حضرت ایوب علیہ السلام کے بیماری کی روایت کی تحقیق .

0

حضرت ایوب علیہ السلام کے بیماری کی روایت کی تحقیق .



السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر ١٢


حضرت ایوب علیہ السلام اللہ تعالی کے برگزیدہ پیغمبر تھے ، جن کے اوپر بطور آزمائش ایک لمبے عرصے تک پیاری آئی تھی ۔ ان کی بیماری کے واقعے میں عموماً یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ اس بیماری سے ان کا بدن گل سڑ گیا تھا اور ان کے مبارک جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے کہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ کہ اگر کوئی کیڑا ان کے بدن سے گر جاتا تو وہ ان کو اٹھا کر دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ دیتے۔

انبیاء کرام علیہم السلام کے متعلق اس قسم کی روایات سے قبل یہ اصول زہن نشین کر لینا چاہیے کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر صحت و مرض کے حالات آتے رہے ہیں ، تاہم اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیھم السلام کو ہراس بیماری اور عیب سے محفوظ رکھا ہے جس سے لوگ کین یا کراہت محسوس کریں ، اور اس کی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا مقصد بعثت لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلانا اور ان میں رہتے ہوئے ، ان کو حق بات کی تلقین کرتے رہتا تھا ، جب کہ اس قسم کی باریاں لوگوں کے تنفر اور دوری کا باعث ہیں ، نیز اس قسم کی بیماریاں لوگوں میں تنفر اور دوری کا باعث ہیں نیز اس قسم کی بیماری شانِ  نبوت منصبِ نبوت  کے بھی منافی ہے ۔چنانچہ حضرت مفتی شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں :۔

 بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصے پر پھوڑے نکل آئے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو ایک کوڑی پر ڈال دیا تھا لیکن بعض محققین مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء کرام علیھم السّلام پر بیماریاں تو سکتی ہیں ، لیکن انہیں ایسی بیماری میں مبتلا نہیں کیا جاتا ، جن سے لوگ گھن کرنے  لگیں ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی بماری بھی اسی نہیں ہوسکتی ، بلکہ یہ کوئی عام قسم کی پیاری تھی ، لہذا وہ آثار جن میں حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف پھوڑے پھنسیوں کی نسبت کی گئی ہے یا جن میں کہا گیا ہے کہ آپ کو کوڑی پر ڈال دیا گیا تھا۔

 روایۃ اور درایۃ قابلِ اعتماد نہیں ہیں ۔ [معارف القرآن جلد ٧/٥٢٢ ] 

نیز جمہور متعلقین مثلاً حافظ ابن حجر، علامہ آلوسی نے بھی حضرت ایوب علیہ السلام کی باری کی تفصیل والی روایت کی صحت سے انکا کیا ہے اور اس کو انبیاء کا علیھم السّلام اکی وجاہت (جو کہ بہت کا خاصہ ہے ) کے منافی قرار دی اہے ۔

تفصیل کے لیے دیکھیں:


 فتح الباری : جلد ٦/٢٢٦

 ۔ روح المعانی : جلد ٢٣/٢٠٨) ۔

 الاسرائیلیات واثرہا فی کتب الحدیث : ص ۳۳۳۰ ، ۳۳٤ -

 تفسیر المراغی : ۲۳ / ١٢٥

 ۔ فتاوی حقانیہ : ۲/۱٥۳ 

۔

الغرض امراض کا عارض ہوتا ہے بیشک انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ بھی پیش آتا رہا ہے لیکن صرف اس حد تک کہ وہ لوگوں کے لیے باعثِ نفرت اور سببِ تکدر نہ ہو اور نہ ہی وہ عیب کے درجے میں ہو ، لہذا حضرت ایوب علیہ السلام پر اللہ تعالی کی طرف سے بیماری یا تکلیف تو یقیناً آئی تھی ، لیکن اس کی تفصیل بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔


مزید اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کےلیے نیچے والے مسیج کو مطالعہ فرما لیں ۔


وَاَیّوبَ اِذ نادی رَبَّہُ اَنّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنتَ اَرحَمُ الرّاحِمینَ ﴾ [21:83] - الانبیاء

ترجمہ:

اور ایوب کو جس وقت پکارا اس نے اپنے رب کو کہ مجھ پر پڑی ہے تکلیف اور تو ہے سب رحم والوں سے رحم والا

تفسیر:

خلاصہ تفسیر 

اور ایوب (علیہ السلام کے قصے کا تذکرہ کیجئے جب کہ انہوں نے (مرض شدید میں مبتلا ہونے کے بعد) اپنے رب کو پکارا کہ مجھ کو یہ تکلیف پہنچ رہی ہے اور آپ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہیں (تو اپنی مہربانی سے میری یہ تکلیف دور کر دیجئے) تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو جو تکلیف تھی اس کو دور کردیا اور (بغیر ان کی درخواست کے) ہم نے ان کا کنبہ (یعنی اولاد جو ان سے غائب ہوگئے تھے (قالہ الحسن کذا فی الدار المنثور) یا مر گئے تھے (کما قال غیرہ) عطا فرمایا (اس طرح سے کہ وہ اس کے پاس آگئے یا بایں معنی کہ اتنے ہی اور پیدا ہوگئے، قالہ عکرمہ کما فی فتح المنان) اور ان کے ساتھ (گنتی میں) ان کے برابر اور بھی (دیئے، یعنی جتنی اولاد پہلے تھی اس کے برابر اور بھی دے دیے خواہ خود اپنی صلب سے یا اولاد کی اولاد ہونے کی حیثیت سے) (کذا فی فتح المنان من کتاب ایوب) اپنی رحمت خاصہ کے سبب سے اور عبادت کرنے والوں کے لئے ایک یادگار رہنے کے سبب سے۔

معارف و مسائل 

قصہ ایوب ؑ

حضرت ایوب ؑ کے قصہ میں اسرائیلی روایات بڑی طویل ہیں، ان میں سے جن کو حضرات محدثین نے تاریخی درجہ میں قابل اعتماد سمجھا ہے وہ نقل کی جاتی ہیں۔ قرآن کریم سے تو صرف اتنی بات ثابت ہے کہ ان کو کوئی شدید مرض پیش آیا جس پر وہ صبر کرتے رہے بالآخر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس سے نجات ملی اور یہ کہ اس بیماری کے زمانے میں ان کی اولاد اور احباب سب غائب ہوگئے خواہ موت کی وجہ سے یا کسی دوسری وجہ سے، پھر حق تعالیٰ نے ان کو صحت و عافیت دی اور جتنی اولاد تھی وہ سب ان کو دے دی بلکہ اتنی ہی اور بھی زیادہ دیدی، باقی حصے کے اجزاء بعض تو مستند احادیث میں موجود ہیں اور زیادہ تر تاریخی روایات ہیں حافظ ابن کثیر نے اس قصے کی تفصیل یہ لکھی ہے کہ

ایوب ؑ کو حق تعالیٰ نے ابتداء میں مال و دولت اور جائیداد اور شاندار مکانات اور سواریاں اور اولاد اور حشم و خدم بہت کچھ عطا فرمایا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبرانہ آزمائش میں مبتلا کیا یہ سب چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور بدن میں بھی ایسی سخت بیماری لگ گئی جیسے جذام ہوتا ہے کہ بدن کا کوئی حصہ بجز زبان اور قلب کے اس بیماری سے نہ بچا وہ اس حالت میں زبان و قلب کو اللہ کی یاد میں مشغول رکھتے اور شکر ادا کرتے رہتے تھے۔ اس شدید بیماری کی وجہ سے سب عزیزوں، دوستوں اور پڑوسیوں نے ان کو الگ کر کے آبادی سے باہر ایک کوڑا کچرہ ڈالنے کی جگہ پر ڈال دیا۔ کوئی ان کے پاس نہ جاتا تھا صرف ان کی بیوی ان کی خبر گیری کرتی تھی جو حضرت یوسف ؑ کی بیٹی یا پوتی تھی جس کا نام لیّا بنت میشا ابن یوسف ؑ بتلایا جاتا ہے (ابن کثیر) مال و جائیداد تو سب ختم ہوچکا تھا ان کی زوجہ محترمہ محنت مزدوری کر کے اپنے اور ان کے لئے رزق اور ضروریات فراہم کرتی اور ان کی خدمت کرتی تھیں۔ ایوب ؑ کا یہ ابتلاء و امتحان کوئی حیرت و تعجب کی چیز نہیں، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الصالحون ثم الامثل فالامثل، یعنی سب سے زیادہ سخت بلائیں اور آزمائشیں انبیاء (علیہم السلام) کو پیش آتی ہیں ان کے بعد دوسرے صالحین کو درجہ بدرجہ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہر انسان کا ابتلاء اور آزمائش اس کی دینی صلابت اور مضبوطی کے اندازے پر ہوتا ہے جو دین میں جتنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے اتنی اس کی آزمائش و ابتلاء زیادہ ہوتی ہے (تاکہ اسی مقدار سے اس کے درجات اللہ کے نزدیک بلند ہوں) حضرت ایوب ؑ کو حق تعالیٰ نے زمرہ انبیاء (علیہم السلام) میں دینی صلابت اور صبر کا ایک امتیازی مقام عطا فرمایا تھا (جیسے داؤد ؑ کو شکر کا ایسا ہی امتیاز دیا گیا تھا) مصائب و شدائد پر صبر میں حضرت ایوب ؑ ضرب المثل ہیں۔ یزید بن میسرہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایوب ؑ کو مال و اولاد وغیرہ سب دنیا کی نعمتوں سے خالی کر کے آزمائش فرمائی تو انہوں نے فارغ ہو کر اللہ کی یاد اور عبادت میں اور زیادہ محنت شروع کردی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے مال جائیداد اور دولت دنیا اور اولاد عطا فرمائی جس کی محبت میرے دل کے ایک ایک جزء پر چھا گئی پھر اس پر بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے ان سب چیزوں سے فارغ اور خالی کردیا اور اب میرے اور آپ کے درمیان حائل ہونے والی کوئی چیز باقی نہ رہی۔

حافظ ابن کثیر یہ مذکورہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ وہب بن منبہ سے اس قصہ میں بڑی طویل روایات منقول ہیں جن میں غرابت پائی جاتی ہے اور طویل ہیں اس لئے ہم نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔

حضرت ایوب ؑ کی دعا صبر کے خلاف نہیں

حضرت ایوب ؑ اس شدید بلاء میں کہ سب مال و جائیداد اور دولت و دنیا سے الگ ہو کر ایسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہوئے کہ لوگ پاس آتے ہوئے گھبرائیں، بستی سے باہر ایک کوڑے کچرے کی جگہ پر سات سال چند ماہ پڑے رہے کبھی جزع و فزع یا شکایت کا کوئی کلمہ زبان پر نہیں آیا۔ نیک بی بی لیّا زوجہ محترمہ نے عرض بھی کیا کہ آپ کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ تکلیف دور ہوجائے تو فرمایا کہ میں نے ستر سال صحیح تندرست اللہ کی بیشمار نعمت و دولت میں گزارے ہیں کیا اس کے مقابلے میں سات سال بھی مصیبت کے گزرنے مشکل ہیں۔ پیغمبرانہ عزم و ضبط اور صبر و ثبات کا یہ عالم تھا کہ دعا کرنے کی بھی ہمت نہ کرتے تھے کہ کہیں صبر کے خلاف نہ ہوجائے (حالانکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور اپنی احتیاج و تکلیف پیش کرنا بےصبری میں داخل نہیں) بالآخر کوئی ایسا سبب پیش آیا جس نے ان کو دعا کرنے پر مجبور کردیا اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے یہ دعا دعا ہی تھی کوئی بےصبری نہیں تھی حق تعالیٰ نے ان کے کمال صبر پر اپنے کلام میں مہر ثبت فرما دی ہے فرمایا اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا اس سبب کے بیان میں روایات بہت مختلف اور طویل ہیں اس لئے ان کو چھوڑا جاتا ہے۔

ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کیا ہے کہ (جب ایوب ؑ کی دعا قبول ہوئی اور ان کو حکم ہوا کہ زمین پر ایڑ لگائیے یہاں سے صاف پانی کا چشمہ پھوٹے گا اس سے غسل کیجئے اور اس کا پانی پیجئے تو یہ سارا روگ چلا جائے گا۔ حضرت ایوب نے اس کے مطابق کیا تمام بدن جو زخموں سے چور تھا اور بجز ہڈیوں کے کچھ نہ رہا تھا اس چشمہ کے پانی سے غسل کرتے ہی سارا بدن کھال اور بال یکایک اپنی اصلی حالت پر آگئے تو) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کا ایک لباس بھیج دیا وہ زیب تن فرمایا اور اس کوڑے کچرے سے الگ ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ گئے۔ زوجہ محترمہ حسب عادت ان کی خبر گیری کے لئے آئی تو ان کو اپنی جگہ پر نہ پا کر رونے لگی۔ ایوب ؑ جو ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو نہیں پہچانا کہ حالت بدل چکی تھی، انہیں سے پوچھا کہ اے خدا کے بندے (کیا تمہیں معلوم ہے کہ) وہ بیمار مبتلا جو یہاں پڑا رہتا تھا کہاں چلا گیا، کیا کتوں یا بھیڑیوں نے اسے کھالیا ؟ اور کچھ دیر تک اس معاملے میں ان سے گفتگو کرتی رہی۔ یہ سب سن کر ایوب ؑ نے ان کو بتلایا کہ میں ہی ایوب ہوں مگر زوجہ محترمہ نے اب تک بھی نہیں پہچانا۔ کہنے لگی اللہ کے بندے کیا آپ میرے ساتھ تمسخر کرتے ہیں تو ایوب ؑ نے پھر فرمایا کہ غور کرو میں ہی ایوب ہوں اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرما لی اور میرا بدن ازسرنو درست فرما دیا۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کا مال و دولت بھی ان کو واپس دے دیا اور اولاد بھی، اور اولاد کی تعداد کے برابر مزید اولاد بھی دے دی (ابن کثیر)

ابن مسعود نے فرمایا کہ حضرت ایوب ؑ کے سات لڑکے سات لڑکیاں تھیں اس ابتلاء کے زمانے میں یہ سب مر گئے تھے، جب اللہ نے ان کو عافیت دی تو ان کو بھی دوبارہ زندہ کردیا اور ان کی اہلیہ سے نئی اولاد بھی اتنی ہی اور پیدا ہوگئی جس کو قرآن میں وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ فرمایا ہے۔ ثعلبی نے کہا کہ یہ قول ظاہر آیت قرآن کے ساتھ اقرب ہے۔ (قرطبی)


بعض حضرات نے فرمایا کہ نئی اولاد خود اپنے سے اتنی ہی مل گئی جتنی پہلے تھی اور ان کے مثل اولاد سے مراد اولاد کی اولاد ہے۔ واللہ اعلم

ترجمہ:اور یاد کر ہمارے بندے ایوب کو جب اس نے پکارا اپنے رب کو کہ مجھ کو لگا دی شیطان نے ایذا اور تکلیف۔

خلاصہ تفسیر 

اور آپ ہمارے بندہ ایوب ؑ کو یاد کیجئے جبکہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے۔ اور یہ رنج و آزار بعض مفسرین کے مطابق وہ ہے جو امام احمد نے کتاب الزہد میں ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت ایوب ؑ کی بیماری کے زمانے میں ایک بار شیطان ایک طبیب کی شکل میں حضرت ایوب کی بیوی کو ملا تھا۔ اسے انہوں نے طبیب سمجھ کر علاج کی درخواست کی، اس نے کہا اس شرط سے کہ اگر ان کو شفا ہوجائے تو یوں کہہ دینا کہ تو نے ان کو شفا دی، میں اور کچھ نذرانہ نہیں چاہتا۔ انہوں نے ایوب ؑ سے ذکر کیا، انہوں نے فرمایا کہ بھلی مانس وہ تو شیطان تھا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو شفا دے دے تو میں تجھ کو سو قمچیاں ماروں گا۔ پس آپ کو سخت رنج پہنچا اس سے کہ میری بیماری کی بدولت شیطان کا یہاں تک حوصلہ بڑھا کہ خاص میری بیوی سے ایسے کلمات کہلوانا چاہتا ہے۔ جو ظاہراً موجب شرک ہیں۔ گو تاویل سے شرک نہ ہوں اگرچہ حضرت ایوب ازالہ مرض کے لئے پہلے بھی دعا کرچکے تھے۔ مگر اس واقعہ سے اور زیادہ ابہال اور تضرع سے دعا کی، پس ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور حکم دیا کہ) اپنا پاؤں (زمین پر) مارو۔ (چنانچہ انہوں نے زمین پر پاؤں مارا تو وہاں سے ایک چشمہ پیدا ہوگیا۔ (رواہ احمد) 

پس ہم نے ان سے کہا کہ۔ یہ (تمہارے لئے) نہانے کا ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کا۔ (یعنی اس میں غسل کرو اور پیو بھی۔ چناچہ نہائے اور پیا بھی، اور بالکل اچھے ہوگئے) اور ہم نے ان کو ان کا کنبہ عطا فرمایا اور ان کے ساتھ (گنتی میں) ان کے برابر اور بھی (دیئے) اپنی رحمت خاصہ کے سبب سے اور اہل عقل کے لئے یادگار رہنے کے سبب سے (یعنی اہل عقل یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ صابروں کو کیسی جزا دیتے ہیں اور اب ایوب ؑ نے اپنی قسم پوری کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر چونکہ ان کی بیوی نے ایوب ؑ کی خدمت بہت کی تھی۔ اور ان سے کوئی گناہ بھی صادر نہ ہوا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کے لئے ایک تخفیف فرمائی) اور (ارشاد فرمایا کہ اے ایوب) تم اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا سینکوں کا لو (جس میں سو سینکیں ہوں) اور (اپنی بیوی کو) اس سے مار لو اور (اپنی) قسم نہ توڑو (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آگے ایوب ؑ کی تعریف کی ہے کہ) بیشک ہم نے ان کو (بڑا) صابر پایا، اچھے بندے تھے کہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہوتے تھے۔

معارف و مسائل 

حضرت ایوب ؑ کا واقعہ یہاں آنحضرت محمد ﷺ کو صبر کی تلقین کرنے کے لئے لایا گیا ہے یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ انبیاء میں گزر چکا ہے، یہاں چند باتیں قابل ذکر ہیں۔

مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ۔ (شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے) بعض حضرات نے شیطان کے رنج و آزار پہنچانے کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت ایوب ؑ جس بیماری میں مبتلا ہوئے وہ شیطان کے تسلط کی وجہ سے آئی تھی۔ اور ہوا یہ تھا کہ ایک مرتبہ فرشتوں نے حضرت ایوب ؑ کی بہت تعریف کی جس پر شیطان کو سخت حسد ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ان کے جسم اور مال واولاد پر ایسا تسلط عطا کردیا جائے جس سے میں ان کے ساتھ جو چاہوں سو کروں، اللہ تعالیٰ کو بھی حضرت ایوب ؑ کی آزمائش مقصود تھی، اس لئے شیطان کو یہ حق دے دیا گیا اور اس نے آپ کو اس بیماری میں مبتلا کردیا۔

لیکن محقق مفسرین نے اس قصے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق انبیاء ؑ پر شیطان کو تسلط حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے آپ کو بیمار ڈال دیا ہو۔ 

بعض حضرات نے شیطان کے رنج وآزار پہنچانے کی یہ تشریح کی ہے کہ بیماری کی حالت میں شیطان حضرت ایوب ؑ کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالا کرتا تھا، اس سے آپ کو اور زیادہ تکلیف ہوتی تھی، یہاں آپ نے اسی کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن اس آیت کی سب سے بہتر تشریح وہ ہے جو حضرت تھانوی نے بیان القرآن میں اختیار کی ہے اور جو خلاصہ تفسیر میں اوپر لکھی گئی ہے۔ 


حضرت ایوب کے مرض کی نوعیت۔


قرآن کریم میں اتنا تو بتایا گیا ہے کہ حضرت ایوب ؑ کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا، لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آنحضرت محمد ﷺ سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصے پر پھوڑے نکل آئے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو ایک کوڑی پر ڈال دیا تھا۔ لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر بیماریاں تو آسکتی ہیں، لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلا نہیں کیا جاتا جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔ حضرت ایوب ؑ کی بیماری بھی ایسی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ کوئی عام قسم کی بیماری تھی، لہٰذا وہ آثار جن میں حضرت ایوب ؑ کی طرف پھوڑے پھنسیوں کی نسبت کی گئی ہے یا جن میں کہا گیا ہے کہ آپ کو کوڑی پر ڈال دیا گیا تھا، روایۃً ودرایۃً قابل اعتماد نہیں ہیں۔

(مخلص از روح المعانی و احکام القرآن)


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 


0

درسگاہ خلفائے راشدین چولگام از مکتبِ ہواند

اہتمام کندہ ماجد کشمیری 

سوال نمبر 1 : فرائض وضو کی تعریف لکھیں اور مستحباتِ وضو کتنے ہیں۔


سوال نمبر 2: غسل میں سنت کا کیا حکم ہے، نیز غسل کی کتنی سنتیں ہیں؟


سؤال نمبر 3: نواقضِ وضو سے کیا مراد ہے اور ان کی تعداد کتنی ہے؟ 


سوال نمبر 4: نواقضِ وضو اور مکروہاتِ وضو قلم بند کریں؟ 


سوال نمبر 5 : فرائض غسل کتنے ہیں اور کیا کیا ہے۔


ایک لفظ میں جواب لکھیں 


سوال نمبر 6: اگر بدن کے کسی جگہ سے خون یا پیپ آئیں تو وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟


سوال نمبر 7:  وضو میں مسواک کرنا فرض ہے؟


سؤال نمبر 8 : دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا؟ 


سوال نمبر 9: غسل میں زیادہ پانی استعمال کرنا؟ 


سوال نمبر 10: وضو یا غسل میں خلافِ سنت کام کرنا کیسا ہے۔


موت کے وقت کلمہ زبان پر جاری نہ ہونا

2


سوال :ایک


واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک صحابی حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کی موت کے وقت ان کی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہو رہا تھا تو آپ علیہ السلام نے ان کی ماں کو بلوا کر دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ وہ ماں کا نافرمان ہے اور ماں اسکو معاف کرنے پر راضی نہیں، لیکن جب آپ علیہ السلام نے اسکو جلانے کا کہا تو ماں نے معاف کردیا …کیا یہ واقعہ درست ہے؟

الجواب باسمہ تعالی

یہ روایت اگر چہ امام احمد رحمہ اللہ نے ابتداء اپنی کتاب “مسند احمد”  میں ذکر کی لیکن بعد میں اس روایت کو اپنی کتاب سے نکال دیا کیوں کہ اس کی سند انتہائی کمزور ہے.


ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ: ﻭﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺑﻲ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻫﺎﺭﻭﻥ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﻳﻘﻮﻝ:‏ ﺟﺎﺀ ﺭﺟﻞ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ! ﺇﻥ ﻫﺎﻫﻨﺎ ﻏﻼﻣﺎً ﻗﺪ ﺍﺣﺘﻀﺮ؛ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ: ﻗﻞ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ، ﻓﻼ ﻳﺴﺘﻄﻴﻊ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻟﻬﺎ. ﻗﺎﻝ: ﺃﻟﻴﺲ ﻗﺪ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻟﻬﺎ ﻓﻲ ﺣﻴﺎﺗﻪ؟ ﻗﺎﻝ: ﺑﻠﻰ، ﻗﺎﻝ: ﻓﻤﺎ ﻣﻨﻌﻪ ﻣﻨﻬﺎ ﻋﻨﺪ ﻣﻮﺗﻪ؟ (ﻓﺬﻛﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺑﻄﻮﻟﻪ) ﻟﻢ ﻳﺤﺪﺙ ﺃﺑﻲ ﺑﻬﺬﻳﻦ ﺍﻟﺤﺪﻳﺜﻴﻦ (ﺣﺪﻳﺜﻴﻦ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﺎﺋﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ) ﺿﺮﺏ ﻋﻠﻴﻬﻤﺎ ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺑﻪ؛ ﻷﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﺮﺽ ﺣﺪﻳﺚ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻭﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪﻩ ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ… ﺍﻧﺘﻬﻰ ﺍﻟﻨﻘﻞ ﻣﻦ “ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ”…

ﻭﺃﻣﺎ ﺑﻘﻴﺔ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻛﻤﺎ ﺟﺎﺀﺕ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺼﺎﺩﺭ ﺍﻷﺧﺮﻯ ﺍﻟﺘﻲ ﺫﻛﺮﺗﻪ، ﻓﻬﻲ ﻛﺎﻟﺘﺎﻟﻲ:

ﻗﺎﻝ: ‏ﻓﻨﻬﺾ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻧﻬﻀﻨﺎ ﻣﻌﻪ ﺣﺘﻰ ﺃﺗﻰ ﺍﻟﻐﻼﻡ ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﻏﻼﻡ! ﻗﻞ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ. ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺃﺳﺘﻄﻴﻊ ﺃﻥ ﺃﻗﻮﻟﻬﺎ، ﻗﺎﻝ: ﻭﻟﻢ؟ ﻗﺎﻝ: ﻟﻌﻘﻮﻕ ﻭﺍﻟﺪﺗﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺣﻴﺔ ﻫﻲ؟ ﻗﺎﻝ: ﻧﻌﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺭﺳﻠﻮﺍ ﺇﻟﻴﻬﺎ، ﻓﺄﺭﺳﻠﻮﺍ ﺇﻟﻴﻬﺎ؛ ﻓﺠﺎﺀﺕ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻬﺎ النبی ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺍﺑﻨﻚ ﻫﻮ؟ ﻗﺎﻟﺖ: ﻧﻌﻢ. ﻗﺎﻝ: ﺃﺭﺃﻳﺖ ﻟﻮ ﺃﻥ ﻧﺎﺭﺍً ﺃﺟﺠﺖ؛ ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻚ: ﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﺸﻔﻌﻲ ﻟﻪ ﻗﺬﻓﻨﺎﻩ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻨﺎﺭ. ﻗﺎﻟﺖ: ﺇﺫﻥ ﻛﻨﺖ ﺃﺷﻔﻊ ﻟﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺄﺷﻬﺪﻱ ﺍﻟﻠﻪ، ﻭﺃﺷﻬﺪﻳﻨﺎ ﻣﻌﻚ ﺑﺄﻧﻚ ﻗﺪ ﺭﺿﻴﺖ. ﻗﺎﻟﺖ: ﻗﺪ ﺭﺿﻴﺖ ﻋﻦ ﺍﺑﻨﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻳﺎ ﻏﻼﻡ! ﻗﻞ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ. ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ. ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺍﻟﺬﻱ ﺃﻧﻘﺬﻩ ﻣﻦ ﺍﻟﻨﺎﺭ‏.

اس روایت کو نقل کرنے والے دیگر محدثین کرام:

١ . امام عقیلی: ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺍﻟﻌﻘﻴﻠﻲ ﻓﻲ “ﺍﻟﻀﻌﻔﺎﺀ ﺍﻟﻜﺒﻴﺮ” ‏3/461

٢ . ابن جوزی: ﻭﻣﻦ ﻃﺮﻳﻘﻪ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺠﻮﺯﻱ ﻓﻲ “ﺍﻟﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ” 3/87

٣ . طبرانی: ﻭﻋﺰﺍﻩ ﻏﻴﺮ ﻭﺍﺣﺪ ﻟﻠﻄﺒﺮﺍﻧﻲ.

٤ . خرائطی: ﻭﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺨﺮﺍﺋﻄﻲ ﻓﻲ “ﻣﺴﺎﻭﺉ ﺍﻷﺧﻼﻕ” ﺭﻗﻢ:251

٥ . بیہقی: ﻭﺍﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻓﻲ “ﺷﻌﺐ ﺍﻹﻳﻤﺎﻥ”6/197 ﻭﻓﻲ “ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﺓ” 6/205

٦ . قزوینی: ﻭﺍﻟﻘﺰﻭﻳﻨﻲ ﻓﻲ “ﺍﻟﺘﺪﻭﻳﻦ ﻓﻲ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﻗﺰﻭﻳﻦ” 2/369

ان تمام محدثین نے اس روایت کو فائد بن عبد الرحمن کی سند سے نقل کیا ہے.

ﺟﻤﻴﻌﻬﻢ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ.

فائدبن عبدالرحمن  اس راوی کے بارے میں محدثین کرام کے اقوال:

١.  امام احمد کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے.

ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﻤﺪ: ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ

٢.  ابن معین کہتے ہیں کہ یہ کسی قابل نہیں۔

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲﺀ

٣.  ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے کہ یہ گیا گذرا راوی ہے،  اس کی روایات نہ لکھی جائیں،  ابن ابی اوفی سے اس کی نقل کردہ روایات باطل ہیں جن کی کوئی اصل نہیں۔۔۔۔ اگر اس کی روایات کے جھوٹ ہونے پر قسم کھائی جائے تو غلط نہ ہوگا۔

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻰ ﻳﻘﻮﻝ: ﻓﺎﺋﺪ ﺫﺍﻫﺐ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ، ﻭﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﻮﺍﻃﻴﻞ ﻻ ﺗﻜﺎﺩ ﺗﺮﻯ ﻟﻬﺎ ﺃﺻﻼ، ﻛﺄﻧﻪ ﻻ ﻳﺸﺒﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ، ﻭﻟﻮ ﺃﻥ ﺭﺟﻼ ﺣﻠﻒ ﺃﻥ ﻋﺎﻣﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻛﺬﺏ ﻟﻢ ﻳﺤﻨﺚ.

٤ . امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ:  ﻣﻨﻜﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ. ﺍﻧﻈﺮ: “ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﺘﻬﺬﻳﺐ” 8/256

٥. ابن حبان نے ان کی روایات کو ناقابل اعتماد قرار دیا.

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ: ﻛﺎﻥ ﻣﻤﻦ ﻳﺮﻭﻯ ﺍﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﺸﺎﻫﻴﺮ، ﻭﻳﺄﺗﻲ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﺎﻟﻤﻌﻀﻼﺕ، ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺍﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ. [“ﺍﻟﻤﺠﺮﻭﺣﻴﻦ” ‏(2/203)]

٦. امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ ابن ابی اوفی سے من گھڑت روایات نقل کرتا ہے۔

ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﺎﻛﻢ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ: ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ. (ﺍﻟﻤﺪﺧﻞ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ:‏155)

خلاصہ کلام

اس روایت کی اسنادی حیثیت انتہائی کمزور اور ناقابل اعتبار ہے،  لہذا اس واقعے کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا یا اسکو بیان کرنا درست نہیں.


واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبد الباقی اخونزادہ


دارالعلوم دیوبند و بنوریہ ٹاون سے بھی یہی حکم صادر کیا ہے۔ 

اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے میں یا دین، یا قرآن

0

 اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے میں یا دین؟




السلام علیکم ورحمت اللہ 

 سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر ۱١

 حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا کہ اللہ کو آپ زیادہ محبوب ہیں یا عرش ؟آپ نے فرمایا کہ میں۔ پھر سوال کیا کہ اللہ کو میں زیادہ محبوب ہوں یا آپ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو میں زیادہ محبوب ہوں۔ پھر پوچھا کہ اللہ کو آپ زیادہ محبوب ہیں یا دین؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دین“کیونکہ دین کی خاطر مجھے بھیجا گیا  اور دین کی خاطر سارے انبیاء نے تکلیف برداشت کی ہے۔

یہ حدیث بیانات وغیرہ میں کثرت سے بیان کی جاتی ہے ، بہت تلاش کے باوجود اس کی بنیاد یا اس کے اصل ماخذ کا پتہ نہ چل سکا ، از اختلف دار الافتاء سے اس روایت کے سلسلے میں رجوع کیا گیا توان کی طرف سے اس حدیث کے ثبوت کی نفی کی گئی ، چنانچہ ہفت روزہ ضرب مومن “ کے شرعی مسائل میں اس حدیث کی صحت کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو اس کا جواب " دار الافتاء والارشاد کراچی کی طرف سے یوں دیاگیا ہے ۔ یہ بات ہم نے حدیث کی کتابوں میں کہیں نہیں پڑھی اور نہ ہی کسی معتمد عالم دین سے کیا ہے ، اس مضمون سے ملتی جلتی کوئی حدیث بھی ہماری نظر سے نہیں گزری ، اس لیے اس بات کو بطور حدیث بیان کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ اس کا معتبر حوالہ پیش کرے ، بغیر معتبر حوالہ کے ہرگز اس کو آگے بیان نہ کرے ۔

[آپ کے مسائل کا حل،مندرجہ ضرب مؤمن ،جلد ١٧،شمارہ ٢،جمعہ ٧ تا جمعرات ١٣ صفر ١٤٣٤ء]

اسی طرح دارالعلوم دیوبند سے جاری ہونے والے جدید فتاوی جات میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے :۔ ہماری نظر سے ایسی کوئی حدیث نہیں گزری ۔

[دار الافتاء دیوبند (جواب نمبر: 31553 28-Aug-2020)]

فتویٰ دیکھیں 



لہذا اس حدیث کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے

جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 

بچے کا نام محمد رکھنا کی نیت کرنے سے لڑکا پیدا ہونے کی تحقیق۔

0

 بچے کا نام محمد رکھنا کی نیت کرنے سے لڑکا پیدا ہونے کی تحقیق۔

    السلام  علیکم  ورحمۃ  وبرکاتہ

    سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر  ١٠

ما من مسلم دنا من زوجتہ وہو ینوی ان حبلت منہ ان یسمی محمدا الا رزقہ اللہ ولدا ذکرا۔۔۔

ترجمہ : جو مسلمان اپنی بیوی سے صحبت کرے اور یہ نیت کرے کہ اگر اس محبت سے حمل ٹہر گیا ، تو اس کا نام محمد رکھے گا ، تو اللہ تعالی اس کو نرینہ اولاد عطا فرمائیں گے ۔

اس روایت کو ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ محمد بن خلیل القاء قجی الطرابلسی رحمۃ اللہ علیہ  نے موضوع قرار دیا ہے.

[ بالترتیب دیکھیں:

 الموضوع  الکبیری:ص ٣١، رقم ١١٩٣ 

اللؤلؤ المرصوع : ص ١٦٤ رقم ٤٨٨]

حافظ ذہنی  رحمۃ اللہ علیہ  اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :۔ 

حدیث موضوع وسندہ مظلم [ تنزیۃ الشریہ الموفوعۃ، ١/١٧٤]


 نیز علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد

 لا یصح [اللالی المصنوعۃ ١/١٠٦]

 یعنی یہ حدیث  نہیں ہے.

واضح رہے  کہ ایسی کتب جن میں مصنفین نے صرف موضوع یا ضعیف روایات جمع کرنے کا التزام کیا ہو ، ان میں جب کسی حدیث پر لا یصح کا حکم لگایا جاتا ہے ، تو ہاں  صحیح سے مراد اصطلاحی صحیح نہیں ہوتا ، جو کہ حسن اور ضیف کے مقابلے میں آتا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی طرف صحیح نہیں اور یہ حدیث موضوع ہے ۔ اور عصر حاضر کے محقق عالم و محدث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے  ہیں :۔

فقولہم فی الحدیث ”لا یصح “ او " لایثبت “ او ” لم یصح او لم یثبت “ او ” او  یثبت “ او  لیس  بصحیح  او لیس الثابت"  غیر ثابت او لا یثبت فیہ شی ونحو ہذہ التعابیر ، اذا قالوہ فی کتب الضعفاء او الموضوعات فالمراد بہ ان الحدیث المذکور موضوع ، لا یتصف بشیء من الصحۃ ( مقدمۃ ، المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع ، رقم : ۲۷ ، ص : ۳۵)

 ترجمہ : محدثین کا کسی حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ " یہ صحیح نہیں ہے یا ثابت نہیں ہے " ( اس سے کتے جلتے الفاظ ) جب کسی حدیث کے بارے میں محدثین یہ الفاظ ضعیف یا موضوع روایات پر مشتمل کتابوں میں استعمال کریں ، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث من گھڑت ہے اور اس میں صحت کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ 

لہذا علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا مندرجہ بالا حدیث پر ’ لا یصح کا حکم لگانا اس حدیث کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی دلیل ہے ۔

جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 


عقل کے سو حصوں میں سے ننانوے حصے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے ہیں والی روایت کی تحقیق

0

 السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر: ٩

عقل کے سو حصوں میں سے ننانوے حصے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے۔

 خلق اللہ العقل ، فقال لہ ادبر “ فادبر ثم قال لہ : اقبل فاقبل ، ثم قال : ما خلقت خلقا احب الی منک ، فاعطی اللہ محمدا تسعۃ وتسعین جزءا ، ثم قسم بین العباد جزءا واحدا۔

ترجمہ : اللہ تعالی نے عقل کی تخلیق کی ، پھر اس کو حکم دیا کہ پیچھے ہوجا ، وہ پیچھے ہوگئی ، پھر اس کو حکم دیا : اگے ہو جاؤ وہ آگے ہوگئی ، پھر اللہ تعالی نے اس میں سے ننانوے حصے حضرت محمد صلی اللہ علیہ کو عطا کیے اور ایک حصہ باقی بندوں میں تقسیم کیا ۔

اس حدیث کے بارے میں مشہور محدث ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:-


 انہ کذب موضوع اتفاقا [ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع،رقم:٤٨،ص:٦٢]


یعنی یہ حدیث بلا اتفاق موضوع اور من گھڑت ہے۔

ان کے علاوہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نیز حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ،حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عجلونی جیسے بلند پایہ محدثین نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔

[بالترتیب دیکھیں:فتح الباری :٦/۳٣٤ 

المقاصد الحسنۃ ، رقم : ۲۳۳ ، ص : ١٢٥ 

اللالی المصنوعۃ : ۱/۱۲۹ ، المنار المنیف ، رقم : ١٢٠ ، ص : ٦٦ ، کشف الخفاء ، رقم : ٧٢٣ ، ص : ۲۷۱]


یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مندرجہ بالا ائمہ حدیث نے اس روایت کا پہلا حصہ یعنی ” لماخلق اللہ العقل “ سے لے کر ” احب الی منک نقل کر کے اس حصے کو موضوع قرار دیا ہے ، جبکہ روایت مذکورہ کا وہ حصہ جو زیادہ مشہور ہے ( یعنی عقل کے سو حصوں میں سے نانوے ھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیئے گئے اور ایک حصہ باقی لوگوں پر تقسیم کیا گیا ) حدیث کے اس ٹکڑے کو مندرجہ بالا ائمہ میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا ۔ حتی کہ علامہ سیوطی نے اس روایت کے تمام طریق ذکر کیے ہیں ، لیکن کی طریق میں بھی یہ دوسرا حصہ مذکور نہیں ہے ، روایت کا یہ حصہ صرف مشہور شیعہ مصنف باقر علی نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے  اس کی سند کو ملاحظہ فرمائیں: 

(5 - المحاسن: علی بن الحکم، عن ہشام، قال: قال ابو عبد اللہ (علیہ السلام): لما خلق اللہ العقل قال لہ اقبل فاقبل، ثم قال لہ ادبر فادبر، ثم قال: وعزتی وجلالی ما خلقت خلقا ہو احب الی منک، بک آخذ، وبک اعطی، وعلیک اثیب.

6 - المحاسن: ابی، عن عبد اللہ بن الفضل النوفلی، عن ابیہ، عن ابی عبد اللہ (علیہ السلام) قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ): خلق اللہ العقل فقال لہ ادبر فادبر، ثم قال لہ اقبل فاقبل، ثم قال: ما خلقت خلقا احب الی منک، فاعطی اللہ محمدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) تسعۃ وتسعین جزءا، ثم قسم بین العباد جزءا واحدا.

7 - غوالی اللئالی: قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ): اول ما خلق اللہ نوری.

8 - وفی حدیث آخر انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) قال: اول ما خلق اللہ العقل.

9 - وروی بطریق آخر ان اللہ عز وجل لما خلق العقل قال لہ اقبل فاقبل، ثم قال لہ ادبر فادبر، فقال تعالی: وعزتی وجلالی ما خلقت خلقا ہو اکرم علی منک، بک اثیب وبک اعاقب، وبک آخذ وبک اعطی**  [بحار الانوار - العلامۃ المجلسی - ج ١ - الصفحۃ ٩٧] 

 تاہم روایت کا یہ حصہ بھی پہلے حصے کی طرح موضوع اور من گھڑت ہے کیوں کہ عقل کے بارے میں جتنی بھی روایات ہے  ان جملہ روایت کے بارے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:- 

احادیث العقل کلہا کذب [الموضوعات الکبیری،ص:١٧]

یعنی عقل والے تمام روایات جھوٹی ہیں ۔

نیز اگر چہ باقر مجلسی نے اس ٹکڑے کو اپنی سند کے ساتھ نقل بھی کیا ہے۔لیکن باقر مجلسی کاغو پر مبنی رفض و تشیع بھی قطعاً ان سے روایت لینے کی اجازت نہیں دیتا۔چناچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ روافض کی روایت کے بارے میں حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :- 

واما البدعۃ الکبری کالرفض الکامل ، والغلو فیہ والحط عن الشیخین . ابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما- فلا . ولا کرامۃ . لا سیما ولست استحضر الآن من ہذا الضرب رجلا صادقا ولا مامونا ، بل الکذب شعارہم والنفاق والتقیۃ دثارہم فکیف یقبل من ہذا حالہ 

[(مقدمۃ فی فتح الملہم روایت اہل المبدع والاہواء ص ١٧٢) 

فتح المعیث ج ٢،ص:٦٣ بحوالہ: المیزان ٤/١ ،ولسانہ٩/١ ]


ترجمہ: اگر کسی راوی میں بدعتِ کبریٰ پائی جائے جیسے کوئی راوی غالی رافضی اور شیعہ ہو اور حضرات شیخین بین حضرت ابوبکر صدی اور حضرت عمر فاروق کو ان کے مقام سے نچے دکھانے کی کوشش کرتا ہوں تو ان کی روایت قابل قبول نہیں ، کیونکہ ابھی تک میں نے اس قبیل کے لوگوں میں کسی کو صادق اور امین نہیں پایا جبکہ جھوٹ،منافقت اور تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے تو ایسے شخص کی روایت کیونکر قبول کی جاسکتی ہے ؟ 

لہذا محض اس سند سے مروی اس روایت کو بیان کرنا درست نہیں بالخصوص جب کہ دیگر محدثین اس کو موضوع بھی قرار دے چکے ہیں۔


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 

ہر نبی کو چالیس برس میں نبوت ملنے کی تحقیق : | ما من نبی نبی الا بعد الاربعین

0

 ہر نبی کو چالیس برس میں نبوت ملنے کی تحقیق


سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر: ٨


ما من نبی نبی الا بعد الاربعین 


[ (علی حسن علی الحبی مکتوب بہذہ المراجع فی موسوعۃ الحادیث والاثار الضعیفۃ والموضوعۃ) الاسرار المرفوعۃ  (٤٢١) ، اسنی المطالب ( ۱۲۸۹ ) ، التمییز ( ۱٥۰ ) ، الفوائد الموضوعۃ ( ۹۸ ) ، الدرر المنتشرۃ ( ۳۰۹ ) ، الشفرۃ (٨٤٤ ) ، الغماز ( ۲۰۰ ) ، الکشف الالہی ( ۸۷۰ ) ، کشف الخفاء ( ۲۲۹۸ ) ، اللؤلؤ المرصوع ( ٤٩٠) ، مختصر المقاصد (٩١١ ) ، المصنوع ( ۲۹۱ ) ، المقاصد الحسنۃ (۹۸٥ ) ، النخبۃ ( ۳۰٤)]



ترجمہ ہر نبی کو چالیس برس کے بعد نبوت ملی ہے۔

 اس حدیث کا معنی و مفہوم بھی لوگوں میں مشہور و معروف ہے کہ: ہر نبی کو چالیس برس کے بعد نبوت  عطا کی گئی ہے، حالانکہ محدثین نے اس کو موضوع اور نفس الامر کے خلاف قرار دیا ہے،

 چنانچہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ [ الدرر المتثرۃ ،رقم:٣٦]

حافظ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے  ہیں:

انہ موضوع ،الان عیسی علیہ السلام نبی ورفع الی السماء وہو ابن ثلاثۃ وثلاثین سنۃ، فاشتراط الاربعین فی حق الانبیاء لیس بشیء [المقاصد الحسنۃ رقم،٩٨٥،ص ٣٧٨]

ترجمہ: یہ روایت من گھڑت ہے،کیونکہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو تینتیس برس کی عمر میں آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا،جب کہ اس واقعے سے پہلے ان کو نبوت مل چکی تھی۔لہذا انبیاء کرام کی نبوت کے لئے چالیس برس کو شرط قرار دینا درست نہیں ۔


اس طرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے اور اس کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ یہ حدیث قرآن کریم کی ان آیات کے خلاف ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا یحییٰ علیہ السلام کو بچپن ہی میں نبوت مل گئی تھی۔ [ الموضوعات الکبیری: رقم ٨٠٨،ص: ٢٠٥]

جیسے حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت یحیی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام .


 قال انی عبد اللہ آتانی الکتاب وجعلنی نبیا ۔

 (سورۃ مریم ) 

قال جل جلالہ : اِذ قالَتِ المَلائِکَۃُ یا مَریَمُ اِنَّ اللَّہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِنہُ اسمُہُ المَسیحُ عیسَی ابنُ مَریَمَ وَجیہًا فِی الدُّنیا وَالآخِرَۃِ وَمِنَ المُقَرَّبینَ۔  وَیُکَلِّمُ النّاسَ فِی المَہدِ وَکَہلًا وَمِنَ الصّالِحینَ۔ (ال عمران٤٥-٤٦)

 قال جل شانہ :  اِذ قالَ اللَّہُ یا عیسَی ابنَ مَریَمَ اذکُر نِعمَتی عَلَیکَ وَعَلی والِدَتِکَ اِذ اَیَّدتُکَ بِروحِ القُدُسِ تُکَلِّمُ النّاسَ فِی المَہدِ وَکَہلًا (المائدہ.١١٠)


 اشارت الآیتان الی نزولہ ، وذلک بذکرہما انہ یکلم الناس بالدعوۃ الی اللہ ، وہو کہل ، وقد رفع الی السماء وہو ابن . ثلاث وثلاثین سنۃ علی الصحیح ، والکہولۃ فوق ہذہ السن الکہل : من جاوز الثلاثین وخطہ الشیب . وقیل : من جاوز الاربعین 

روی الطبری فی تفسیرہ عن ابی زید قال : کلمہم عیسی علیہ السلام فی المہد ، وسیکلمہم اذا قتل الدجال ، وہو . یومئذ کھل

فالظاہر انہ رفع وہو ابن ثلاثین او ابن ثلاث وثلاثین علی الراجح

 وہو فی السماء الثانیۃ علی الراجح والصحیح ایضا کما فی . حادثۃ الاسراء والمعراج وغیرہا من السنۃ ، واللہ اعلم 

وستجد ایضا تحدید وتصریح سن رفعہ فی سیرتہ فبکتاب قصص الانبیاء لابن کثیر وغیرہ ممن سردوا الاحادیث والآثار . فی ہذا ، واللہ اعلم


 وقال الحسن البصری : کان عمر عیسی علیہ السلام یوم رفع اربعا وثلاثین سنۃ ، وفی الحدیث : « ان اہل الجنۃ یدخلونہا . « جردا مردا مکحلین ابناء ثلاث وثلاثین 


وفی الحدیث الآخر علی میلاد عیسی وحسن یوسف . وکذا قال حماد بن سلمۃ ، عن علی بن زید ، عن سعید بن المسیب انہ .قال : رفع عیسی وہو ابن ثلاث وثلاثین سنۃ


 فاما الحدیث الذی رواہ الحاکم فی ( مستدرکہ ) ویعقوب بن سفیان الفسوی فی (تاریخہ ) عن سعید بن ابی مریم ، عن نافع بن یزید ، عن عمارۃ بن غزیۃ ، عن محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن عثمان ان امہ فاطمۃ بنت الحسین حدثتہ : ان عائشۃ کانت  تقول:


 اخبرتنی فاطمۃ ان رسول اللہ اخبرہا : انہ لم یکن نبی کان بعدہ نبی الا عاش الذی بعدہ نصف عمر الذی کان قبلہ ، وانہ اخبرنی ان عیسی بن مریم عاش عشرین ومائۃ سنۃ ، فلا ارانی الا ذاہب علی راس ستین . ہذا لفظ الفسوی فہو حدیث .غریب.


 قال الحافظ ابن عساکر : والصحیح ان عیسی لم یبلغ ہذا العمر ، وانما اراد بہ مدۃ مقامہ فی امتہ ، کما روی سفیان بن عیینۃ ، عن عمرو بن دینار ، عن یحیی بن جعدۃ قال : قالت فاطمۃ : قال لی رسول اللہ : ان عیسی بن مریم مکث فی بنی .اسرائیل اربعین سنۃ . وہذا منقطع


 وقال جریر ، والثوری ، عن الاعمش : ان ابراہیم مکث عیسی فی قومہ اربعین عاما . ویروی عن امیر المؤمنین علی : ان عیسی علیہ السلام رفع لیلۃ الثانی والعشرین من رمضان ، .وتلک اللیلۃ فی مثلہا توفی علی بعد طعنۃ بخمسۃ ایام البدایہ والنھایہ

چالیس سال میں نبوت سے سرفراز ہونے کی بات کلی نہیں ؛ بلکہ اکثری ہے ، سیدنا حضرت عیسی ویحین علیہما السلام کے متعلق قرآن کریم میں صراحت ہے کہ انہیں بچپن میں نبوت سے سرفراز کردیا گیا تھا ، حضرت یحین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے { وآتیتاۃ الحکم صبیا } مریم : ۱۲ ]

اور حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدائش کے بعد جب پہلا کلام کیا اس میں یہ بھی فریاما : { وجعلنی نبیا } لہذا ان دونوں حضرات کی نبوت پر کوئی اشکال نہ ہونا. چاہئے ۔

وآتیناہ الحکم صبیا ، اعلم ان فی الحکم اقوالا : الاول : انہ الحکمۃ ،والثانی : انہ العقل . والثالث : انہ النبوۃ . فان اللہ تعالی احکم عقلہ فی صباہ واوحی الیہ ، وذلک لان اللہ تعالی بعث یحیی وعیسی علیہما السلام وہما صبیان ، لا کما بعث موسی ومحمدا علیہما السلام ، وقد بلغا الاشد . ( تفسیر رازی بیروت ( ۲۱۵ ، ۱۹۲ ٫ ۱۱ وقیل : النبوۃ وعلیہ کثیر . قالوا : اوتیہا وہو ابن سبع سنین ، ولم ینبا اکثر الانبیاء علیہم السلام قبل الاربعین . ( تفسیر روح المعانی ۱۰۵ ٫ ۹ ، معارف القرآن ۶ , ۲۴ ، جلالین شریف مع الہامش ۲۵۴ ) فقط واللہ تعالی اعلم.

 

جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری


© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں