ایک تیری چاہت ایک میری چاہت ہے، والی روایت کی تخریج و تحقیق

0

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

سلسلۂ تخریج الاحادیث نمبر 6

ایک تیری چاہت ہے ایک میری چاہت ہے 


اس روایت کے متعلق بہت سے دار الافتاء نے تحقیق  کی ہے ان میں سے کچھ فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔

دار الافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن۔


حدیثِ قدسی  اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو کہتے ہیں جو قرآن کا حصہ نہ ہو اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو نقل فرمایا ہو، چنانچہ کسی بات کو حدیثِ قدسی کہنا اس وقت درست ہوگا جب اس بات کا اللہ تعالیٰ کے کلام  کے طور پر رسول اللہ ﷺ سے منقول ہونا ثابت ہو۔


جہاں تک سوال میں مذکورہ  روایت کی بات ہے تو کتب حدیث میں مذکورہ روایت صرف ایک کتاب ’’نوادر الاصول‘‘ للحکیم الترمذی (المتوفی بین ۲۸۵۔۔۲۹۰ھ  او نحو ۳۲۰ھ) میں ملتی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:


"حدثنا عمر بن ابی عمر قال: حدثنا عبد الوہاببن نافع عن مبارک بن فضالۃ عن الحسن قال: قال اللہ تعالی: (لداود علیہ السلام) یا داؤد! ترید وارید ویکون ما ارید، فاذا اردت ماارید کفیتک ما ترید، ویکون ما ارید، واذا اردت غیر ما ارید عنیتک فیما ترید ویکون ما ارید".


(نوادر الاصول فی احادیث الرسول، الاصل الخامس و العشرون و المائۃ فی ان سعادۃ ابن آدم الاستخارۃ و الرضیٰ بالقضاء  (2/ 107)ط:دار الجیل، بیروت)


ترجمہ:حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا : اے داؤد ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تم اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کر دو تو میں تمہاری چاہت  کے لیے بھی کافی ہو جاؤں گا (یعنی تمہاری چاہت بھی پوری کر دوں گا)،  اور بہرحال ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا، اور اگر تمہاری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تمہیں تمہاری چاہت میں تھکا دوں گا (یعنی پوری کوشش کے باوجود تمہاری چاہت پوری نہیں ہوگی) اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔


لیکن مذکورہ روایت کو حدیثِ قدسی تسلیم کرنے سے دو باتیں مانع ہیں، ایک یہ کہ  اس روایت میں مذکورہ فقرہ رسول اللہﷺسے نقل نہیں کیا گیا ہے، بلکہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے؛ اس لیے اس فقرہ کو حدیثِ قدسی نہیں مانا جاسکتا، مزید یہ کہ اس روایت کی سند بھی انتہائی کمزور ہے؛  کیوں کہ حضرت حسن  بصری رحمہ اللہ تک کی سند میں مذکور تینوں راوی متکلم فیہ ہیں۔ (عمر ابن ابی عمر اور عبد الوھاب بن نافع انتہائی درجہ کے ضعیف راوی ہیں، جب کہ مبارک ابن فضالہ مدلس ہیں اور یہ روایت ان سے  ’’عن‘‘ کے ساتھ منقول ہے)، لہٰذا اس روایت کا خود حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے ثابت ہونا بھی محل نظر ہے۔


          البتہ اس روایت کو معنیً درست قرار دیا جاسکتا ہے، کیوں  کہ  یہ روایت سند کے بغیر بعض شروحِ حدیث اور زہد و تصوف کی کتب میں مذکور ہے۔ جیسے:    


   ۱)قوت القلوب(۲؍۱۴ )لابی طالب مکی (المتوفیٰ:۳۸۶ھ)

 ۲)احیاء علوم الدین(۴؍۳۴۶ )للامام الغزالی  (المتوفیٰ:۵۰۵ھ)

۳)مرقاۃ المفاتیح شرح المشکوٰۃ (۴؍۱۵۶۶ )ملا علی القاری ( المتوفیٰ:۱۰۱۴ھ)


لیکن ان کتب میں مذکور ہونے کے باوجود روایت کے الفاظ کا ضعف ختم نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک تو ان کتب میں یہ روایت سند کے بغیر مذکور ہے، دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ مصنفین حضرات  حکیم ترمذی رحمہ اللہ سے متاخر ہیں، اس لیے  ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے حکیم ترمذی ہی کی روایت کو سند اور حوالہ کے بغیر نقل کیا ہے۔


          خلاصہ یہ ہوا کہ  چوں کہ اس روایت میں حدیثِ قدسی ہونے کی شرائط بھی مکمل نہیں ہیں، اور سند بھی انتہائی درجے کی ضعیف ہے،اس لیے اس روایت کو حدیثِ قدسی کہنا اور حدیثِ قدسی کے عنوان سے آگے نقل کرنا درست نہیں ہے، البتہ مذکورہ مشائخؒ  کا اس عبارت کو ذکر کرنا، اس کے معنی اور مضمون کے درست ہونے کی علامت ہے، چنانچہ اس عبارت یا جملوں کو انہی حضرات کی طرف منسوب کرکے ان کے حوالہ سے ذکر کیا جائے تو اس میں حرج نہیں ، لیکن حدیثِ قدسی کہہ کر نقل کرنا جائز نہیں۔


منہج النقد فی علوم الحدیث (ص: 323):


"الحدیث القدسی: ہو ما اضیف الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واسندہ الی ربہ عز وجل. مثل: "قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واسندہ الی ربہ عز وجل، مثل: "قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیما یروی عن ربہ"، او"قال اللہ تعالی فیما رواہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم". ویقال لہ ایضاً: الحدیث الالہی، او الربانی.


ومناسبۃ تسمیتہ "قدسیاً" ہی التکریم لہذہ الاحادیث من حیث اضافتہا الی اللہ تعالی، کما انہا واردۃ فی تقدیس الذات الالہیۃ، قلما تتعرض لاحکام الحلال والحرام، انما ہی من علوم الروح فی الحق سبحانہ وتعالی".


 حاشیۃ نوادر الاصول ( ص:۳۴۶ )


(ایک حدیث  قدسی مشہور ہے:  "ایک میری چاہت ہے، ایک تیری چاہت ہے، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تو  نے خود کو سپرد کردیا  اس کے جو میری چاہت ہے تو میں تجھے دوں گا وہ جو تیری چاہت ہے، اور اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھے اس میں جو تیری چاہت ہے، پھر بھی ہوگا وہی جو میری چاہت ہے"۔ کیا یہ حدیث مستند ہے؟


جواب

یہ روایت حکیم ترمذی رحمہ اللہ  [ یہاں پر یہ بات واضح ہونی چاہیے ۔حکیم ترمذی کا نام سن کر یا پڑھ کر بعض حضرات کو اس سے شبہ لگ جاتا ہوگا کہ اس سے مراد مشہور محدث امام ترمذی ہے جن کی کتاب ”الجامع السنن“ پڑھی پڑھائی جاتی ہے لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں مشہور محدث کا نام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی ہے اور جن حکیم ترمذی کا نام ابو عبد اللہ محمد بن علی بن الحسن الحکیم الترمذی ہے ان کا انتقال سن: ۲۸۵ھ اور ۲۹۰ھ کے درمیان ہوا ہے۔(ملاحظہ ہو:لسان المیزان ۷/۳۸۷ ] کی کتاب "نوادر الاصول" میں درج ہے، لیکن محدثین نے اسے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے، لہذا اس کو حدیث کی حیثیت سے بیان کرنا درست نہیں۔ فقط  واللہ اعلم )


ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن

فتوی نمبر :143811200008

جمع و ترتیب : خادم الاسلام ماجد ابن فاروق کشمیری 

     اگلا سلسلۂ تخریج الاحادیث نمبر 7

اللہ تعالی کا اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے پیں۔

0

السلام علیکم ورحمت وبرکاتہ

سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر ٥

اللہ تعالی کا اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنا۔

 اللہ تعالی کی شفقت و رحمت بیان کرتے ہوئے عوماً یہ بات بطور حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے ستر ماؤں زیادہ محبت کرتے ہیں۔

 اگرچہ اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے یہ درست ہے تاہم یہ بات کسی حدیث سے ثابت نہیں


اللہ تعالی کی رحمت اور اپنے بندوں سے محبت ہر چیز سے زیادہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : وَرَحمَتی وَسِعَت کُلَّ شَیءٍ [الاعراف ١٥٦]

اسی طرح صحیح مسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

حدثنا محمد بن عبد اللہ بن نمیر حدثنا ابی حدثنا عبد الملک عن عطاء عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ان للہ مائۃ رحمۃ انزل منہا رحمۃ واحدۃ بین الجن والانس والبہائم والہوام فبہا یتعاطفون وبہا یتراحمون وبہا تعطف الوحش علی ولدہا واخر اللہ تسعا وتسعین رحمۃ یرحم بہا عبادہ یوم القیامۃ.

 [ صحیح مسلم، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالی ،رقم الحدیث ٢٧٥٤]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں ، ان میں سے ایک رحمت اس نے جن و انس ، حیوانات اور حشرات الارض کے درمیان نازل فرما دی ، اسی ( ایک حصے کے ذریعے ) سے وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں ، آپس میں رحمت کا برتاؤ کرتے ہیں ، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں مؤخر کر کے رکھ لی ہیں ، ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا ۔


خلاصہ یہ ہیں اللہ تعالی کی رحمت اور اپنے بندوں سے محبت کی کوئی انتہا نہیں ہے اور اللہ تعالی کی اپنے بندوں سے اور ماؤں اپنی اولادو سے محبت میں کوئی تناسب نہیں ہے لہذا اس بات کو بطور حدیث بیان کرنا درست نہیں۔


جمع و ترتیب : خادم الاسلام ماجد ابن فاروق کشمیری 

اگلی تخریخِ حدیث 

ما وسعنی ارضی ولا سمائی ولکن و سعنی قلب عبدی المؤمن کی تخریج

0

 السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ

 سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر: ٤

ما وسعنی ارضی ولا سمائی ولکن و سعنی  قلب عبدی المؤمن.

اس روایت کے بارے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ،زرکشی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

وضعتہ الملاحدہ۔

یعنی یہ ملحدین کی گھڑی ہوئی  روایت ہے۔

 [ بالترتیب دیکھیں:

الموضوعات الکبیری:رقم ٨١٠، ص٢٠٥

المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع :١٦٤،ص ٢٩٣]


علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث عوام کے سامنے علی بن وفا نامی شخص اپنی اغراض کے حصول اور باطل مقاصد کی تکمیل کے لیے روایت کرتا تھا اور جب وہ وجد میں آکر رقص شروع کرتا تو اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے کہتا کہ اپنے رب کے گھر کا طواف کرو۔

[القاصد الحسنہ:٣٨،رقم ٩٩] 


تاہم علامہ سخاوی فرماتے ہیں کہ اس مفہوم سے ملتی جلتی یہ روایت مجم طبرانی میں موجود ہے ۔

ان اللہ آنیۃ من اہل الارض وآنیۃ ربکم قلوب عبادہ الصالحین واحبہا الیہ الینہا وارقہا [المقاصد الحسنہ:ص٣٨،رقم ٩٩]

ترجمہ : بلا شبہ زمین میں اللہ تعالی کے کچھ ٹھکانے ہیں ۔ اور اللہ تعالی کے یہ ٹھکانے اس کے نیک بندوں کے دل ہیں ۔ اور ان میں بھی اللہ تعالی کو زیادہ پسند ، وہ دل ہیں جو زیادہ نرم اور رقیق ہیں ۔

 الحامل یہ مفہوم تو ثابت ہے کہ دل اللہ تعالی کا مسکن ہے ، تاہم مندرجہ بالا الفاظ جو عوام میں معروف ہیں وہ من گھٹرت اور موضوع ہیں۔


جمع و ترتیب : خادم الاسلام ماجد ابن فاروق کشمیری 

    اگلا سلسلۂ تخریج 5

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا بس میں نے چاہا کی اپنا تعارف کرواؤں تو میں نے مخلوقات پیدا کیں: کی تخریج

0

 السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ

 سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر: ٣

کنت کنزا محمیاً فاجیت ان اعرف فحلقت خلقا.

ترجمہ: (اللہ تعالی کا ارشاد ہے) میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا بس میں نے چاہا کی اپنا تعارف کرواؤں تو میں نے مخلوقات پیدا کیں۔

یہ حدیث شہرہ آفاق مفسر قرآن علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر روح المعانی میں آیت ( وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلّا لِیَعبُدونِ ) [51:56] - الذاریات.

کے تحت ذکر کی ہے اور اس روایت کو ائمہ حدیث حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ، امام زرکشی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ چناچہ وہ لکھتے ہیں:

وقد جاء ” کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لاعرف ذکرہ بہذا اللفظ سعد الدین سعید الفرغانی فی منتہی المدارک ... وتعقبہ الحفاظ فقال ابن تیمیہ انہ لیس من کلام النبی ﷺ ولا یعرف لہ سند صحیح ولا ضعیف ، وکذا قال الزرکشی والحافظ ابن حجر وغیرہما ۔[ روح المعانی ٢٧/٢١]

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ روایت جن صوفیاء کرام نے نقل کی ہے، وہ خود بھی اس کے معترف ہیں کہ یہ روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے ، بلکہ یہ ان کا کشف ہے [ روح المعانی ٢٧/٢١] اس کے علاوہ دیگر ائمہ حدیث مثلاً: ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ ابن عراق  رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے[ بالترتیب دیکھیں:

المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع رقم ٢٣٢،ص ١٤١.

القاصد الحسنہ ص ٣٣٤،رقم ٨٣٨.

تنریہ السریع المرفوعہ ١/١٤٨.

کشف الخفاء٢/١٥٥،رقم ٢٠١٦.]

مرعی بن یوسف بن ابی بکر الکرمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

لا اصل لہ۔ [الفوائد الموضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ١٠٢]


محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔

لا اصلہ اتفاقا۔

[سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ واثرہا السیء فی الامۃ: ٦٠٢٣)


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق  کشمیری غفرلہ

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ : جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا ۔

0

السلام علیکم ورحمت وبرکاتہ

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر_٢

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ


ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا ۔


اس روایت کے بارے میں حافظ سخاوی رحمہ اللہ علیہ ،ابن السمعانی رحمہ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے ۔بلکہ یہ درحقیقت یحییٰ بن معاذرازی کا قول ہے۔[ المقصد الحسنہ رقم:١١٤٩،ص ٤٦٦]


اسی طرح مشہور محدث ملا علی قاری رحمہ اللہ عليہ،علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔


انه ليس بثابت -يعني النبي صلى الله عليه وسلم [الموضوعات الكبيري  ص ٢٣٨،رقم ٩٣٧]


یعنی یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔


اس کے علاوہ دیگر محدثین مثلاً علامہ عجلونی رحمہ اللہ علیہ، علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ علیہ  اور شیخ القاو قجی رحمہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔


[بالترتیب دیکھیں۔
کشف الحفاء جلد:٢ رقم ٢٥٣٢،ص ٣٠٩
لترربب الراوی ھاد ٢/١٧٥
اللؤالؤالمرصوع، رقم ٧٥٩٤ ص ١٩١]


يحيى بن شرف الدين النووي المحقق رحمة الله عليه لکھتے:۔

ليس هو بثابت ( المنثورات وعيون المسائل المهمات: ٢٨٦)

محمد بن الحسن رحمة الله عليه( أبو الفضائل الصغاني، الفقيه الحنفي الشيخ الإمام العلامة المحدث إمام اللغة) لکھتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے۔[موضوعات الصغاني ٣٥ ]

المحدث الزرقاني رحمة الله عليه (محمد بن عبدالباقي بن يوسف، أبو عبدالله الزرقاني المالكي) لکھتے ہیں:-


لیس بحدیث یعنی یہ حدیث نہیں ہے۔[مختصر المقاصد الحسنة في بيان الأحاديث المشتهرة على الألسنة ١٠٥٢)


محمد ناصر الدين الألباني رحمة الله عليه لکھتے ہیں:-
لا اصل له


[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء في الأمة: ٦٦]

لکتمیل بحث 

القول الأشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ للسیوطی


جمع و ترتیب :خادم الاسلام ماجد ابن فاروق غفرلہ

اگلا سلسلۂ تخریج 

کاف اور نون کے آپس میں ملنے سے پہلے وہ کام ہوجاتا ہے ۔

0

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 


سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر ١


سمعت الله من فوق العرش يقول للشيء ” كن فيكون ، فلا تبلغ الكاف النون إلا يكون الذي يكون ۔

 جب اللہ تعالی کسی چیز کا حکم  ہو جا تو لفظ ” کن“ کے کاف اور نون کے آپس میں ملنے سے پہلے وہ کام ہوجاتا ہے ۔

یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے،اس روایت کے بارے میں مشہور محدث ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔

موضوع بلا شک (یعنی یہ روایت بلاشک و شبہ من گھڑت ہے)

[المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع ، ص ۱۴۰ ، رقم : ۲۰۲]

اس کے علاوہ حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، علامہ اسماعیل عجلونی رحمہ اللہ اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے [بالترتیب دیکھیں: ذیل اللالی المصنوعۃ،ص:٣

کشف الخفاء ومزیل الالباس،رقم: ١/٥١٨،١٤٨٥

الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الصعیفۃ والموضوعۃ ،رقم ٢٠\١٢٨٣]

علامہ ذہنی رحمہ اللہ اس حدیث کو سند کے ساتھ ہاتھ نکل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔

هذا حديث باطل،واحمد المکی کذاب،رؤیتہ للتذیرمنہ.[تنزیہ الشریعہ المرفوعہ۔١/١٤٨]

محمد بن أحمد بن عثمان الذھبی المحقق رحمہ الله اپنی کتاب میں اس میں اس سند کے ساتھ لکھتے ہیں یہ حدیث باطل ہے ہیں ۔

حدثني رسول الله صلى الله عليه وسلم - ويده على كتفي – قال : حدثني عن الصادق الناطق رسول رب العالمين وأمينه على وحيه جبرائيل – ويده على كتفي – سمعت إسرافيل سمعت القلم سمعت اللوح يقول سمعت الله من فوق العرش يقول للشيء كن فيكون فلا يبلغ الكاف النون حتى يكون ما يكون (العلو للعلي الغفار في صحيح الأخبار وسقيمها (ص 54)



جمع و ترتیب :  ماجد کشمیری 


سلسلہ تخریج الاحادیث نمر 2

رات تمہاری ہے تو کیا صبح ہماری ہوگی | مسلمانانِ ہند کی حالت حاضرہ

0

رات تمہاری ہے تو کیا صبح ہماری ہوگی

قسط اول


ہمارے وطن عزیز کی تازہ ترین صورت حال کے پیش نظر ہمیں اپنے اند ر حوصلہ پیدا کرنا ہوگا،اپنے اندرعزم تازہ پیدا کرناہوگا کہ ہمیں اسی ملک میں رہنا ہے،اپنے دین وایمان کے ساتھ،توحید کی امانت کے ساتھ، ملک کی حفاظت اور سالمیت کی کوششوں کے ساتھ،سخت سے سخت ترین حالات میں بھی ہمیں امید کی شمع جلائے رکھنی ہے اور اس حقیقت کو ذہن میں رکھناہے کہ ؂


دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہےغم کی شام مگر شام ہی توہے


مسلمانان ہند کواپنا احتساب کرتے ہوئے،اعمال صالحہ کے راستے پرآگے بڑھتے ہوئے٬صبر واستقامت کے ہتھیار سے لیس ہو کر ملک وملت کی تعمیر وترقی کے لیے آگے آنا چاہئے،اور خوف اوربزدلی کی ہر رمق کو دل سے نکال کر زبردست غالب اور طاقت و قوت کے مالک ﷲ پربھروسہ کرناچاہئے کہ وہی ظلمت شب کے پردوں کوچاک کر کے صبح روشن طلوع کرتاہے اور جو چاہے جب چاہے کرنے کی قدرت رکھتاہے۔؂

نورکی یہ ایک کرن ظلمات پہ بھاری ہوگی

رات تمہاری ہے تو کیا صبح ہماری ہوگی


✍🏻 حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم

      (سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)


پیشکش: اسلامی زندگی 

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں