سفر معراج کے دو حصے؟ قسط ۴ |ملفوظات گھمن حفظہ اللہ

0

 سفر معراج کے دو حصے؟ قسط ۴

ملفوظات گھمن ۴

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا سفر دوحصوں کا ہے؛ ایک مکہ سے بیت المقدس اور ایک بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کے سفر کو اسراء کہتے ہیں جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اور پھر وہاں سے عرش معلیٰ تک کے سفر کو معراج کہتے ہیں جس کا ذکر سورۃ النجم کی پہلی اٹھارہ آیات میں ہے۔


تو یہاں ”اسراء“ کا ذکر بھی ہے اور معراج کا ذکر بھی ہے لیکن عام طور پر چونکہ مکہ سے بیت المقدس کا سفر زمینی ہے اگر چہ عجیب تر تھا لیکن عجیب شمار نہیں ہوتا اور بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کا سفر عجیب تر ہے اس لئے اس پورے سفر کو ”اسراء کے بجائے“ معراج ہی کہہ دیتے ہیں۔

مرتب: اسلامی زندگی

اگلی قسط

معراج کا سفر کیوں ہوا|ملفوظات گھمن حفظہ اللہ |معراج کا پورے واقعات

0

معراج کا سفر کیوں ہوا قسط ۳

ملفوظات گھمن ۳

 جب نبی کا خون کسی زمین پر گر جائے تو اللہ اس وقت اس زمین والوں کو زندہ نہیں رہنے دیتے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک گرا ہے اس کے لئے اللہ تعالی نے فرشتے بھیجے فرشتوں نے آ کر عرض کیا کہ حضور! آپ اجازت دیں تو ہم ان کو ان دو پہاڑوں کے درمیان میں کر رکھ دیں گے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 میں اللہ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ طائف والے مسلمان نہیں ہوئے تو اللہ ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا فرما دے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے۔ 


اس حالت میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو بد دعا نہیں فرما رہے بلکہ اللہ سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ اللہ ان کی اولاد کو اسلام کی توفیق دے گا۔ اس لئے میں ان کے حق میں بد دعا نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں مکہ تشریف لائے تو جب مکہ والوں نے تکلیف دینے کی انتہا کر دی تو اللہ تعالی نے فیصلہ کیا کہ اے میرے محبوب! اب میں تمہیں عزت دینے کی انتہا کرتا ہوں ۔انہوں نے سمجھا تھا کہ نام ونشان مٹادیں گے لیکن ہم فرش پر نہیں بلکہ عرش پر تیرے چرچے کرتے ہیں، یہاں فرش پر عداوت ہے آپ عرش پر اپنی عزت دیکھیں! تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے لئے جو مشقت برداشت کی ہے اس کے بدلے میں خدانے یہ اعزاز معراج کی صورت میں بخشا ہے ۔ (جاری)

کتبہ اسلامی زندگی (ماجد کشمیری)

اگلی قسط

عورت اپنے شوہر کے لئے بناؤ سنگھار کرے جائز ہے

0

 عورت اپنے شوہر کے لئے بناؤ سنگھار کرے جائز ہے اور اگر غیر مردوں کو دکھانے کی نیت ہو تو یہ خطرناک گناہ ہے


شیخ الحدیث مفتی نذیر احمد قاسمی حفظ اللہ



سوال:- آج کل کشمیر میں بیش تر مسلمان مستورات میں یہ عادت عام ہوگئی ہے کہ خوب بناؤ سنگھار کر کے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ دعوتوں و شادیوں پر اس کا زیادہ ہی اہتمام ہوتا ہے ۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور یہ بناؤ سنگھار غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرکے دعوتِ نظارۂ حسن کا موقعہ فراہم کرتا ہے ۔ جب کہ گھروں میں اپنے شوہر کے لیے اس چیز کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا ۔ براہ کرم شریعت کی رو سے مسئلے کی  وضاحت فرمائیں۔

شبیر احمد …بٹہ مالو ، سرینگر


جواب:- اللہ نے خواتین کا مزاج اور ذہنیت ایسی بنائی ہے کہ وہ ہر حال میں بنائو سنگھار کا شوق رکھتی ہیں اور یہ مزاج اور شوق در اصل ایک اہم مقصد کے لیے ہے ۔ اور وہ یہ کہ وہ اپنے شوہر کے لیے محبوب اور پسندیدہ بنی رہے ۔ اس کا فائدہ زندگی کے ہر مرحلے میں دونوں کو ہوگا۔ میاں بیوی میں جتنی قربت ، ایک دوسرے کی چاہت اور محبت ہوگی اتنا ہی وہ ایک دوسرے کے حقوق  ادا کرنے ، ایک دوسرے کو راحت پہنچانے بل کہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کا اہتمام کریں گے ۔ اس لیے عورت کے لیے لازم ہے کہ وہ یہ شوق ضرور پورا کرے مگر اس طرح کہ وہ اچھے سے اچھا بناؤ سنگھار (مگر شریعت کے دائرے میں) کر کے شوہر کو خوش رکھے۔ اُس کی پسند کو ہر وقت ملحوظ رکھے اور اگر وہ یہ کرے اور نیت یہ ہو کہ میرا شوہر مجھ سے خوش رہے ۔ اُس کا میلان میری طرف برقرار رہے ۔ اس کو مجھ سے کوئی تکدر نہ ہو اور اس غرض کے لیے وہ صاف ستھری رہے ۔ اچھے کپڑے استعمال کرے ، میلی کچیلی ہونے کے بجائے اپنے شوہر کے لیے معطر و پُر کشش رہے تو اس نیک اور عمدہ مقصد کے لیے یہ سب باعث اجر و ثواب ہو گا ۔


لیکن اگر دوسروں کو دکھانے کے لیے بناؤ سنگھار کرے اور اچھے کپڑے پہنے تو اگر غیر مردوں کو دکھانے کی نیت ہو تو یہ خطرناک گناہ ہے اور اگر غیر عورتوں میں اپنی عزت و برتری دکھانی ہو تو بھی یہ فخر و برتری کی نمائش کی وجہ سے غیر شرعی ہے ۔ 


عورت دوسری کسی بھی جگہ چاہے تعزیت کرنے جائے یا کسی تقریب میں جائے ، اقارب یا پڑوسیوں سے ملاقات کے لیے جائے یا شادی بیاہ کی تقریبات میں؛ اگر وہ ایسا بناؤ سنگھار کرتی ہے کہ جس میں دوسرے اُس کی طرف بُری نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہو جائیں تو اس کا گناہ جہاں دیکھنے والوں کو ہے وہیں اس خاتون کو بھی ہے۔ کیوں کہ یہی دعوت نظارہ کا سامان لئے سامنے آتی ہے ۔ 


اس لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے (عورتوں کا حکم دیتے ہوئے فرمایا اور تم جاہلانہ طرزِ پر بناؤ سنگھار مت کرو)۔ اس میں ایک تو غیر اقوام کی طرز اور وضع قطع اپنانے کو جاہلانہ کہا ہے اور دوسرے اجنبی مردوں کے لیے اپنے آپ کو پُرکشش بنانے کو جاہلانہ روش قرار دیاہے ۔ لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہروں کے لیے اچھا لباس ، اچھی وضع قطع ، عطر اور دوسرے لوازماتِ آرائش ضرور اختیار کریں ۔ ہاں بالوں کا کٹ کرنا ، بھنوئیں باریک کرنا ، بیوٹی پارلر جانا ہرگز درست نہیں ہے ۔ اور ساتھ ہی تقریبات میں جہاں غیر مردوں کا سامنا ہو ایسا بناؤ سنگھار نہ کریں کہ اُن پر غیر وں کو دعوت نظارہ دینے کا جرم لازم ہو جائے۔


کتبہ: اسلامی زندگی

معراج کا سفر کیوں ہوا قسط نمبر 2|ملفوظات مولانا الیاس گھمن حفظہ اللہ

0

معراج کاسفرکیوں ہوا ؟ قسط ۲


اب دیکھیں! بنات رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؛ رقیہ، ام کلثوم ، فاطمہ رضی اللہ عنہن چھوٹی چھوٹی بچیاں گھر میں ہیں اور دنیا مخالف ہے، پورے عالم کی فکر ہے، دن رات ایک بندہ کام میں لگا ہو اور غمخوار بیوی گھر میں ہو اور وہ بھی فوت ہو جاۓ تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے! اس لئے اس سال کو " عام الحزن " یعنی غم کا سال کہتے ہیں ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کی طرف تشریف لے گئے ۔ اہلِ مکہ بات بھی نہیں سنتے اور دکھ بھی دیتے تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا شاید طائف والے میری بات سمجھ لیں ۔طائف والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات قبول کرنے کے بجائے مزید ظلم یہ کیا کہ طائف کے اوباش بدمعاش لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا۔ وہ تالیاں بھی پیٹتے تھے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق بھی اڑاتے تھے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر بھی مارتے تھے، جس کی وجہ سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک خون کی وجہ سے رنگین بھی ہوۓ ۔(جاری) 

اگلا صفحہ

ملفوظات متکلم اسلام مولانا الیاس گھمن حفظہ

کتبہ: ماجد کشمیری

معراج کب اورکیوں ہوا ؟قسط ۱ ملفوظات مولانا الیاس گھمن حفظہ اللہ

0

معراج کب اورکیوں ہوا ؟قسط ۱

ملفوظات شیخِ طریقت متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

اس بات پر مؤرخین کا اختلاف ہوا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج کس سال کس مہینے، اور کس تاریخ کو ہوا۔ راجح اور زیادہ قوی رائے یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے گیارہویں سال معراج کے لئے تشریف لے گئے اور گیارہویں سال بھی رجب کا مہینہ تھا اور ستائیس تاریخ تھی۔ چونکہ اقوال اس میں کئی ہیں اور ائمہ کا اختلاف بھی ہے اس لئے میں نے آپ کو صرف ایک قول پیش کیا ہے جو رائج اور سب سے بہتر ہے۔

    پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے معراج کیوں کروایا ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اصل میں اللہ رب العزت کا نظام یہ ہے کہ جب کوئی انسان اللہ کے دین کے لئے مشقت برداشت کرتا ہے تو جس قدر مشقت برداشت کرے اللہ اس سے زیادہ اس کو عزتیں دیتا ہے۔ کچھ دیر تو انسان کومشقت برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن نتیجہ مشقت نہیں بلکہ عزت ہی ہوتا ہے۔


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کفارِ مکہ نے ہر قسم کے دکھ کے دروازے کھولے اور راحت کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خیال کے مطابق وہ جس قدر تکالیف دے سکتے تھے انہوں نے دی ہیں ۔سب سے زیادہ زیادتی کا آخری مرحلہ کسی معزز آدمی کے ساتھ اس کا بائیکاٹ ہوتا ہے ۔اہل مکہ نے تین سال تک حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بائیکاٹ کیا اور شعب بن ابی طالب میں تین سال بند رکھا۔ جب رسول اکر ﷺ اہم شعب بن ابی طالب سے نکلے ۔ آج کی زبان میں اے جیل کہ میں جو بغیر چارد یواری کے تھی اس سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غمخوار بیوی ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ (جاری ) 

دوسرا صحفہ 


مرتب ماجد کشمیری

پہاڑ سروں پر اٹھا کر تورات منوانا اکراہ فی الدین ہے،جبکہ دین میں اکراہ نہی| سورہ البقرہ کی آیت پر سوال کا جواب۔

0

 سوال: پہاڑ سروں پر اٹھا کر تورات منوانا اکراہ فی الدین ہے،جبکہ دین میں اکراہ نہیں!


جواب: اذان سنت ہے اور ختنہ کرانا بھی سنت ہے، مگر کسی علاقہ کے مسلمان ان کو ترک کریں تو جنگ کر کے ان کو ان کاموں پر مجبور کیا جائے گا، اور یہ کراہ فی الدین نہیں، اسی طرح بچوں کا مدرسہ میں داخلہ لینا اختیاری ہے، مگر جو داخل ہو گیا، وہ اگر سبق یاد نہیں کرے گا تو سزا پائے گا، یہ اکراہ فی التعلیم نہیں، اسی طرح بنی اسرائیل مؤمن تھے، انھوں نے خود تورات مانگی تھی، اب اگر نہیں لیں گے تو مجبور کیا جائے گا ، پس یہ کراہ فی الدین نہیں ، وین میں اکراہ: دین کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کا نام ہے، یہ دین پر عمل کرانے میں سختی کرتا ہے جو جائز ہے۔ (ہدایت القرآن:ص:۹۸)


کتبہ: ماجد کشمیری

نماز میں آنکھیں بند کرنے کا مسئلہ

0

نماز میں آنکھیں بند کرنے کا مسئلہ


الحمدللہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی امابعد۔


 میں علماؤں کی تتبع میں چند گزارشات آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں۔


یاد رہیں! انسان کے اوپر اللہ تعالی  کے جو عبادات ہیں (عبادات کا معنی گرچہ وسیع وعریض ہے) ان میں سے نَماز ایک عظیم الشان حثیت و خصوصیت رکھتی ہیں۔  جس سے کسی اور عبادت کا تقابل کرنا مشکل ہے۔ یہاں تک وارد ہوا ہے کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے کے مابین جو فرق ہے وہ نماز کا ہے۔ نماز کے عمیم بنیادی مسائل معلوم ہونا چاہیے۔ یہ ہم پر واجب ہے۔


نماز کا تقاضا کیا ہے: وہی نماز اللہ کے یہاں مقبول ہیں، جس میں خشوع و خضوع پایا جاتا ہوں۔ وارد ہوا ہے کہ نماز خشوع و خضوع کے بغیر نامکمل ہے: گر چہ اس پر فتویٰ نہیں ہیں۔ ہم میں سے بہت سارے عابدین، عاجزین اور نماز گزار ایسے ہے جو نماز میں خشوع و خضوع سے بھی عاجز ہیں۔ مقبولیت کی علامت یہی ہے اور اصل تقاضہ یہی ہے ۔


 اس پر میں ایک جملہ کہا کرتا ہوں کہ نماز کے تین منزل ہیں۔ نماز پہلے ریاکاری میں شامل ہوتی ہیں، اس کے بعد عادت بن جاتی ہیں اور یہی عادت پھر عبادت بن جاتی ہیں۔ ان مراحل سے اس کو گزرنا پڑتا ہے۔ جب تک یہ ان درجوں سے گزر  نہ جاتی تب تک عبادت کے درجے میں فائز نہیں ہوتی۔ (اگرچہ ابتدائی منزلین کی نماز بھی اللہ تبارک و تعالیٰ قبول کرتا ہے اور ہم اسی کی دعا کرتے ہیں۔) پر کہیں نہ کہیں عبادت کے اصل تقاضے کی نفی اور خلجان محسوس ہوتی ہے۔ جیسے میں عرض کر رہا ہوں کہ نماز میں خشوع وخضوع کا ہونا ضروری ہے اس کا عظیم  ہونا، بھاری ہونا ضروری، کیونکہ جب اس کو احسان کی ترازو میں تولا جائے گا تب اس کا عظیم ہونا ضروری ہے یعنی اس میں بھاری پن ہونا ضروری ہیں۔ اگر یہ نماز ہلکی ہوئی تو ہم گھاٹے کی طرف جا رہے ہیں۔ پر  نماز میں خیال آنے کا انکار نہیں کیا جا سکتا، پر خیال سے بچنا بھی ضروری ہے، اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں: الذین ھم  فی صلاتہم خاشعون۔ وہ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع سے ملنسار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے اندر خشوع و خضوع کو پیدا کرنے کے لیے تدابیر استعمال کرتے ہیں تو کر لیں۔ کیونکہ خوش و خضوع کا ہونا، عبادت کا اصل تقاضا ہے۔  اسی طرح نماز میں آنکھیں بند کرنے کا مسئلہ ہے: یہ کرنا، انہیں  منزلین میں پایا جاتا ہے جن کو ریاکاری  اور عادت کے نام سے موسوم کیا تھا۔ پر ان کو طلب ہوتی ہے کہ اس کو عبادت بنائیں ۔ عبادت بنانی ہے تو اس میں خشوع و خضوع کا لانا لازم ہے۔ انہیں ابتدائی دور میں ہمیں آنکھیں بند کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔  اب مسئلے کا حکم جان لیجئے:


 نماز میں آنکھیں بند کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے، پر خوش و خضوع کا ہونا ضروری ہے اس لیے ابتدائی منزلین میں کراہت رفع ہوتی ہے اس مقصد سے کہ ہمیں نماز میں آنکھیں بند کرنے سے خشوع و خضوع سے حاصل ہوں۔ 


کتبہ: ماجد کشمیری

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں