر گھٹنے تک ہے، گھٹنے ستر میں شامل ہیں، پر اگر اسے ہی رجل ڈھانپ لیں تو عرف میں وہ ننگا ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ تقاضائے تلبیس ہے پورے، جسم کی پوشیدنی۔ بعینہ عورت کی تلبیس کا مسئلہ ہے، عورت کا پورا بدن سوائے تین اعضا کے ستر ہے، ان ہی اعضاء ثلاثہ کا حجاب ہے اجنبیوں سے ۔ ہم اس سے ہی غفلت بھرتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔

حکمِ قرآن ،اعضاء ثلاثہ پر: حجاب ہے اجانب سے ( جس میں متضمن ہے بسسبِ عافیت محارم سے بھی حجب) تو کیوں ہم اکتفا کریں ستر پر ہی، جب کہ وارد ہوا ہے قرآن مجید میں: یدنین علیهن من جلابیبهن۔ ہم سے زیادہ بہتر سمجھتے ہے قرآن مجید کو، اس کے اولین مخاطبین رضوان اللہ علیہم اجمعین، تو روایت ملتی :

 ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ جب عورتیں کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے نکلیں تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ وہ بڑی چادروں کے ذریعہ اپنے سروں کے اوپر سے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں اور محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدۃ السلمانی سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : {یدنین علیهن من جلابیبهن} کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے سر اور چہرہ کو ڈھانپ کر اور بائیں آنکھ کھول کر ا س کا مطلب بتلایا‘

یہ عہدِ صحاب کا زمانہ تھا جس میں فتنہ کا اندیشہ بہت کم ہوتا تھا، اس کے برعکس آج کے پر فتنہ درو میں خواتین اس پر عمل کرنا کی کوشش کرنی چاہیے: کہ وہ اپنی گھروں میں ہی رہیں صرف ضروریات کے لیئے مع حجاب نکالیں۔

حجاب کی ضرورت کیا ہے؟ کوہِ نور کو چھپانے کی کیا ضرورت ؟ وہیں عورت کو چھپانے کی حاجت ہے۔ میٹھائی پر احاطہ (کاور) نہ ہو تو مکھیاں اس پر حصار کر لیتی ہے۔ بعینہ عورت پردہ نہ کریں تو عریاں مرد کی خبیث نظروں کا شکار ہوتی ہے۔ شیطانی وسوسہ آ سکتا ہے کہ رجال اپنی نگاہوں کو پاک کریں تو پردے کی حاج نہیں۔ مٹھائی نہ خود اور نہ اس کا مالک اس پر مکھیاں برداشت کرسکتا ہے نہ مناسب سمجھتا ہے۔ پر برہنہ ہوگئی تو مکھیاں بیٹھ ہی جاتی ہے۔ اس سے حصارِ ناساز کے تحفظ کے لیے۔

 اسلام کی ثقافت میں مندرجہ ذیل واقعات کی نظیریں بہتات ملتی ہے جیسے: ابودائود۱ کی روایت میں ہے: ایک عورت کا لڑکا جنگ میں شہید ہوگیا، تو تحقیق کے لیے اس کی والدہ برقع کے ساتھ پورے پردے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، مجلس میں موجود صحابۂ کرام تعجب سے کہنے لگے کہ اس پریشانی میں بھی نقاب نہیں چھوڑا، صحابیہ عورت (رضی اللہ عنہا )نے جواب دیا کہ میرا بیٹا گم ہوگیا میری شرم وحیا تو نہیں گم ہوئی۔ (ابودائود۱/۳۳۷)

ان عظیم الشان ماں کی عظَمت پر فجر ہے اور سبق ہے کہ کوئی بھی حالت ہو حکمِ خداوندی کو پال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ فکر تھی انہیں اپنی آخرت کی، فکر تھی انہیں کہ کہیں میں سماج کی تباہی کا سبب نہ بن جاؤ۔ جس ماحول میں میرے اولاد پناہ گزین ہے، جس سوسائٹی میں میری بیٹی کل ان نجس و مہلک نظروں سے آتش زدہ ہوگئی۔ 

م بھی فکر و عزم کریں کہ ہم باحیا والدین اور اخلاف بنے۔ اول خویش بعد درویش، آپ حجاب کریں آپ کے ساتھ آپ کی سہیلی اور اس سے،اس کی دوشیزہ، ضرب کے عمل کے ساتھ، یہ سلسلہ کاروان بنتا چلا جائے گا۔ اور اس کے مصدر یعنی آپ کو اس کا اجر و ثواب کونین میں ملتا رہے گا، فقط آپ آغاز کریں عزمِ مصمم سے کہ اب صرف مجھے کرنا اس کارِ خیر کا عنفوان اور بن جائیں حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے ساتھ جنت کے باشندوں میں سے۔ بس عمل کے لیئے الفاظ کی ضرورت نہیں عشقِ الہیٰ اور توفیق من جانب اللہ ہونی چاہئے، چہ جائے کہ نعمت و عافیت عامیانہ حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اللہ، اس بات کو اعنی حکمِ ربی کو سمجھنے کی صلاحیت دیں، پھر اس پر مع دوام عمل کرنے کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔

ماجد ابن فاروق کشمیری


پی ڈی ایف میں حاصل کریں


فرشتے کی دو پلکوں کی مابین پانچ سو سال کی مسافت

0

 فرشتے کی دو پلکوں کی مابین پانچ سو سال کی مسافت کی حقیقت و تحقیق

السلام_علیکم_ورحمۃ_وبرکاتہ

سلسلۃ_تخریج_الاحادیث_نمبر_١٩


بسم_اللہ_الرحمن_الرحیم


أن ألله ملكأ مأبين شفري عينيه مسيرة خمس مأئة عأم۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ اتنا بڑا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے پلکوں کے مابین سو سال کی مسافت کے برابر فاصلہ ہے۔ 

اس حدیث کے بارے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :-

لم یوجد لہ اصل 

[المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع: ص:٦٧،رقم:٦٣] 

نیز امام عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ قاو قجی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ہیں۔

 [بالترتیب دیکھیں:

(کشف الخفاء ١/٢٢٨،رقم:٧٧٣.)

(اللؤلؤالمرصوع:رقم:١١١)

 ألشيخ عثمأن أبن ألمكي ألتوزري ألزبيدي يكتب في كتأبه[ ألقلأئد ألعنبرية  علي ألمنظومة ألبقونية]  


 مثأله : أن لله ملكأ مأ بين شفري عينيه مسيرة خمس مأئة عأم . قأل ألقأري : لم يوجد له أصل . ومنه : أن شيطأنأ بين ألسمأء وألأرض ، يقأل له : ألولهأن ، معه ثمأنية أمثأل ولد آدم من ألجنود وله خليفة يقأل له : خنزب ، قأل أبن ألجوزي : موضوع . أنظر : ألمصنوع في معرفة ألحديث ألموضوع ، ص 65 و 67

اسی طرح امام الغزالی نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا۔

لم ارہ بھذا اللفظ۔

[احیاء علوم الدین ص ٥٠١]

الامام ابی عبد اللہ  الحارث بن اسد المحاسبی اپنی کتاب میں اس سند کے ساتھ لکھتے ہیں:- سبق تخریجہ


حدثني يحيي بن غيلأن قأل : حدثنأ رشدين بن ألسمع ، عن أبن عبأس بن ميمون أللخمي ، عن أبي قبيل ، عن عبد ألله بن عمرو بن ألعأص ، عن ألنبي  أنه قأل : ألله عز وجل ملك مأ بين شفري عينيه مأئة عأمة .

عبد الرحیم بن الحسین العراقی المحقق نے  بھی اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے، لکھتے ہیں ۔لم ارہ بھذا اللفظ (  فی تخریج الاحیاء  ٢٧٦/٥)


لہذا اس روایت کو بطور حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان کرنا درست نہیں ہے۔


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 

سجدہ سہو کا طریقہ اور اس کے دلائل

0

سجدہ سہو کا طریقہ اور اس کے دلائل  

باب ما جاء فی سجدتی السہو  قبل السلام




عن عبد اللہ ابن بحینہ الاسدی بحینہ ان کے والد کا نام ہے (قبل اسم ابیہ) اور والد کا نام مالک ہے، لہذا عبداللہ ابن بحینہ (رضی اللہ عنہ) میں ابن کا ہمزہ لکھنا ضروری ہے، کیونکہ الف صرف اس صورت میں ساقط ہوتا ہے جبکہ علمین متناسلین کے درمیان ہو،


فلما اتم صلوتہ سجد سجدتین یکبر فی کل سجدۃ وہو جالس قبل ان یستم،  اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ سجدہ سہو سلام سے پہلے ہونا چاہئے یا بعد میں، حنفیہ کے نزدیک سجدہ سہو مطلقاً بعد السلام ہے، اور امام شافعی (رحمہ اللہ) کے نزدیک مطلقا قبل السلام،


جبکہ امام مالک ( رحمہ اللہ) کے نزدیک یہ تفصیل ہو کہ اگر سجدہ سہو نماز میں کسی نقصان کی وجہ سے واجب ہوا ہے تو سجدۂ سہو قبل السلام ہو گا، اور اگر کسی زیادتی کی وجہ سے واجب ہوا ہے تو بعد السلام ہو گا۔ ان کے مسلک کو یاد رکھنے کے لئے اس طرح تعبیر کیا جاتا ہے کہ ”القاف بالقاف والدال بالدال“ یعنی ”القبل بالنقصان والبعد بالزیادۃ " امام احمد ( رحمہ اللہ) کا مسلک یہ ہو کہ آنحضرت صلی علیہ وسلم سے سہو کی جن صورتوں میں سجود قبل السلام ثابت ہے وہاں قبل السلام پر عمل کیا جائے گا، مثلاً حدیثِ باب میں قعدہ اولیٰ کے ترک پر، اور جہاں آپ سے بعد السلام ثابت ہے، ان صورتوں میں بعد السلام پر عمل ہوگا، مثلاً چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پر سلام پھیر دینے کی صورت میں کما فی حدیث ذی الیدین ( جامع ترمذی ( ج ۱،ص ۷۸) باب ما جاء فی الرجل یسلم فی الرکعتین الظہر و العصر)  اور جن صورتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں وہاں امام شافعی ( رحمہ اللہ) کے مسلک کے مطابق قبل السلام سجود ہو گا، امام اسحق (رحمہ اللہ) کا مسلک بھی یہی ہے، البتہ جس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہ ہو وہاں وہ امام مالک ( رحمہ اللہ کے مسلک کے مطابق ”القاف بالقاف و الدال بالدال“ پر عمل کرتے ہیں ، بہر حال ائمہ ثلاثہ کسی نہ کسی صورت میں سجدہ سہو قبل السلام کے قائل ہیں، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہر صورت میں بعد السلام پر عمل کرتے ہیں، یہاں یہ ذہن میں رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل السلام اور بعد السلام دونوں طریقے ثابت ہیں، اور یہ اختلاف محض افضلیت میں ہے، ائمہ ثلاثہ کا استدلال حضرت عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیثِ باب سے ہے، جس میں آپ نے قعدہ اولیٰ چھوٹ جانے کی وجہ سے قبل اسلام سجدہ فرمایا،


اس کے برخلاف حنفیہ کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:-

۱۔  اگلے باب (باب ماجاء فی سجدتی السہو بعد السلام والکلام) میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی حدیث آرہی ہے، ”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی الظہر خمسا فقیل لہ ازید فی الصلوۃ ام نسیت فسجد سجدتین بعد ما سلم “ قال ابو عیسی ہذا حدیث حسن صحیح، 

٢.  ترمذی کے سوا تمام صحاح میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: 

 

واذا شک احدکم فی صلاتہ فلیتحرّ الصواب فلیتم علیہ ثم یسلم ثم یسجد سجدتین {( اللفظ للبخاری)  انظر الصحیح البخاری ج ۱ ص ۵۷و ۵۸ ،  کتاب الصلاۃ باب التوجہ نحو القبلۃ حیث کان، والصحیح مسلم (ج ۱ ص (۲۱۱و۲۱۲) باب السہو فی الصلوۃ والسجود لہ و السنن للنسائی (ج ۱ (ص ۱۸۴) کتاب السہو باب التحری، سنن  لابی داؤد ( ج ۱،  ۱۴۶) باب اذا اصلے خمسا و سنن لابن ماجہ (ص۸۵) باب ماجاء فیمن سجد ہما بعد السلام ۱۲رشید اشرف نفعہ اللہ بما  علمہ و علمہ ما ینفعہ،}



(۳) ابو داؤد {(ج ۱ ص۱۴۸ و ۱۴۹) باب من نسی ان یتشہد و ہو جالس} اور ابن ماجہ {(ص۸۵) باب ما جاء فیمن سجدھا بعد السلام} میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے :-  ” لکل سہو سجدتان بعد ما یسلم“ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کا مدار اسمٰعیل بن عیاش پر ہے، جو ضعیف ہے، 



اس کا جواب یہ ہے کہ اسماعیل بن عیاش حفاظِ شام میں سے ہیں، اور ان کے بارے میں پیچھے یہ قول فیصل گزر چکا ہے کہ ان کی روایات اہلِ شام سے مقبول ہیں، غیر اہلِ شام سے نہیں، اور یہ حدیث انھوں نے عبداللہ بن عبید اللہ الکلاعی سے روایت کی ہے ، جو اہلِ شام سے ہیں، لہذا یہ حدیث مقبول ہے،


(۴)  سنن نسائی {(ج ۱ ص۱ ۸۵)، باب التحری ، کتاب السہو و سنن ابو داؤد {( ج ۱ ص ۱۴۸) باب من قال بعد التسلیم)  میں حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ علیہ وسلم کی روایت مروی ہیں: ” قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شک فی صلاتہ فلیسجد سجدتین بعد ما یسلم،


(۵) ترمزی (ص(۷۳) میں پیچھے باب ماجاء فی الامام ینہض فی الرکعتین ناسیا“ کے تحت حضرت شعبی کی روایت گزر چکی ہے ، ”قال صلی بنا المغیرۃ بن شعبۃ فنہض فی الرکعتین فسبخ بہ القوم وسبح بہم فلما قضی صلوٰتہ ملم ثم سجد سجدتی السہو، وہو جالس ثم حدثہم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعل بہم مثل الذی فعل .....  اس روایت میں بھی سجدہ سہو بعد السلام کی تصریح ہے، 

(۶) حضرت ذوالیدین کے واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا عمل سجدۂ سہو بعد السلام بتلایا گیا ہے، چناں چہ اس واقعہ میں یہ الفاظ مروی ہے: فصلی اثنتین اخریین ثم سلم ثم کبر فسجد الخ { ترمذی (ج ۱ ص ۷۸) باب ما جاء فی الرجل یسلم فی الرکعتین من الظہر و العصر}

حنفیہ کے ان دلائل میں قولی احادیث بھی ہیں اور فعلی احادیث بھی، اس کے بر خلاف  ائمۂ  ثلاثہ کے پاس صرت فعلی احادیث ہیں، (جو جواز پر محمول ہیں) لہذا حنفیہ کے دلائل راجع ہوں گے ، اور حضرت عبداللہ ابن بحینہ کی حدیثِ باب کا جواب یہ ہے کہ وہ بیانِ جواز محمول ہے، نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں قبل السلام سے مراد وہ سلام ہو جو سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھ کر آخر میں کیا جاتا ہے،


”ویقول (ای الشافعی) ہذا الناسخ لغیرہ من الاحادیث و یذکر ان آخر فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان علی ہذا “ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بعد السلام کی روایات منسوخ ہیں، اور وہ اُن کے لئے حضرت عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیثِ باب کو ناسخ مانتے ہیں،


لیکن نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں اور محتاجِ دلیل ہے جبکہ یہاں کوئی دلیل نہیں، اگر چہ امام شافعی رحمہ اللہ نے نسخ کی دلیل میں امام زہری کا قول¹ نقل کیا ہے کہ سجود قبل السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل تھا“ ، لیکن امام زہری کا یہ قول منقطع ہے ، علاوہ ازیں یحییٰ ابن سعید قطان کے بیان کے مطابق امام زہری کی مراسیل شبہ لاشی²“ ہیں، لہذا اس سے نسخ پر استدلال نہیں کیا جا سکتا،

 

¹ عن الزہری قال سجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدتی السہو قبل السلام وبعدہ و آخر الامرین قبل السلام، لیکن خود علامہ ابوبکر حازمی شافعی ” کتاب الاعتبار فی بیان الناسخ والمنسوخ من الآثار“ (ص ۱۱۵) باب سجود السہو بعد السلام والاختلاف فیہ کے تحت امام زہری کے مذکورہ قول کو نقل کرنے کے بعد آگے چل کر فرماتے ہیں ”طریق الانصاف ان نقول اما حدیث الذی فیہ دلالۃ علی النسخ ففیہ انقطاع فلا یقع معارض اللاحادیث الثابتۃ واما بقیۃ الاحادیث فی الجود قبل السلام و بعدہ قولاً وفعلاً فی ان کانت ثابتۃ صحتہ فیہا نوع تعارض غیر ان تقدیم بعضہا علی بعض غیر معلوم بروایۃ موصولۃ مسحۃ والاشیہ جمل الاحادیث علی التوسع وحواز الامرین “ احقر الورٰی رشید اشرف غفر اللہ ۔۔۔۔ 


² کذا فی معارف السنن (ج ۳ ص (۴۹۱) نقد من الخطیب فی الکفایۃ ۱۲ مرتب عفی عنہ


درس ترمذی: ص۱۴۳و۱۴۶ 

للتفصيل رجوع للكتاب المذكوره

برقی جمع و ترتیب ماجد ابن فاروق کشمیری 

فرشتوں کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت میں ٹاٹ کا لباس پہنا کی حقیقت و تحقیق

1




السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر 18


ہبط علی جبریل علیہ السلام وعلیہ طنفسۃ وہو متخلل بہا فقلت : یا جبریل ! ما نزلت الی فی مثل ہذا الزی ؟ قال : ان اللہ تعالی امر الملائکۃ ان تتخلل فی السماء کتخلل ابی بکر فی الارض

ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے ) مجھ پر جبرائیل علیہ السلام اس حال میں اترے کہ وہ ٹاٹ کالباس اوڑھے ہوئے تھے ، تو میں نے کہا : ” اے جبرائیل ! تم تو پہلے بھی اس حلیہ میں نہیں اترے ؟ “ اس قسم کے لباس پہنے کی کیا خاص وجہ ہے ؟ ) تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آسان میں وہ لباس پہنیں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زمین میں پہنا ہوا ہے ۔


یہ حدیث بھی زبان زد عام ہے ، حالانکہ اس حدیث کو علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ، امام این عراق رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدثین نے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے ۔ 

[بالتریب دیکھیں: 

الآلی المؤضوعہ ١/٢٩٣

تنزیۃ الشریہ المرفوعۃ ١/٣٤٣

الفوائد المجموعۃ ص ٤١٩ : رقم الحدیث ٦/١٠٤٣]

علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :۔

 یہ حدیث ثابت آشنانی نے اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ہے اور اس حدیث گھڑنے کے ساتھ ساتھ نقلِ حدیث اور معرفتِ حدیث سے بھی جاہل تھا۔

[کتاب الموضوعات ٢/٥٥]


یہاں قارئین کے سامنے یہ وضاحت ضروری ہے کہ احادیث پر علم لگانے میں علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ وسلم کا تشدد مشہور ہے ، تاہم اس میں اس حدیث پر ان کے علم کو اصولی اور بنیادی حیثیت سے ذکر نہیں کیا گیا بلکہ ان کا قول کی تائیدی طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔ دیگر معتدل ائمہ حدیث و  اہل تحقیق کی رائے کوئی بنیاد بنا کر احادیث پر حکم لگایا گیا ہے۔

لہذا یہ حدیث موضوع ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے مستند مناقب و فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ جن میں انبیا کے علاوہ کوئی ان میں شریک نہیں۔ لہٰذا ان کے مناقب و فضائل بیان کرنے میں مستند روایات کو ہی بیان کیا جائے۔

برقی جمع و ترتیب : ماجد کشمیری 

قافلے کو دین کی دعوت دینے کے لیے سخت بارش میں جانا

0

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قافلے کو دین کی دعوت دینے کے لیے جانا کی تحقیق۔

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر 18




یہ روایت بھی عموماً بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ سخت آندھی اور گرج چمک والی رات میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہیں تشریف لے جاتے ہوئے دیکھا تو اس صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ اتنی سخت رات میں کہاں تشریف لے جار ہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ پہاڑ کے اس پار ایک قافلہ رات کے لیے ٹھہرا ہوا ہے ، اسے اپنی دعوت دینے کے لیے جا رہا ہوں ۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اتنی سخت رات میں جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تشریف لے جائیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں صبح ہونے سے پہلے یہ قافلہ چلا جائے اس لیے ابھی جارہا ہوں۔

یہ روایت تلاش بسیار کے باوجود کہیں نہیں مل سکی۔

(چند مشہور لیکن غیر مستند احادیث: از مفتی صداقت علی)

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں