ابوجہل کو دین اسلام کی دعوت سو بار دی گئی

0

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوجہل کو دین اسلام کی دعوت دینا کی تحقیق۔

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر ١٦



اس بارے میں دو روایتیں عموماً گردش کرتی ہیں۔

 ایک یہ کہ آپ نے ابوجہل کو ننانوے یا سو مرتبہ دین کی دعوت دی۔

 دوسری یہ کہ آپ نے ایک مرتبہ سخت بارش اور سردی میں ابوجہل کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ابوجہل نے کہا کہ اتنی سخت بارش اور سردی میں ضرور کوئی بہت ہی حاجت مند شخص میرے گھر کادروازہ کھٹکھٹا ہے، میں ضرور اس کی حاجت پوری کروں گا ۔ چنانچہ جب اس نے دروازہ کھولا تو آپ صلی اللہ علیہ کو سامنے کھڑا تھے لیکن ابوجہل نے پھر بھی آپ کی دعوت کوٹھکرا دیا

یہ دونوں روایتیں ذخیرۂ احادیث میں بہت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، حدیث کی انسائیکلوپیڈیا میں بھی یہ حدیث نہیں مل پائے۔اور جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ کی جانب صرف ایسا کلام و واقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے، جو معتبر سند سے ثابت ہو۔

ذیل میں زیر بحث واقعہ سے ملتی جلتی دو روایات لکھی جائیں گی،

 علامہ ابن عراق نے ”تنزیہ الشریعۃ“ میں حافظ ذہبی کے حوالے سے ٭رتن ہندی کذاب٭ کی سند سے کیا ہے، آپ لکھتے ہیں:

حدثنا رتن بن نصر بن کربال الہندی........... "قال صلی اللہ علیہ وسلم: لو ان للیہودی حاجۃ الی ابی جہل وطلب منی قضاء ہا، لترددت الی باب ابی جہل مائۃ مرۃ"[ تنزیۃ الشریہ المرفوعۃ :ص ٣٩]

       آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی یہودی کا بھی حق ابو جہل پر ہو اور وہ میرے ذریعے سے طلب کرے، تو میں ابو جہل کے دروازے پر حصول حق کے لئے سو مرتبہ بھی جاؤں گا۔


        آگے علامہ ابن عراق [لابی الحسن علی بن محمد بن عراق الکنانی] مذکورہ روایت اور اس جیسی دوسری روایت کے متعلق حافظ ذھبی کا کلام لکھتے ہیں: 

"قال الذہبی: فاظن ان ہذہ الخرافات من وضع موسی ہذا الجاہل، او وضعہا لہ من اختلق ذکر رتن، وہو شیء لم یخلق، ولئن صححنا وجودہ و ظہورہ بعد سنۃ ستمائۃ، فہو اما شیطان تبدی فی صورۃ بشر، فادعی الصحبۃ وطول العمر المفرط، وافتری ہذہ الطامات، او شیخ ضال اسس لنفسہ بیتا فی جہنم بکذبہ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم"[ تنزیۃ الشریہ المرفوعۃ:ص، ٣٩]

حافظ ذہبی بیان فرماتے ہیں: میرا گمان یہ ہے کہ یہ خرافات اس جاہل موسی [سند میں موجود راوی] نے گھڑی ہیں، یا اس شخص نے گھٹری ہے جس نے رتن کا نام ایجاد کیا ہے، اور رتن ایسی چیز ہے جو پیدا ہی نہیں ہوئی [ اس نام کے شخص کی طرف منسوب روایات خود ساختہ ہونے کے ساتھ ساتھ، یہ رتن بھی خود ساختہ فرد ہے جس کا کوئی وجود حقیقت میں نہیں ہے] اگر اس کا وجود اور چھ سو سال کے بعد اس کا ظاہر ہونا مان لیا جائے، پھر یا تو وہ شیطان تھا جو انسانی صورت میں ظاہر ہوا، اور صحابیت ، طویل عمر کا دعوی کیا اور ان بے اصل باتوں کو گھڑا، یا وہ گمراہ سٹیایا ہوا شخص تھا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بول کر اپنے لیے جہنم میں گھر بنایا۔

[سلیمان بن موسی الدمشقی الاموی پر امام بخاری کی جرح میں کفایت اللہ صاحب کا تعاقب :

امام بخاری رحمۃ اللہ نے کہا:

عندہ مناکیر (الضعفاء للبخاری: ۱۴۸)]

ان کے حوالے سے منکر روایات منقول ہیں۔

علامہ ابن ہشام نے ”السیرۃ النبویۃ" میں "محمد بن اسحاق عن عبد الملک بن عبد اللہ ثقفی" کی سند سے ایک واقعہ نقل کیا ہے: 

 ایک اراشی شخص نے ابو جہل کے ہاتھ اپنا مال فروخت کیا ابوجہل اس کا حق دینے میں ٹال مٹول کرنے لگا، وہ شخص قریش کے سرداروں کے پاس گیا اور ابو جہل کی شکایت کی، انہوں نے استہزاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ تمہارا حق دلوائے گا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور حق دلوانے کا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر ابو جہل کے دروازے پر گئے، ابو جہل باہر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اراشی کا حق دینے کے لئے کہا، وہ فور اندر گیا اور اراشی کا حق دے دیا، سرداران قریش نے ابو جہل کو اس پر ملامت کیا، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم !جب انہوں نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک رعب دار آواز آئی، جب میں باہر آیا تو سامنے ایک بڑا اونٹ کھڑا تھا، اگر میں حق دینے سے انکار کر دیتا تو وہ اونٹ مجھے کھا جاتا۔

علامہ ابن ہشام کی مذکورہ سند میں موجود راوی محمد بن اسحاق کے بارے میں حافظ ذہبی "دیوان الضعفاء“ میں لکھتے ہیں: 


”ثقۃ - ان شاء اللہ - صدوق، احتج بہ خلف من الائمۃ، ولاسیما فی المغازی..


       ان شاء اللہ ثقہ ہیں، صدوق ہیں، متقدمین ائمہ نے ان کی روایات سے استدلال کیا ہے، خاص طور پر مغاری کے باب میں ....“۔

  البتہ واضح رہے کہ بعض محدثین نے محمد بن اسحاق پر خاص جہت سے جرح بھی کی ہے.

 سند میں مذکور "عبد الملک بن عبد اللہ بن ابی سفیان ثقفی" کو حافظ ابن حبان نے '’ثقات “ میں لکھا ہے، البتہ سند منقطع ہے،


جمع و ترتیب: ماجد ابن فاروق کشمیری 

بے نمازی کی نحوست کا واقعہ، من گھڑت ہے۔

0

 بے نمازی کی نحوست کے واقعہ کی تحقیق


السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

 سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر 16





 یہ روایت بھی مشہور ہے کہ ایک صحابی  ؓ  نے حضور ﷺ گھر کی بے برکتی کی شکایت کی آپ ﷺ نے اس کو اپنے گھر پر پردہ لٹکانے  کا حکم دیا تعمیل ارشاد کے کچھ دن بعد وہ  صحابی ؓ  تشریف لائے اور انہوں نے حضور ﷺ سے فرمائے کی اس پردہ لٹکانے کے بعد میرے گھر کی بے برکتی ختم ہوگئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس راستے سے ایک بے نمازی گزرا تھا اور تمہارے گھر پر پردہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نظر تمہارے گھر کے اندر پڑجاتی تھی جس کی وجہ سے تمہارے گھر میں بے برکتی تھی۔ اب پردے کی وجہ سے اس کی نظر تمہارے گھر کے اندر پڑھنے سے رک گئی۔اس لیے بے برکتی ختم ہوگئی۔


یہ روایت بھی خود ساختہ اور من گھڑت ہے۔اس لے کہ اس مبارک اور پاکیزہ زمانے میں اس قسم کی بے نمازیوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ 


چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود  ؓ فرماتے ہیں:۔


 وَلَقَدْ رَاَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْہَا ( ای الجماعۃ) اِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ۔


[ (صحیح مسلم بحوالہ فضائل نماز ص ٥١)

(صحیح مسلم:رقم الحدیث: ٦٥٤)

( سنن النسائی : رقم الحدیث: ٨٥٠)

( سنن ابن ماجہ :  رقم الحدیث:٧٧٧)


کہ ہم تو اپنا حال یہ دیکھتے  تھے کہ جو شخص کھلم کھلا منافق ہوتا تو وہ جماعت کی نماز سے رہ جاتا ورنہ کسی کو جماعت چھوڑنے کی ہمت بھی نہ ہوتی۔

لہذا اس روایت کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(نوٹ: موضوع حدیث کی نشان دہی، اس سے ہوتی کہ وہ عقائدِ صحیحہ و صریح احادیث کے خلاف ہوتی، پش جو ہو، موضوع ہے)

جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بوڑھی عورت کی گھٹڑی اٹھانا والا واقعہ

0

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بوڑھی عورت کی گھٹڑی اٹھانا والے واقعہ کی تحقیق۔




 السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر 15


یہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی یہودی عورت سر پر گھٹڑی اٹھا کر ”مکہ مکرمہ“ سے جاری تھی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو دیکھا تو اس سے گھٹڑی لے کر خود اپنے سر پر رکھ لیا ۔ جب اسے منزل پر پہونچایا تو اس بڑھیا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کی کہ ”مکہ“ میں ایک شخص ہے جو لوگوں کو ان کے کوئی دین سے پھیر کر ایک نئے دین کی دعوت دیتا ہے اور اسی کا نام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے ۔ تم اس سے بچے رہنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میں ہی ہوں، تو وہ بڑھیا آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہو کر ایمان لے آئیں ۔


 یہ واقعہ بھی خود ساختہ ہے ۔ تخریج حدیث کے جدید مکتبہ ” الدرر السنیۃ " نے اس واقعہ کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے۔


 نیز اس قصے کے من گھڑت ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس قصے میں یہودی عورت کا واقعہ ”مکہ“ میں بیان کیا گیا ہے، حالانکہ ”مکہ مکرمہ“ میں یہود نہیں تھے وہ تو مدینہ منورہ میں آباد تھے ۔ 

(نبی کریم صلی اللہ علیہ پر بوڑھی کا کوڑا پھینکنے واقعہ) 

اس کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا پھینکتی تھی ۔۔۔۔۔۔الخ ۔اس واقعے کے تو بہت سارے طریقے مشہور ہیں۔ جو کہ من گھڑت ہے۔

اور ان دونوں واقعات کو دارالعلوم دیوبند، جامعۃ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن نے بھی من گھڑت قرار دیا ہے۔


[بالترتیب دیکھیں:

Fatwa:134-136/B=3/1439)


یہ دونوں واقعات کسی حدیث میں ہماری نظر سے نہیں گذرے کسی اچھے مورخ کی طرف رجوع فرمائیں۔)


(صورتِ مسئولہ میں جو واقعہ تعلیمی نصاب کی کتب میں منقول ہے وہ بے اصل قصہ ہے، مستند کتبِ احادیث میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا، لہذا رسولِ اَکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ بیان کرنے کے لیے ایسے من گھڑت واقعات کا سہارہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں، اور مذکورہ قصہ کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز نہیں۔)


(فتویٰ نمبر : 144004201397

دار الافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری  

لڑکی کو پیغام کیسے بھیجیں

0




اب مستر نہیں ہے یہ دینا سے کہ ہر کام کے پیچھے کرنے کا مقصد عورت کی طلب ہے۔ طلب گرچہ تھی فطرتی پر اختراعیت اور تجاوز ہر شئی کا زوال ہے اور اس سی زوال نے ہمیں پسماندگی میں دھکیل دیا جو کہ ہماری ثقافت نہ تھی۔ جب کہ ہر کام حدود کے اندر کرنا بجا ہے، تو کیوں نا طلبِ نسا کو حدود کے اندر مظہر کیا جائیں۔ 


مطلوب کی حد : انسان جب اس قابل ہو جائیں کہ تفریق مرد و زن میں کمال کو پہنچ جائیں تو جو پہلا اظہارِ محبت ہو انہیں پیغامِ نکاح بھیجیں، گر نعم ہوا، تو تکمیل از حود ہوگی، گر ناگوار انکار سنے کو مل جائیں، تو دل کو دلاسا دیں کر اللہ کہ وسیع مخلوق نسا پر پھر طبع آزمائی کریں گئیں۔ ان شاءاللہ جب تک اقرار نہ آئیں تب تلک کوشاں رہیں۔ ہاں! اسی اثنا میں جان جوان راہِ مستقیم سے ہٹ کر راہِ باطلہ کو اختیار کرتے ہیں، اعنی وہ ریلیشن شپ میں وقت ضائع کرتے ہیں، نہ صرف لمحاتِ غالی بل کہ وہ تجوید ہنر، سرمایہ کاری سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جن کے بغیر وہ نہیں ملتی۔


نفس کو درخورِ اعتنا بنائیں تاکہ انکار سننا ہی نہ پڑے، اس کے لیئے سیرت و صورت اخلاق و کردار اور حلال سرمایہ سے خود کو تزئین کریں۔ بعد ازاں آپ ایک برینڈ بن جائیں گئیں، جس کے شائقین ہوتے ہیں۔ بس پیشترِ وقت مرسل نہ بنے بل کہ بلوغ کا انتظار کریں۔ 


یہی وہ سر ہے، جس سے مفلح (کامیاب) شخصیات اپنے مستقبل کو محفوظ کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ پہ پانی ڈالنے والا پرندے کا نام

2

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ پہ پرندے کا پانی ڈالنا کی تحقیق۔


السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر ١٤



یہ روایت مشہور ہے کہ جب نمرود نے سیدنا ابراہیم علیہ السلا کو آگ میں ڈالا تو ایک پرندہ  ابابیل  اپنی  چونچ میں پانی بھر کر ان پر ڈالتا رہا تاکہ آگ بجھ جائے جبکہ گرگٹ اس آگ پر پھونک مارتا رہا تاکہ وہ آگ مزید بھڑک اٹھے ۔

 یہ روایت درست نہیں نہ ہی کسی حدیث میں اس کا ذکر ہے ۔اس کی جگہ آپ صلی اللہ سلم کی حدیث میں ابابیل کی بجائے مینڈک کا ذکر ہے اور گرگٹ کی بجائے چھپکلی کا ذکر ہے ۔

وفی مصنف عبد الرزاق: عن معمر، عن الزہری، عن عروۃ، عن عائشۃ، ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: کانت الضفدع تطفئ النار عن ابراہیم، وکان الوزغ ینفخ فیہ، فنہی عن قتل ہذا، وامر بقتل ہذا ( رقم الحدیث ٨٣٩٢)


ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ مینڈک حضرت ابراہیم علیے السلام کی آگ کو بجھاتارہ اور چھپکلی اس آگ میں پھونک پارتی رہی ۔ چنانچہ آپ نے مینڈک کومارنے سے منع فرمایا اور چھپکلی کو مارنے کاحکم دیا ۔

اس طرح بخاری شریف ، مسلم ،ترمزی،ابو داؤد، اور نسائی  میں بھی چھپکلی کا لفظ آیا ہے ۔

 النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :  لِلْوَزَغِ الْفُوَیْسِقُ وَلَمْ اَسْمَعْہُ اَمَرَ بِقَتْلِہِ وَزَعَمَ سَعْدُ بْنُ اَبِی وَقَّاصٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَرَ بِقَتْلِہِ ( بخاری :رقم الحدیث ٣٣٠٦)


عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ اَبِیہِ، اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ «اَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَسَمَّاہُ فُوَیْسِقًا( مسلم :٥٨٤٤ )

عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ،‌‌‌‏ اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:‌‌‌‏    مَنْ قَتَلَ وَزَغَۃً بِالضَّرْبَۃِ الْاُولَی،‌‌‌‏ کَانَ لَہُ کَذَا وَکَذَا حَسَنَۃً،‌‌‌‏ فَاِنْ قَتَلَہَا فِی الضَّرْبَۃِ الثَّانِیَۃِ،‌‌‌‏ کَانَ لَہُ کَذَا وَکَذَا حَسَنَۃً،‌‌‌‏ فَاِنْ قَتَلَہَا فِی الضَّرْبَۃِ الثَّالِثَۃِ،‌‌‌‏ کَانَ لَہُ کَذَا وَکَذَا حَسَنَۃً  ( ترمزی ١٤٨٢)


حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ،‌‌‌‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،‌‌‌‏ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ،‌‌‌‏ عَنْ الزُّہْرِیِّ،‌‌‌‏ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ،‌‌‌‏ عَنْ اَبِیہِ،‌‌‌‏ قَالَ:‌‌‌‏   اَمَرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ،‌‌‌‏ وَسَمَّاہُ فُوَیْسِقًا۔( سنن ابی داؤد رقم الحدیث ٥٢٦٢)


 عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ اُمِّ شَرِیکٍ قَالَتْ اَمَرَنِی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْاَوْزَاغِ (سنن النسائی رقم الحدیث ٢٨٨٨)


لہذا اس روایت میں ابابیل اور گرگٹ کو ذکر کرنا درست نہیں ۔


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 

حضرت نوح علیہ السلام سے منسوب مٹی کے کھلونے کا واقعہ

0

 حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے مٹی کے کھلونے بنانے اور بعد ازاں توڑنے کا حکم دینا کی تحقیق۔






السلام علیکم ورحمت اللہ

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر 13


” جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے قوم کے لیے بد دعا فرمائی ، جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے طوفان بھیج کر سارے نافرمانوں کو ہلاک کر دیا تو کچھ عرصہ بعد اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ مٹی کے چند کھلونے بناؤ ، حضرت نوح علیہ السلام نے تعمیل ارشاد میں مٹی کے چند کھلونے بنا لیے ، پھر اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اس کو توڑ دو تو حضرت نوح علیہ السلام نے علم خداوندی کو بجا لاتے ہوئے ان کو توڑ ڈالا ، لیکن ان کھلونوں کو توڑتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام رنجیدہ ہوئے کہ میں نے کتنی مشقت سے ان کھلونوں کو بنایا تھا اور اب ان کو توڑنے کا حکم دیا جارہا ہے ۔ ان کی اس دلی کیفیت پر اللہ تعالی نے ان کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ اے نوح ! ان معمولی بے جان کھلونوں کو توڑنے سے آپ کے دل کو آئی ٹھیس پہنچی ہے تو آپ کی پر بددعا کی وجہ سے نے جن لوگوں کو ہلاک کر ڈالا کیا مجھے اپنے ان بندوں سے محبت نہیں تھی کہ آپ نے ان کی ہلاکت کی بد دعا کی کی ؟ “

 یہ قصہ مواعظ اور بیانات میں عام طور پر بیان کیا جاتا ہے ، لیکن یہ واقعہ بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی شان کے خلاف ہے ، کیونکہ حضرات انبیا کرام علیہم السلام نے اپنی امت کے لیے بھی جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی بددعا نہیں کی بلکہ عظیم ہستیاں ہر لحظہ انسانیت کی ہدایت حریص اور ان پر مشفق اور مہربان ہوا کرتی تھیں ۔

 حضرت نوح علیہ السلام کا اپنی امت کے لیے بد دعا کرنا بھی کسی قسم کی جذباتیت کی بنا پر نہیں تھا اور نہ ہی اپنے امت کے سینکڑوں سالوں کے اعراض و تکذیب اور مسلسل انکار سے تنگ آ کر اگر انہوں نے بد دعا کی تھی ، بلکہ ان کی بددعا کے پیچھے بھی ان لوگوں کے لیے شفقت اور مہربانی کا جذبہ کار فرما تھا جو ایمان قبول کر چکے تھے ، کہ یا الہ ! یہ کفار اگر زندہ رہیں گے تو یہ ان لوگوں کو گمراہ کر دیں گے جو ایمان قبول کر چکے ہیں ۔

چنانچہ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کی بد دعا کی یہ غرض مذکور ہے ۔ اللہ تعالی حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ کی حکایت کے طور پر ارشاد فرماتے ہیں :۔

وَقالَ نوحٌ رَبِّ لا تَذَر عَلَى الأَرضِ مِنَ الكافِرينَ دَيّارًا . إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا .[٢٧/٢٦]

ترجمہ:اور نوح نے کہا اے میرے رب ! زمین پر ان کافروں میں سے کوئی رہنے والا نہ چھوڑ۔


صاحب معارف القرآن اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔

وقال نوح رب لاتذر…: یہاں سے نوح ؑ کی دعا کا بقیہ حصہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوح ؑ کو کیسے سے معلوم ہوا کہ اگر یہ لوگ زندہ رہے تو ان کی پشت سے کافر ہی پیدا ہوں گے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ بات ؓ نے خود نوح ؑ کو بتا ید تھی کہ آپ کی قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے علاوہ اب کوئی شخص ایمان قبول نہیں کرے گا۔ 

(دیکھیے ہود : ٣٦ اس آیت کریمہ کو بھی ملاحظہ فرمائیں:)

وأوحِيَ إِلى نوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤمِنَ مِن قَومِكَ إِلّا مَن قَد آمَنَ فَلا تَبتَئِس بِما كانوا يَفعَلونَ۔

ترجمہ:اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ تیری قوم میں سے کوئی ہرگز ایمان نہیں لائے گا مگر جو ایمان لا چکا، پس تو اس پر غمگین نہ ہو جو وہ کرتے رہے ہیں۔)

  یہ بات معلوم ہونے کے بعد نوح ؑ نے دعا کی کہ یا اللہ ! زمین پر ان کافروں میں سے ایک ”’ یار“ بھی باقی نہ چھوڑو۔ ”’ یارا“ ’ فیعال“ کے وزن پر ہے، یہ ”’ دار یدور دوراً“ (گھومنا) سے ہو تو معنی ہوگا، ایک پھرنے والا بھی نہ چھوڑ اور اگر ”’ دار“ (گھر) سے مشتق ہو تو معنی ہے، گھر میں بسنے والا ایک فرد بھی باقی نہ چھوڑ۔

 بلکہ مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ علیہ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی بددعا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالی کی طرف سے حکم دیا گیا تھا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

قلت: وإن كان لم يؤمر بالدعاء نصا فقد قيل له: أنه لن يؤمن من قومك إلا من قد آمن. فأعلم عواقبهم فدعا عليهم بالهلاك؛ كما دعا نبينا ﷺ على شيبة وعتبة ونظرائهم فقال: " اللهم عليك بهم " لما أعلم عواقبهم؛ وعلى هذا يكون فيه معنى الأمر بالدعاء. والله أعلم.([71:26] - نوح - القرطبي)

ترجمہ : ” اگر چہ نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کے لیے بددعا کا علم صراحتا تو نہیں دیا گیا تھا ، البتہ ان سے یہ کہا گیا کہ آپ کی قوم میں سے اب کوئی بھی ہرگز ایمان نہیں لائے گا سوائے ان کے جو ایمان لا چکے ہیں ۔ تو اس آیت سے ان کو اپنی قوم کا انجام معلوم ہو چکا تھا تب انہوں نے ان کے لیے ہلاکت کی بددعا کی ۔ جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ نے عقبہ و شیبہ کا انجام معلوم ہو جانے پر ان کے لیے بددعا فرمائی تھی،

تو اس طرح ( اگر چہ حضرت نوح علیہ السلام کو صراحتا تو دعا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا لیکن ) معنوی طور پر ان کو دعا کرنا کا حکم دیا گیا تھا ۔ “

 لہذا اسی روایات بیان کری کی طرح سے بھی درست نہیں ، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کی بددعا پر کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا تھا ۔ (چند معروف لیکن غیر مستند احادیث) 

جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 

حضرت ایوب علیہ السلام کے بیماری کی روایت کی تحقیق .

0

حضرت ایوب علیہ السلام کے بیماری کی روایت کی تحقیق .



السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر ١٢


حضرت ایوب علیہ السلام اللہ تعالی کے برگزیدہ پیغمبر تھے ، جن کے اوپر بطور آزمائش ایک لمبے عرصے تک پیاری آئی تھی ۔ ان کی بیماری کے واقعے میں عموماً یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ اس بیماری سے ان کا بدن گل سڑ گیا تھا اور ان کے مبارک جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے کہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ کہ اگر کوئی کیڑا ان کے بدن سے گر جاتا تو وہ ان کو اٹھا کر دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ دیتے۔

انبیاء کرام علیہم السلام کے متعلق اس قسم کی روایات سے قبل یہ اصول زہن نشین کر لینا چاہیے کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر صحت و مرض کے حالات آتے رہے ہیں ، تاہم اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیھم السلام کو ہراس بیماری اور عیب سے محفوظ رکھا ہے جس سے لوگ کین یا کراہت محسوس کریں ، اور اس کی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا مقصد بعثت لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلانا اور ان میں رہتے ہوئے ، ان کو حق بات کی تلقین کرتے رہتا تھا ، جب کہ اس قسم کی باریاں لوگوں کے تنفر اور دوری کا باعث ہیں ، نیز اس قسم کی بیماریاں لوگوں میں تنفر اور دوری کا باعث ہیں نیز اس قسم کی بیماری شانِ  نبوت منصبِ نبوت  کے بھی منافی ہے ۔چنانچہ حضرت مفتی شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں :۔

 بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصے پر پھوڑے نکل آئے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو ایک کوڑی پر ڈال دیا تھا لیکن بعض محققین مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء کرام علیھم السّلام پر بیماریاں تو سکتی ہیں ، لیکن انہیں ایسی بیماری میں مبتلا نہیں کیا جاتا ، جن سے لوگ گھن کرنے  لگیں ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی بماری بھی اسی نہیں ہوسکتی ، بلکہ یہ کوئی عام قسم کی پیاری تھی ، لہذا وہ آثار جن میں حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف پھوڑے پھنسیوں کی نسبت کی گئی ہے یا جن میں کہا گیا ہے کہ آپ کو کوڑی پر ڈال دیا گیا تھا۔

 روایۃ اور درایۃ قابلِ اعتماد نہیں ہیں ۔ [معارف القرآن جلد ٧/٥٢٢ ] 

نیز جمہور متعلقین مثلاً حافظ ابن حجر، علامہ آلوسی نے بھی حضرت ایوب علیہ السلام کی باری کی تفصیل والی روایت کی صحت سے انکا کیا ہے اور اس کو انبیاء کا علیھم السّلام اکی وجاہت (جو کہ بہت کا خاصہ ہے ) کے منافی قرار دی اہے ۔

تفصیل کے لیے دیکھیں:


 فتح الباری : جلد ٦/٢٢٦

 ۔ روح المعانی : جلد ٢٣/٢٠٨) ۔

 الاسرائیلیات واثرہا فی کتب الحدیث : ص ۳۳۳۰ ، ۳۳٤ -

 تفسیر المراغی : ۲۳ / ١٢٥

 ۔ فتاوی حقانیہ : ۲/۱٥۳ 

۔

الغرض امراض کا عارض ہوتا ہے بیشک انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ بھی پیش آتا رہا ہے لیکن صرف اس حد تک کہ وہ لوگوں کے لیے باعثِ نفرت اور سببِ تکدر نہ ہو اور نہ ہی وہ عیب کے درجے میں ہو ، لہذا حضرت ایوب علیہ السلام پر اللہ تعالی کی طرف سے بیماری یا تکلیف تو یقیناً آئی تھی ، لیکن اس کی تفصیل بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔


مزید اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کےلیے نیچے والے مسیج کو مطالعہ فرما لیں ۔


وَاَیّوبَ اِذ نادی رَبَّہُ اَنّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنتَ اَرحَمُ الرّاحِمینَ ﴾ [21:83] - الانبیاء

ترجمہ:

اور ایوب کو جس وقت پکارا اس نے اپنے رب کو کہ مجھ پر پڑی ہے تکلیف اور تو ہے سب رحم والوں سے رحم والا

تفسیر:

خلاصہ تفسیر 

اور ایوب (علیہ السلام کے قصے کا تذکرہ کیجئے جب کہ انہوں نے (مرض شدید میں مبتلا ہونے کے بعد) اپنے رب کو پکارا کہ مجھ کو یہ تکلیف پہنچ رہی ہے اور آپ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہیں (تو اپنی مہربانی سے میری یہ تکلیف دور کر دیجئے) تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو جو تکلیف تھی اس کو دور کردیا اور (بغیر ان کی درخواست کے) ہم نے ان کا کنبہ (یعنی اولاد جو ان سے غائب ہوگئے تھے (قالہ الحسن کذا فی الدار المنثور) یا مر گئے تھے (کما قال غیرہ) عطا فرمایا (اس طرح سے کہ وہ اس کے پاس آگئے یا بایں معنی کہ اتنے ہی اور پیدا ہوگئے، قالہ عکرمہ کما فی فتح المنان) اور ان کے ساتھ (گنتی میں) ان کے برابر اور بھی (دیئے، یعنی جتنی اولاد پہلے تھی اس کے برابر اور بھی دے دیے خواہ خود اپنی صلب سے یا اولاد کی اولاد ہونے کی حیثیت سے) (کذا فی فتح المنان من کتاب ایوب) اپنی رحمت خاصہ کے سبب سے اور عبادت کرنے والوں کے لئے ایک یادگار رہنے کے سبب سے۔

معارف و مسائل 

قصہ ایوب ؑ

حضرت ایوب ؑ کے قصہ میں اسرائیلی روایات بڑی طویل ہیں، ان میں سے جن کو حضرات محدثین نے تاریخی درجہ میں قابل اعتماد سمجھا ہے وہ نقل کی جاتی ہیں۔ قرآن کریم سے تو صرف اتنی بات ثابت ہے کہ ان کو کوئی شدید مرض پیش آیا جس پر وہ صبر کرتے رہے بالآخر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس سے نجات ملی اور یہ کہ اس بیماری کے زمانے میں ان کی اولاد اور احباب سب غائب ہوگئے خواہ موت کی وجہ سے یا کسی دوسری وجہ سے، پھر حق تعالیٰ نے ان کو صحت و عافیت دی اور جتنی اولاد تھی وہ سب ان کو دے دی بلکہ اتنی ہی اور بھی زیادہ دیدی، باقی حصے کے اجزاء بعض تو مستند احادیث میں موجود ہیں اور زیادہ تر تاریخی روایات ہیں حافظ ابن کثیر نے اس قصے کی تفصیل یہ لکھی ہے کہ

ایوب ؑ کو حق تعالیٰ نے ابتداء میں مال و دولت اور جائیداد اور شاندار مکانات اور سواریاں اور اولاد اور حشم و خدم بہت کچھ عطا فرمایا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبرانہ آزمائش میں مبتلا کیا یہ سب چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور بدن میں بھی ایسی سخت بیماری لگ گئی جیسے جذام ہوتا ہے کہ بدن کا کوئی حصہ بجز زبان اور قلب کے اس بیماری سے نہ بچا وہ اس حالت میں زبان و قلب کو اللہ کی یاد میں مشغول رکھتے اور شکر ادا کرتے رہتے تھے۔ اس شدید بیماری کی وجہ سے سب عزیزوں، دوستوں اور پڑوسیوں نے ان کو الگ کر کے آبادی سے باہر ایک کوڑا کچرہ ڈالنے کی جگہ پر ڈال دیا۔ کوئی ان کے پاس نہ جاتا تھا صرف ان کی بیوی ان کی خبر گیری کرتی تھی جو حضرت یوسف ؑ کی بیٹی یا پوتی تھی جس کا نام لیّا بنت میشا ابن یوسف ؑ بتلایا جاتا ہے (ابن کثیر) مال و جائیداد تو سب ختم ہوچکا تھا ان کی زوجہ محترمہ محنت مزدوری کر کے اپنے اور ان کے لئے رزق اور ضروریات فراہم کرتی اور ان کی خدمت کرتی تھیں۔ ایوب ؑ کا یہ ابتلاء و امتحان کوئی حیرت و تعجب کی چیز نہیں، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الصالحون ثم الامثل فالامثل، یعنی سب سے زیادہ سخت بلائیں اور آزمائشیں انبیاء (علیہم السلام) کو پیش آتی ہیں ان کے بعد دوسرے صالحین کو درجہ بدرجہ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہر انسان کا ابتلاء اور آزمائش اس کی دینی صلابت اور مضبوطی کے اندازے پر ہوتا ہے جو دین میں جتنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے اتنی اس کی آزمائش و ابتلاء زیادہ ہوتی ہے (تاکہ اسی مقدار سے اس کے درجات اللہ کے نزدیک بلند ہوں) حضرت ایوب ؑ کو حق تعالیٰ نے زمرہ انبیاء (علیہم السلام) میں دینی صلابت اور صبر کا ایک امتیازی مقام عطا فرمایا تھا (جیسے داؤد ؑ کو شکر کا ایسا ہی امتیاز دیا گیا تھا) مصائب و شدائد پر صبر میں حضرت ایوب ؑ ضرب المثل ہیں۔ یزید بن میسرہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایوب ؑ کو مال و اولاد وغیرہ سب دنیا کی نعمتوں سے خالی کر کے آزمائش فرمائی تو انہوں نے فارغ ہو کر اللہ کی یاد اور عبادت میں اور زیادہ محنت شروع کردی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے مال جائیداد اور دولت دنیا اور اولاد عطا فرمائی جس کی محبت میرے دل کے ایک ایک جزء پر چھا گئی پھر اس پر بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے ان سب چیزوں سے فارغ اور خالی کردیا اور اب میرے اور آپ کے درمیان حائل ہونے والی کوئی چیز باقی نہ رہی۔

حافظ ابن کثیر یہ مذکورہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ وہب بن منبہ سے اس قصہ میں بڑی طویل روایات منقول ہیں جن میں غرابت پائی جاتی ہے اور طویل ہیں اس لئے ہم نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔

حضرت ایوب ؑ کی دعا صبر کے خلاف نہیں

حضرت ایوب ؑ اس شدید بلاء میں کہ سب مال و جائیداد اور دولت و دنیا سے الگ ہو کر ایسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہوئے کہ لوگ پاس آتے ہوئے گھبرائیں، بستی سے باہر ایک کوڑے کچرے کی جگہ پر سات سال چند ماہ پڑے رہے کبھی جزع و فزع یا شکایت کا کوئی کلمہ زبان پر نہیں آیا۔ نیک بی بی لیّا زوجہ محترمہ نے عرض بھی کیا کہ آپ کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ تکلیف دور ہوجائے تو فرمایا کہ میں نے ستر سال صحیح تندرست اللہ کی بیشمار نعمت و دولت میں گزارے ہیں کیا اس کے مقابلے میں سات سال بھی مصیبت کے گزرنے مشکل ہیں۔ پیغمبرانہ عزم و ضبط اور صبر و ثبات کا یہ عالم تھا کہ دعا کرنے کی بھی ہمت نہ کرتے تھے کہ کہیں صبر کے خلاف نہ ہوجائے (حالانکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور اپنی احتیاج و تکلیف پیش کرنا بےصبری میں داخل نہیں) بالآخر کوئی ایسا سبب پیش آیا جس نے ان کو دعا کرنے پر مجبور کردیا اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے یہ دعا دعا ہی تھی کوئی بےصبری نہیں تھی حق تعالیٰ نے ان کے کمال صبر پر اپنے کلام میں مہر ثبت فرما دی ہے فرمایا اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا اس سبب کے بیان میں روایات بہت مختلف اور طویل ہیں اس لئے ان کو چھوڑا جاتا ہے۔

ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کیا ہے کہ (جب ایوب ؑ کی دعا قبول ہوئی اور ان کو حکم ہوا کہ زمین پر ایڑ لگائیے یہاں سے صاف پانی کا چشمہ پھوٹے گا اس سے غسل کیجئے اور اس کا پانی پیجئے تو یہ سارا روگ چلا جائے گا۔ حضرت ایوب نے اس کے مطابق کیا تمام بدن جو زخموں سے چور تھا اور بجز ہڈیوں کے کچھ نہ رہا تھا اس چشمہ کے پانی سے غسل کرتے ہی سارا بدن کھال اور بال یکایک اپنی اصلی حالت پر آگئے تو) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کا ایک لباس بھیج دیا وہ زیب تن فرمایا اور اس کوڑے کچرے سے الگ ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ گئے۔ زوجہ محترمہ حسب عادت ان کی خبر گیری کے لئے آئی تو ان کو اپنی جگہ پر نہ پا کر رونے لگی۔ ایوب ؑ جو ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو نہیں پہچانا کہ حالت بدل چکی تھی، انہیں سے پوچھا کہ اے خدا کے بندے (کیا تمہیں معلوم ہے کہ) وہ بیمار مبتلا جو یہاں پڑا رہتا تھا کہاں چلا گیا، کیا کتوں یا بھیڑیوں نے اسے کھالیا ؟ اور کچھ دیر تک اس معاملے میں ان سے گفتگو کرتی رہی۔ یہ سب سن کر ایوب ؑ نے ان کو بتلایا کہ میں ہی ایوب ہوں مگر زوجہ محترمہ نے اب تک بھی نہیں پہچانا۔ کہنے لگی اللہ کے بندے کیا آپ میرے ساتھ تمسخر کرتے ہیں تو ایوب ؑ نے پھر فرمایا کہ غور کرو میں ہی ایوب ہوں اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرما لی اور میرا بدن ازسرنو درست فرما دیا۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کا مال و دولت بھی ان کو واپس دے دیا اور اولاد بھی، اور اولاد کی تعداد کے برابر مزید اولاد بھی دے دی (ابن کثیر)

ابن مسعود نے فرمایا کہ حضرت ایوب ؑ کے سات لڑکے سات لڑکیاں تھیں اس ابتلاء کے زمانے میں یہ سب مر گئے تھے، جب اللہ نے ان کو عافیت دی تو ان کو بھی دوبارہ زندہ کردیا اور ان کی اہلیہ سے نئی اولاد بھی اتنی ہی اور پیدا ہوگئی جس کو قرآن میں وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ فرمایا ہے۔ ثعلبی نے کہا کہ یہ قول ظاہر آیت قرآن کے ساتھ اقرب ہے۔ (قرطبی)


بعض حضرات نے فرمایا کہ نئی اولاد خود اپنے سے اتنی ہی مل گئی جتنی پہلے تھی اور ان کے مثل اولاد سے مراد اولاد کی اولاد ہے۔ واللہ اعلم

ترجمہ:اور یاد کر ہمارے بندے ایوب کو جب اس نے پکارا اپنے رب کو کہ مجھ کو لگا دی شیطان نے ایذا اور تکلیف۔

خلاصہ تفسیر 

اور آپ ہمارے بندہ ایوب ؑ کو یاد کیجئے جبکہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے۔ اور یہ رنج و آزار بعض مفسرین کے مطابق وہ ہے جو امام احمد نے کتاب الزہد میں ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت ایوب ؑ کی بیماری کے زمانے میں ایک بار شیطان ایک طبیب کی شکل میں حضرت ایوب کی بیوی کو ملا تھا۔ اسے انہوں نے طبیب سمجھ کر علاج کی درخواست کی، اس نے کہا اس شرط سے کہ اگر ان کو شفا ہوجائے تو یوں کہہ دینا کہ تو نے ان کو شفا دی، میں اور کچھ نذرانہ نہیں چاہتا۔ انہوں نے ایوب ؑ سے ذکر کیا، انہوں نے فرمایا کہ بھلی مانس وہ تو شیطان تھا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو شفا دے دے تو میں تجھ کو سو قمچیاں ماروں گا۔ پس آپ کو سخت رنج پہنچا اس سے کہ میری بیماری کی بدولت شیطان کا یہاں تک حوصلہ بڑھا کہ خاص میری بیوی سے ایسے کلمات کہلوانا چاہتا ہے۔ جو ظاہراً موجب شرک ہیں۔ گو تاویل سے شرک نہ ہوں اگرچہ حضرت ایوب ازالہ مرض کے لئے پہلے بھی دعا کرچکے تھے۔ مگر اس واقعہ سے اور زیادہ ابہال اور تضرع سے دعا کی، پس ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور حکم دیا کہ) اپنا پاؤں (زمین پر) مارو۔ (چنانچہ انہوں نے زمین پر پاؤں مارا تو وہاں سے ایک چشمہ پیدا ہوگیا۔ (رواہ احمد) 

پس ہم نے ان سے کہا کہ۔ یہ (تمہارے لئے) نہانے کا ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کا۔ (یعنی اس میں غسل کرو اور پیو بھی۔ چناچہ نہائے اور پیا بھی، اور بالکل اچھے ہوگئے) اور ہم نے ان کو ان کا کنبہ عطا فرمایا اور ان کے ساتھ (گنتی میں) ان کے برابر اور بھی (دیئے) اپنی رحمت خاصہ کے سبب سے اور اہل عقل کے لئے یادگار رہنے کے سبب سے (یعنی اہل عقل یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ صابروں کو کیسی جزا دیتے ہیں اور اب ایوب ؑ نے اپنی قسم پوری کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر چونکہ ان کی بیوی نے ایوب ؑ کی خدمت بہت کی تھی۔ اور ان سے کوئی گناہ بھی صادر نہ ہوا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کے لئے ایک تخفیف فرمائی) اور (ارشاد فرمایا کہ اے ایوب) تم اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا سینکوں کا لو (جس میں سو سینکیں ہوں) اور (اپنی بیوی کو) اس سے مار لو اور (اپنی) قسم نہ توڑو (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آگے ایوب ؑ کی تعریف کی ہے کہ) بیشک ہم نے ان کو (بڑا) صابر پایا، اچھے بندے تھے کہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہوتے تھے۔

معارف و مسائل 

حضرت ایوب ؑ کا واقعہ یہاں آنحضرت محمد ﷺ کو صبر کی تلقین کرنے کے لئے لایا گیا ہے یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ انبیاء میں گزر چکا ہے، یہاں چند باتیں قابل ذکر ہیں۔

مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ۔ (شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے) بعض حضرات نے شیطان کے رنج و آزار پہنچانے کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت ایوب ؑ جس بیماری میں مبتلا ہوئے وہ شیطان کے تسلط کی وجہ سے آئی تھی۔ اور ہوا یہ تھا کہ ایک مرتبہ فرشتوں نے حضرت ایوب ؑ کی بہت تعریف کی جس پر شیطان کو سخت حسد ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ان کے جسم اور مال واولاد پر ایسا تسلط عطا کردیا جائے جس سے میں ان کے ساتھ جو چاہوں سو کروں، اللہ تعالیٰ کو بھی حضرت ایوب ؑ کی آزمائش مقصود تھی، اس لئے شیطان کو یہ حق دے دیا گیا اور اس نے آپ کو اس بیماری میں مبتلا کردیا۔

لیکن محقق مفسرین نے اس قصے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق انبیاء ؑ پر شیطان کو تسلط حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے آپ کو بیمار ڈال دیا ہو۔ 

بعض حضرات نے شیطان کے رنج وآزار پہنچانے کی یہ تشریح کی ہے کہ بیماری کی حالت میں شیطان حضرت ایوب ؑ کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالا کرتا تھا، اس سے آپ کو اور زیادہ تکلیف ہوتی تھی، یہاں آپ نے اسی کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن اس آیت کی سب سے بہتر تشریح وہ ہے جو حضرت تھانوی نے بیان القرآن میں اختیار کی ہے اور جو خلاصہ تفسیر میں اوپر لکھی گئی ہے۔ 


حضرت ایوب کے مرض کی نوعیت۔


قرآن کریم میں اتنا تو بتایا گیا ہے کہ حضرت ایوب ؑ کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا، لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آنحضرت محمد ﷺ سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصے پر پھوڑے نکل آئے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو ایک کوڑی پر ڈال دیا تھا۔ لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر بیماریاں تو آسکتی ہیں، لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلا نہیں کیا جاتا جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔ حضرت ایوب ؑ کی بیماری بھی ایسی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ کوئی عام قسم کی بیماری تھی، لہٰذا وہ آثار جن میں حضرت ایوب ؑ کی طرف پھوڑے پھنسیوں کی نسبت کی گئی ہے یا جن میں کہا گیا ہے کہ آپ کو کوڑی پر ڈال دیا گیا تھا، روایۃً ودرایۃً قابل اعتماد نہیں ہیں۔

(مخلص از روح المعانی و احکام القرآن)


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 


© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں